Real Urdu Love sad story, broken sad best novel, urdu latest new novel 2022, romance novel in urdu, pyar ki dastan story and novel
Dastan-e-Ishq

میری داستانِ زندگی

ایک اور تحریر آپ کی خدمت میں

میری کہانی یا داستان عشق

اس سے پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس بلوگ کو میں نے اچھی طرح جانچا

یہاں میرا کوئی دوست یا خاندان کا کوئی نہیں ہے

اور حقیقت میں مجھے اپنوں پر ذرا بھی اعتماد نہیں ہے

کیونکہ زندگی میں بہت دھوکے کھا لیے

اب نہیں


اب کوشیش یہی کہ ایسے دوست تلاش کیے جائیں جو نہ مجھے جانتے ہوں نہ میں ان کو

بس الفاظ ہی یاد رہیں

داستان شروع کرتا ہوں

کہ آج سے آٹھ سال پہلے کی

میں ایک نہایت ہی مزہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا

نہ گھر میں ٹی وی تھا نہ ہی کوئی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ

اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا

گلی سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ تھی

اور گلی میں ہم عمر بھی کوئی نہ تھا

بس گھر میں اکیلا اپنی دنیا میں مگن رہتا تھا

اور دکھی رہنا

اور اس وجہ سے پڑھائی میں بھی کمزور تھا

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کسی بھی جماعت بھی پوزیشن نہیں لی

اور اس وجہ سے پورے خاندان والے باتیں سناتے تھے

اور میرے ماں باپ بھی

ہماری فیملی میں پوزیشن کے نام پر بہت ریس رہی ہے

اور میرے سامنے باقی کزنز کو انعامات سے نوازا جاتا

اور مجھے باتیں

اور اس کے علاوہ پڑھائی کے نام پر بہت مارا جاتا

نشان پڑ جاتے تھے

ان کے نزدیک پوزیشن ہی سب کچھ تھی

غرض بچپن ایسے ہی گزرا

اور ایک دن

آٹھ سال پہلے میں اپنے ماموں کی شادی پر گیا ہوا تھا

اور تب جوان تھا عمر کوئی بارہ تیرہ سال ہوگی

اور کچھ بغاوت بھی کر چکا تھا

میری ایک خالہ ہے جو ہم سے دور اسلام آباد رہتی تھیں اور ان کی سات بیٹاں تھیں اور ایک بیٹا

ہم لاہور اور وہ اسلام آباد

اور ان کے گھر جانا بھی بہت کم ہوتا تھا

ان کی ایک بیٹی تھی جس کی عمر میری عمر کے لگ بھگ تھی

میں نے شادی کے وقت پہلی بار اس لڑکی کو دیکھا

وہ میری زندگی کی پہلی محبت بن گئی

جب دیکھا تو ایسے لگا کہ جنت میں آگیا ہوں

کسی میں اپنے آپ کو دیکھ لیا

غرض اس کے بعد نہ مل سکا

بس ہلکی بات ہوئی تھی

جس کی وجہ سے میں اسکا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا

عرض پہلی محبت کا کسی کو بھی پتا نہ تھا

اور ان کا خاندان ہم سے کافی اونچا تھا

اور پھر پریشان رہنے لگ پڑا

اور باغی بھی بن چکا تھا

اور ڈیپریشن کی وجہ سے سگریٹ پینی شروع کردی

اور وقت گزرتا گیا

فائدہ یہ ہوا تنہائی میں مزہ آنے لگ پڑا اور کوئی اور لڑکی بھی نہ آئی زندگی میں

اور وقت گزرتا گیا

میں نے کچھ سالوں بعد ماں سے بات کی انہیں حال دل بتایا

انہوں نے بھی کہا بھول جاو

پھر آٹھارہ سال کی عمر میں مجھے کسی طرح اس کی تصویر ملی

جب دیکھا تو ہوش اڑھ گئے

یہ کیا جسے دیکھا تھا یہ وہ نہیں تھی

میرے خوابوں میں اکثر آتی تھی

میرا دل اسے پہچان سکتا تھا

اور میں اتنی عمر دھوکے میں رہا

مگر جس نے تصویر دی اس نے دھوکہ دیا اور ساری فیملی کو بتا دیا

اور سب نے طعنے دیے

کہ تو نالائق تجھے تو خاندان میں کوئی بھی رشتہ نہ دے

اور تیری اوقات کیا ہے

جب اوقات کی بات کی تو ذہین میں بیٹھ گئی

بس کیا کچھ بھی کھونے کو نہ تھا

اور ایک نفرت خاندان کیلئے بن گئی

اور زندگی اپنے مطابق گزانے لگ پڑا

اور محبت کی تلاش شروع کردی

اور ہوا کچھ ایسے کہ اسی مہینے میری حقیقی محبت مجھے نظر آگی

وہ میری ممانی کی سہیلی کی بہن تھی

اس سے ملا

تو اس نے بتایا کہ اسے بھی میں پسند تھا

لیکن اس کی محبت پر اب کسی اور کا حق ہے

اسکا نکاح ہوچکا ہے

اس نے کہا تم نے مجھے پانے کی کوشیش کیوں نہیں کی

میں نے اسے ساری صورتحال بتائی

اور پھر میں نے کہا تم نے کیوں نہیں کوشیش کی

اس نے کہا مجھے بھی ایسا لگا کہ تم اپنی کزن سے محبت کرتے ہو

اور ہم دونوں کے آنکھوں میں آنسو آگئے

اور آخری جملہ اس طرح تھا

اپنا خیال رکھنا اور اب ہم دونوں کی محبت کا یہی اختتام ہے

اب ہم کبھی دوبارہ نہیں ملیں گے اور خوش رہنا

اور پھر آنسوں کے بھرپور دونوں رخصت ہوگئے

اور پھر کبھی نہ ملے

میں اپنی محبت سے ملنے کے بعد سب ہار چکا تھا

مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں نے سب کھو دیا

باہر سڑک پر ناامید نکل پڑا

نہ پتا تھا کہاں جانا ہے اور کہاں جارہا ہوں

کوشیش تھی کسی ٹرک کے نیچے آجاوں

مگر دل میں کچھ ایمان باقی تھا

اور رک گیا

اور گھر آگیا

اور اس وقت سول انجئنرنگ کرہا تھا لاہور میں

پڑھائی درمیان میں چھوڑ دی

اور پورا دن قریبی پارک میں گزار دیتا

اور خاندان والوں کو تعنوں کا موقع مل گیا

اور کوئی ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتا تھا

اور مجھے کچھ فرق نہ پڑتا تھا

کیونکہ مقصد کچھ نہ تھا

نماز روزہ تو دور کی بات اللہ کی ذات پر بھی یقین اٹھ گیا تھا

کیوں ایسی زندگی بنائی

اور ایسا انسان جو نہ دنیا کا تھا نہ دین کا

پھر ایک دن سگریٹ پی رہا تھا تو مجھے میرے بھائی نے انڈین موٹیویشنل سپیچ سنڈ کی

سندیپ مہشواری

مجھے تو پہلے ہی مسلمانوں سے نفرت تھی کہ نماز روزہ تو کرتے ہیں

مگر جینے کیوں نہیں دیتے ہم جیسوں کو

تو اس اسپیچ میں بتایا گیا کہ زندگی کو کھل کر جیو

کسی کے ساتھ غلط نہ کرو اور اپنے لیے جیو

یہ باتیں دل کو لگیں

زندگی میں کوئی اچھا دوست تو نہ تھا نہ ہی کوئی لڑکی

اس وقت میں ایک دکان پر کام کرنے لگا

ہوسیل کی

بسکٹ ٹافیاں اور گھریلو سامان کی

کافی بڑی تھی

میرے ایریا میں سب سے بڑی تھی

اور چھ گھنٹوں کے 200 ملتے تھے

میرا کام بس سیٹنگ کرنا تھا

سامان خانوں میں لگانا اور ترتیب دینا

مجھے پسند بھی تھا

اور مجھے وہاں اپنے جیسے مخلص کچھ دوست بھی ملے

کوئی نہایت غریب تھا

کسی کے ماں باپ نہیں تھے

غرض انہوں نے بہت ساتھ دیا

اور ہمارا خاندان مڈل کلاس تھا کیونکہ بابا بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے اور 2 بھائی جو مجھ سے بڑے تھے وہ بھی کچھ ہلپ کروا دیتے تھے

اور سب کچھ تھا گھر میں

تاہم جب ایسے دوستوں سے ملا تو غرور ٹوٹ گیا

میں مکمل باغی بن چکا تھا

اور دن رات کمپیوٹر پر فلمیں دیکھتا

اور مجھے سب سے زیادہ عاطف اسلم کے گانوں پسند آنے لگے

میں بدلہ لے رہا تھا کہ میں اپنے خاندان والوں کو سزا دے رہا ہوں

مگر نہیں جانتا تھا کہاں جا رہا ہوں

اور مکمل بے دین بنا ہوا تھا

پھر وقت ایسا آیا کہ میری بہن کی شادی ہوگئی

وہ مجھے بہت پیاری تھی

میری اکیلی بہن تھی اور مجھے بہت سمجھاتی تھی

اور اس کی شادی سرگودھا میں ہوئی

میرے کزن کے ساتھ

تو میں وہاں گیا

اور میری محبت بھی وہی رہتی تھی

اس سے ملاقات ہوئی

مگر وہ بدل چکی تھی

اس نے کہا میں بہت خوش ہوں

میرا اب ایک بیٹا بھی ہے

میں کسی طرح آنسو چھپاتے ہوئے اسے مبارک باد دی

اور اس نے کہا

تہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا

میری محبت کو ختم کرنا ہوگا

میری قسم ہے کہ تم چھ مہینوں کے اندر شادی کرو گے

اس نے کہا  میں تمھاری جاگیر نہیں ہوں

تم مجھے اب کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتے

اس کے چہرے سے نظر آرہا تھا کہ اس کی محبت

وہ دل پر کسی طرح پتھر رکھ کے کہہ رہی تھی

میں نے کہا میرا دل نہیں ہے شادی کرنے کو

تو اس نے کہا

میری ایک بات بھی نہیں مانوں

اور اس نے بہت کڑوی باتیں کرنا چاہی

کہ میں اسے بھول جاوں

مگر میں مسکرا دیتا

اور اس نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا

3 ماہ کا نہایت معصوم

اس نے کہا

دیکھو اس کی کیا غلطی ہے

یہ اپنے ماں باپ کو ساتھ دیکھنا چاہتا ہے

اور میں اس بات پر ہل گیا

اور پھر گھر آکر کام پر گیا اور اور ٹائم لگانے لگ پڑا

اور 15000 تک کمانے لگ پڑا

اور گھر میں علیحدہ پورشن تو پہلے ہی میرے پاس تھا

تو ماں نے گھر والوں سے کہا

میرا نکاح کروا دو

اور گھر والوں ٹال مٹول کرتے رہے

اتنی تنخوہ میں بھلا کیسے خاندان میں رشتہ ملتا

اور گھر والوں کی بھی ضد تھی

مگر خاندان سے طعنے اور نفرت ملی

اور پھر میرے پر غصے والی حالت آگئی

ذرا ذرا بات پر لڑ پڑنا

اور چیزیں ادھر ادھر پھینکنا

اور سارے پیسے خرچ کرنے لگ پڑا

اور پھر ایسے وقت گزرتا گیا

احساس کمتری سے

کھل کر زندگی جینے

سے غصے میں رہنے کا سفر تھا

وہ سخت گرمیوں کے دن تھے

اب میرے دل میں کسی بھی انسان کے لیے کوئی محبت نہ تھی

اور دل میں بس نفرت اور غصہ تھا

میرے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا

اور کوئی بھی میرے دل میں اپنا نہیں تھا

پھر ایک دن میرے دل میں خیال آیا

کیوں میں خود کو اتنی اذیت دے رہا ہوں

آخر ایسا کب تک چلتا رہے گا

اور میں کئی دن تک اس بارے میں سوچتا رہا

پھر فیصلہ کیا کہ خود کو کچھ بنانا پڑے گا

کم از کم کسی دوسرے کی نظر میں عزت نہ ہو میں اپنے آپ کو تو عزت دے سکوں

خود کی نظر میں تو اونچا بن سکوں

بس کیا

تب سے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد کبھی سگریٹ نہیں پیوں گا

اور میں نے دل سے پوچھا

اے دل! تجھے کس کام میں محبت ہے

مجھے کھانا پکانا اچھا لگتا تھا

میں نے کہا کہ بس اب اس کام میں ماسٹر بننا ہے

اور لاہور میں مختلف انسٹیٹوٹس میں جانا شروع کردیا

جو ککنگ کا کورس کرواتے تھے

جب وہاں گیا تو پتا چلا کہ ان کی تو فیسیں ہی بہت زیادہ ہیں

دو سے تین لاکھ سالانہ

میرے پاس تو صرف میرا وجود اور دل تھا

اور ایک عزم تھا

بس ارادہ کر لیا چاہے جو مرضی ہو

میں داخلہ حاصل کرکے ہی رہوں گا

بس ایک دن میں ایسے ہی سوچ رہا تھا

کہ خدا سے مدد مانگنی چاہیے کہ نہیں

میرا خدا پر مکمل یقین اٹھ گیا تھا

پھر فیصلہ کیا

اب سے میں نے حق کی تلاش شروع کرنی ہے

کیا خدا ہے یا نہیں

یہ بات تو ہر کسی سے سنی تھی

ہر بنانے والے کو کسی نہ کسی نے بنایا ہے

پھر خیال آتا تھا کہ خدا کو کس نے بنایا

بس اس سوال کی تلاش میں لگ گیا

اور یہاں سے میری زندگی کا بہترین سفر شروع ہوگیا

مجھے یہ نظر آیا کہ ہر چیز کو بنانے والا ایک ہے

اس میں کسی قسم کا شک نہیں

جب بات آتی ہے کہ خدا کو کس نے بنایا

تو میں نے ایک دن میں میں سوچا کہ خدا کو مان لیتا ہوں کسی نے بنایا

بس کیا حق نظر آگیا

مجھے یہ پتہ لگا کہ اگر خدا کو کسی نے بنایا تو اسے بھی کسی نے بنایا ہوگا

اور پھر اسے بھی کسی نے

یوں یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا

تو مجھے اس چیز پر کلیئر ہو گیا کہ خدا ایک موجود ہے

پھر نیا سوال آگیا کہ وہ کون سا خدا ہے

کیا وہ اللہ ہے

کیا وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں

کیا وہ بت ہیں

تو میں نے اس پر سوچنا شروع کر دیا

جب میں نے ہندوؤں کے بارے سوچا

تو اس میں ایک سوال نظر آیا

بُت کبھی خدا نہیں ہو سکتے

اور یہ خدا کے بارے میں شرک ہے

اسی طرح عیسائیت کے بارے میں سوچا

تو دل نے کہا

انسان کبھی خدا نہیں ہو سکتا

نہ ہی خدا کا کوئی بیٹا ہوسکتا ہے

کیونکہ اگر بیٹا ہوگا تو پھر بہت سارے خدا ہوں گے

اگر بہت سارے خدا ہوں گے تو دنیا کے نظام کا کیا ہوگا

اور مجھے حق نظر آتا گیا

میں نے مختلف مذاہب کی کتابیں پڑھیں

ان میں کہیں نہ کہیں لکھا تھا کہ ایک آخری نبی آئے گا

اور باقی مذاہب کی جب کتابیں پڑھیں تو مجھے ان کی پر یقین نہیں آیا

میرے دل نے ہی نہیں مانا کہ یہ خدا ہو سکتے ہیں

آخر میں میں نے قرآن مجید کھولا

اور ترجمہ کے ساتھ سورہ رحمان پڑھنے لگ پڑا

مجھے پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ میری کب آنکھوں میں آنسو آگئے

قرآن مجید کی ایک چیز نظر آئی

پہلی آیت چوتھی آیت کے ساتھ منسلک ہے

اسی طرح چوتھی دسویں آیت کے ساتھ

اور سب کا لنک پہلی آیت کے ساتھ

میرے دل نے کہا کہ یہ کتاب کسی انسان نے کبھی بھی نہی لکھی ہو گی

یہ ضرور خدا نے لکھی ہے

کسی انسان کا اتنا ذہن نہیں ہے

اگر وہ پہلا جملہ کہہ رہا ہے تو اس کا لنک چوتھے جملے کے ساتھ بھی ہے

مثال کے طور پر میں ایک بات کہہ رہا ہوں تو اس کا لنک میری چوتھی بات سے بھی ہونا چاہیے

پھر نئی بات کرتا ہوں تو اس کا بھی لنک پر پہلی آیت کے ساتھ ہونا چاہیے

کسی انسان کا اپنا ذہن نہیں ہے

اور اس نے مجھے کوئی بھی غلط نظر نہیں آیا

بس کیا نیا سوال کھڑا ہو گیا

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھی

مگر وسوسہ آیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو نہیں دیکھا

میں نے گوگل کھولی

اور تمام ان چیزوں کو دیکھا

جن کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں موجود تھا

مثال کے طور پر احد پہاڑ طائف کی وادی

اس کے علاوہ مجھے باقی انبیاء پر بھی یقین ہو گیا

جب میں نے ان کی چیزیں دیکھی جگہیں دیکھی قبریں دیکھیں

اور مجھے اسلام پر یقین آ گیا

میں نے کلمہ پڑھا اور نئے سرے سے اسلام قبول کیا

اور مجھے اتنا سکون ملا

جیسے پوری دنیا میری ہوگئی

وہ نماز قرآن وغیرہ پڑھنا شروع کر دیا

نماز پڑھتا تھا تو ایک سوال آتا تھا کہ ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں

تو نظر آیا کہ نماز اللہ سے رابطہ کا نام ہے

اگر کوئی نماز پڑھتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ سے رابطے میں ہے

پھر سوال آیا کہ کئی لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں مگر وہ اللہ سے بغاوت بھی کرتے ہیں

تو مجھے نظر آیا

جس کا اللہ سے صحیح تعلق ہوگا ٹھیک رابطہ ہوگا اس کی ہی نماز کا فائدہ ہے

ورنہ فرض تو ادا ہو جائے گا لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا

اور مجھے نماز کی اہمیت سمجھ آگئی

اور وہ مجھے برائی اور بے حیائی سے روکنے لگ پڑی

پھر میرے دل میں آیا کہ قرآن کا کیا مقصد ہے

تو اس پر میں سوچنے لگا

تو مجھے نظر آیا کہ قرآن کا حق یہ ہے کہ اس پر غور و فکر کیا جائے

قرآن کا ترجمہ پڑھا جائے تاکہ پتہ چلے کہ اللہ ہم سے کہنا کیا چاہ رہا ہے

او ترجمہ کے ساتھ ساتھ تفسیر بھی

جس میں ہر چیز کلئر ہو جاتی ہے

اور قرآن میں ایک اور خوبصورت چیزیں نظر آئی

کے اللہ تعالی نے عربی میں قرآن کیوں نازل فرمایا

حالانکہ اردو میں بھی آ سکتا تھا انگلش میں بھی آ سکتا تھا

عربی میں کیوں آیا

تو پتہ چلا کہ

عربی ایک ایسی زبان ہے جس میں الفاظ ایکسپریشن کے ساتھ ساتھ ہیں

مثال کے طور پر میں کہتا ہوں کہ تم کون ہو

تو آپ نہیں جانتے کہ میں غصے سے کہہ رہا ہوں یا محبت سے

طنزیہ انداز میں یا مزاح میں

تو عربی میں ہر ایکسپلینیشن کے الفاظ ہیں

ہر جملے میں کیا ہر لفظ میں پتہ چل سکتا ہے کہ اللہ تعالی کس انداز میں مخاطب ہیں

پھر کیا میں ایسا بن گیا

کہ اگر مجھے کاٹ بھی دیا جائے تب بھی اپنے دین سے نہیں ہٹ سکتا

اور یہ سوچتے سوچتے کافی وقت گزر گیا

اور ایک دن مجھے کالج میں ایڈمیشن مل گیا

لاہور میں سکیم موڑ کے پاس سیگل کالج ہے وہاں

اور وہ کو ایجوکیشن تھا

اور مجھے وہاں آسانی سے داخلہ مل گیا

اس سے پہلے مجھے آج بھی یاد ہے

یک رمضان المبارک تھا

میں نے ارتغل دیکھنا شروع کیا تھا

اور جمعہ کا دن تھا

مجھے مسلمانوں سے نفرت ہوگئی تھی

لیکن جب میں نے مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا

تو اس چیز نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا

مجھے پتہ چلا کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں

اور اسی دن میں نے اسلام پر ریسرچ شروع کی

اور بیس رمضان کو میری ریسرچ مکمل ہو گئی تھی

مجھے مکمل ہدایت مل چکی تھی

اور دل سکون میں تھا

خیر مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ ستمبر 2020 کا دن تھا سات تاریخ تھی جب میں کالج گیا

میں پہلے دن جب کلاس میں گیا تو ہمیں رشین سیلیڈ بنانی سکھائی

اور بیس لڑکیاں 12 13 لڑکے

میں نے ایک کی پہنی ہوئی تھی جس پر IYI کا نشان تھا

تو پہلے ہی دن میں مشہور ہو گیا اور میرا نام ارطغل پڑ گیا

میں چپ رہتا تھا

کیونکہ میں پہلے زندگی میں اپنی محبت کے سوا کسی بھی لڑکی سے نہیں ملا تھا

میں اپنے دوستوں کو اپنی ریسرچ بتاتا رہتا تھا

اور اس بات پر بھی مشہور ہوگیا

میرے دوستوں نے ضد کر کے کلاس میں

ہفتے کو میری سپیچ ایک گھنٹے کے لیے رکھو دی

وقت گزرتا گیا

اس دوران میری میرے ایک سر سے بھی ان بن ہو گئی

کوکنگ کے کورس میں آدھے وقت ہمارا الیکٹریکل ہوتا تھا

اور آدھے وقت میں ہمارے فوڈ اینڈ نیوٹریشن کی کلاس ہوتی تھی

پریکٹیکل کی کلاس میں کچھ ایسا ہوا

کے کافی دنوں سے ہمیں پریکٹیکل کا موقع نہیں دیا جا رہا تھا

چار گروپ تھے جس میں ہمارے گروپ کو سیکھنے کا صحیح طرح موقع نہیں مل رہا تھا

اور اس طرح کھانا بنانے کے بعد سب ٹیسٹ کرتے تھے

جبکہ ایک گروپ کو زیادہ دیا جاتا تھا

مجھے کوئی کھانے کی چاہت تو نہ تھی

مگر یہ ناانصافی تھی

اور میں نے اس کے خلاف ایسی آواز بلند کی

کے پورے کالج میں ہلچل مچ گئی

میں نے کہا

میرا اتنا شوق ہے کوکنگ کا مگر آپ مجھے ٹائم نہیں دے رہے

کیوں ہمارے گروپ پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا

ہم بھی پڑھنے آئے ہیں

جب کہ اس گروپ کے ساتھ میرے تعلقات خراب ہونے لگ پڑے

اور جو جو میرے ساتھ تھے سب غائب ہوگئے

اور میں اکیلا تھا

میرے پورے گروپ نے مجھے دھوکا دے دیا

دو گروپ لڑکوں کے تھے دو گروپ لڑکیوں کے تھے

ایک وقت ایسا آیا کہ میں پرنسپل کے سامنے غلط ثابت ہورہا تھا

وہ سر کہتے

اس گروپ کے لڑکے زیادہ سمجھدار ہیں

اس لئے مجھے یہ گروپ پسند ہے

بس میں نے کہا

یہ انصاف نہیں ہے

جو کمزور ہے ان پر زیادہ توجہ دینی چاہیے

اور میرے ساتھ کچھ لڑکیاں بھی کھڑی ہوگی

مجھے لگتا تھا کہ کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا

اور میں نے بعد میں ان کا شکریہ بھی ادا کیا

اور سر کو غلطی کا احساس ہوگیا

اور سب نے پوری کلاس سے معافی بھی مانگ لی

اور سر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوگئے

وقت گزرتا گیا

اور آخری تین مہینے رہ گئے تھے

اور وہ گروپ مجھے بہت ہی تنگ کر رہا تھا

وہ امیر گھرانے کے تھے

وہ سوچتے تھے کہ میں نے ایسی بات کیوں کی

میں زیادہ ان کی طرف دھیان نہیں دیتا تھا

اور نہ ہی ان کی کسی بات کا جواب دیتا تھا

میرے گروپ نے پہلے ہی مجھے دھوکا دے دیا تھا

تو کچھ لڑکیاں میرے حق میں بولنے لگ پڑیں

میں نے ان کو منع کردیا

اور کہا کہ یہ میری جنگ ہے

میں نے جو کیا اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے

لیکن وہ پھر بھی میرا ساتھ دینے پڑیں

اور تب میرے دل میں کہیں احساس آیا کہ اس چیز کو روکنا ہوگا

وقت گزرتا گیا

ہمارے کالج کے سامنے ایک پارک تھی

جب کلاس ختم ہوتی تھی

تو مجھے اکیلے پارک میں واکنگ کرنے کا بہت شوق تھا

اور مجھے بہت پسند تھی

کان میں ہینڈ فری

اور ترجمہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت

اور میں زیادہ لڑکیوں سے باتیں بھی نہیں کرتا تھا

ایک دن کچھ ایسا ہوا

میری کلاس کی سب سے خوبصورت ایک لڑکی تھی

نہ ہی مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ تھا نہ ہی ظاہر کرتا تھا

میں تو اسے ایک انسان کی طرح سمجھتا تھا

میں پارک میں گھوم رہا تھا

تو اس نے اچانک میرا ہاتھ پکڑ لیا

وہ میرے پیچھے سے آئی تھی

کہنے لگی کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں

اور محبت کا اظہار کرنے لگ پڑی

تو میں نے کہا مجھے تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے

اس نے کہا کیا میں خوبصورت نہیں ہوں

تو میں نے کہا کیا اس جسم کو کیڑے نہیں کھائیں گے

اور میں اس لڑکی کو جانتا بھی تھا کافی

اس کے کافی لڑکوں کے ساتھ دوستی بھی تھی

اور میں نے اسے جانے کا کہا

اور مسکرا کر کہا

تمہیں میرے سے اچھا مل جائے گا

اگلے دن مجھے کلاس کی لڑکی نے بتایا

کے وہ لڑکی تمہارے ساتھ مذاق کرنا چاہتی ہے

اس نے تمہارے ساتھ گفتگو کے دوران موبائل ریکارڈنگ پر لگایا ہوا تھا۔

اور وہ اس گروپ سے بھی ملی ہوئی ہے

بس کیا

میں نے کہا اس بار معاف کر دیتا ہوں

اگلی بات ایسا جواب دوں گا کہ اسے اس کی اوقات یاد آ جائے گی

اس لڑکی کو نہیں پتہ تھا کہ مجھے حقیقت پتہ چل گئی ہے

اور دن

دسمبر کی سخت سردیاں تھیں

اور ہماری کلاس کے باہر بلکل سامنے شیشہ لگا ہوا تھا

دھند تھی تو شیشے ایسا تھا کہ کہ اس پر کچھ بھی لکھا جا سکتا تھا

تو ایسے ہی میں پانی پینے کے لئے اٹھا اور اسی دن میری بوتل میں پانی بھی ختم ہوگیا تھا

جب باہر نکلا تو دیکھتا ہوں شیشے پر

ایک دل بنا ہوا تھا جس میں لکھا ہوا تھا I Love you moavia

مجھے تو سکتہ پڑ گیا

تو میری نیچے گیا اور جو کیمرے کے سامنے ہوتے تھے ان سے میری کافی دوستی تھی

میں نے ان سے کیمرہ چیک کروایا

تو مجھے نظر آگیا اسی لڑکی نے لکھے ہیں

میں اوپر گیا اور تصویر بنائی

اور پرنسپل کو شکایت کر دی

اور پرنسپل نے ایسا نوٹس دیا

کہ اس لڑکی کو کالج سے نکال دیا

اور اس گروپ کو وارننگ دے دی

بس کیا ایسا خوف بیٹھا

کسی نے کوئی ایسی حرکت کرنے کی سوچی بھی نہیں

نہ ہی کسی نے تنگ کرنے کا سوچا

اور میں دل لگا کر پڑھائی کرتا رہا

اور جب رزلٹ آتا ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے نمبر 92 پرسنٹ آئے ہیں

اور میں بہت خوش ہوتا ہوں

اس کے بعد میں جاب کی تلاش میں لگ گیا

ایک جگہ سے مجھے آفر آئی اور اس نے کہا کہ مجھے تمہارا نام پسند نہیں ہے

مجھے بہت غصہ آیا ہے

اور میں نے ان کے سامنے ہی فارم پھاڑ دیئے

پھر کچھ مہینے بعد نئی جوب کی آفر آئی

تنخواہ بھی اچھی تھی ہوم شیف کی جاب تھی

اور میں وہاں پر کام کرنے لگ پڑا

میرے پاس ایکسپیرینس بھی تھا

کیوں کہ میں بچپن میں پارٹ ٹائم کام بھی کرتا تھا

قریبی ہوٹل میں

کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں اپنے ماں باپ پر بوجھ بنوں

تاہم میں جوب کرنے لگ پڑا

بعد میں مجھے بتایا گیا کہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے

ہارون مائنز ایک کمپنی ہے میں ان کے گھر کام کر رہا تھا

جو کہ انٹرنیشنل کمپنی ہے

اور ان کا گھر ایسا تھا جیسے کوئی جنت

جب مجھے پتہ چلا کہ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے تو ایک دن

جمعہ کا دن تھا

میں نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا چاہا

تو مجھے اجازت نہیں ملی

کھانے وہ نہایت ہی بہترین بنواتے تھے

جس کی وجہ سے مجھے کافی ٹائم لگتا تھا

اور میں نے رہنا بھی وہی ہوتا تھا

اور میری نمازیں بھی قضا ہونے لگ پڑیں

مجھے نظر آگیا کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے

اور تنخواہ بھی بہت ہی اچھی تھی مگر میرا دل سکون میں نہیں تھا اور میں نے ریزائن کر دیا

اس وقت میرا کافی اخلاق بھی اچھا تھا

اور میں کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا تھا

اور نفرت کے بدلے محبت دیتا تھا

تو میں نے جب یہ جوب چھوڑی

تو خاندان والے مایوس ہو گئے

جنہوں نے میرے سے امیدیں باندھ رکھی تھی

اس کے علاوہ میرے تعلقات اپنے بابا سے بھی بہت اچھے ہوگئے تھے

اور ایسے ہوگئے تھے جیسے کوئی دوست ہوتے ہیں

اور میرے بابا نے مجھے بہت اپریشیٹ کیا

تاہم ایسے زندگی گزرتی گئی

اور میرے دل میں پیسے سے محبت بلکل ہی ختم ہو گئی تھی

میں وہاں سے نوکری چھوڑ کر آ گیا تھا

اور مجھے تب پیسے سے نہایت نفرت ہوگئی تھی

مجھے یہ نظر آیا کہ اگر اس دنیا سے جتنی مرضی وفا کر لو

جتنی مرضی عزت دے دو

جب تک آپ کے پاس پیسہ نہیں ہوگا

تو سب آپ کو کمتر سمجھیں گے

جب میری یہ نوکری لگی تھی

تو مجھے بہت ہی زیادہ مبارکباد دی گئی

اور جیسے ہی میں نے دیکھا کہ یہ میرا سکون خراب کر رہی ہے

خود سے جدا کر رہی ہے

تو میں نے چھوڑ دی

مجھے کام چور کے طعنے دینے لگ پڑے

اور اس ٹائم میرے لیے خاندان میں کچھ رشتے بھی آگئے

مگر میں نے تب یہ سوچا

کہ کہیں میری بیوی دنیاداری والی نکل پڑی

تو میری زندگی جہنم بن جائے گی

میرے ماں باپ بھی یہ چاہتے تھے کہ میری شادی ہو جائے

سب ایسے خوشامد کرتے تھے

کہ دل ہی دل میں

میں استغفراللہ کہتا تھا

تاہم میں نے اس وقت شادی نہیں کی

وقت گزرتا گیا

میں بس خود کو اکیلے کمرے میں بند رکھ کر یا قرآن پڑھتا تھا یا نماز

اور گھنٹوں قرآن کے مفہوم میں غوروفکر کرنے لگ پڑا

مگر پتہ نہیں کیسے

آہستہ آہستہ میرا دل اداس رہنے لگ پڑا

میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا

میں اس سوچ میں پڑگیا کہ نکاح کرنا چاہیے کہ نہیں

میں نکاح کو سنت مانتا تھا

اس کا انکار نہیں کرتا تھا

مگر

جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ جیسا مرد ہوگا ویسی بیوی ملے گی

تو میں اس کشمکش میں پڑ گیا

میں اس طرح اپنی زندگی کو سمجھتا تھا جیسے ایک مسافر ہوتا ہے

اور میں نے اپنا کفن بنوا لیا تھا جو میں رات کو سوتے وقت اپنے سرہانے کی جگہ رکھ کے سوتا تھا

بس کیا کسی بھی صورت میں میرے دل میں دنیا کی محبت نہیں جاتی تھی

اور اس چیز میں مجھے کی باتیں سیکھنے کو ملیں

اس معاشرے میں سب سے بڑی جو چیز ہے وہ دنیا کی محبت ہے

اگر یہ ہمارے دل سے ختم ہو جائے

تو ہم آزاد ہو جائیں گے

تاہم اس کا جواب مل گیا

کہ نکاح کرنا ضروری ہے

اس وقت میرے دل میں خیالات آئے

کہ میں کسی سے محبت کرتا ہوں

پھر میرے اندر کے ضمیر نے جواب دیا

کہ وہ تمہاری نامحرم ہے

تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے

جب محبت لاحاصل ہوتی ہے

تو انسان تنہائی سے بچنے کے لیے محبت کا سہارا لیتا ہے

میں نے اپنے آپ کو ہر بے حیائی سے بچا کے رکھا تھا

اسی وجہ سے تنہائی بہت ہی زیادہ حاوی ہوتی جا رہی تھی

میں اس بچنے کے لیے کبھی تبلیغ میں جاتا

اور کوئی مجھے وظیفہ بتاتا

پھر ایک دن میں نے فیصلہ لے لیا

کہ میں پہلے اپنی ضروریات مکمل کرو کروں

بس کیا

میں نے کہا کہ میں سنت کے مطابق تجارت کروں گا

اور ایسی چیزوں کی تجارت کروں گا جو اچھائی کو پروموٹ کریں

میں نے ایک آئن لائن اسلامک اسٹور بنایا

اور میں سنت کے مطابق تجارت کرنے لگ پڑا

اور میرے رب نے اپنی رحمت نے اس طرح لپیٹا

کہ میں نے کچھ ہی مہینوں میں دو لاکھ تک کما لیے

جو بھی مجھ سے کوئی چیز خریدتا تھا تو اگر وہ واپس کرنا چاہتا

تو میں خوشی خوشی واپس کرلیتا

اور پھر میں نے نئی بائیک خرید لی

اسی پیسہ کاروبار میں انویسٹ کر دیا

کبھی بھی پیسہ جوڑ کے نہیں رکھتا تھا

جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ رات کو صدقہ کر کے سو جاتا تھا

یا پھر بانٹ کر

مثال کے طور پر ماں باپ کو اچھا کھانا کھلا دیتا تھا

یہی ایک عادت تھی جو میرے خاندان والوں اور گھر والوں کو بری لگتی تھی

میرے بابا عالم تھے جن کے ساتھ میرا اس بات پر لمبا عرصہ اختلاف رہا

میرے بابا کہتے تھے کہ ایسے تمہیں کوئی رشتہ نہیں دے گا

اور پھر ایک وقت ایسا آیا

کہ مجھے پھر دنیا سے تھوڑی نفرت ہوگئی

کہ کیوں مرد کو پیسے سے تولہ جاتا ہے

مرد پر اتنی زیادہ ذمہ داریاں رکھ دی گئی ہیں اور بدلے میں کیا مرد کو وہ سب کچھ ملتا ہے جو وہ چاہتا ہے

جو اس کے حقوق ہیں

اور اسی عورت کی کشمکش میں میں پھنس گیا

تاہم

حدیث میں واضح طور پر موجود تھا

دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر رہتا ہے

دنیا مکڑی کا جالا مچھر کا پر ہے

اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کبھی پیسہ جوڑ کر نہیں رکھا

اور ایک چڑیا کو ہی دیکھ لو

رات کو جب اپنے گھونسلے میں آتی ہے تو اس کے منہ میں کوئی دانا نہیں ہوتا

اور میرے بابا اس پر متفق ہوگئے

وقت گزرتا گیا

مجھے نظر آگیا

نہ ہی کچھ وظیفوں سے ہوگا نہ ہی کسی اور چیز سے

تنہائی کا علاج صرف نکاح ہے

اور اسی کی تلاش میں لگ گیا

میرے پاس سب کچھ تھا

مگر پھر بھی میری روح بے چین تھی۔

پھر میرے رب نے اتنا پیسہ دیا

کہ میں نے زندگی میں سب چاہتیں حاصل کرلیں

اچھا کھانا کھانا

اچھے کپڑے پہننا

مگر آن لائن کرتا تھا تو سب سمجھتے تھے کہ مستقل نہیں ہے

خاص کر میرے خاندان والے

جو کہ سرکاری نوکری کے غلام تھے

اسی طرح میری والدہ کی بھی یہی سوچ تھی

ان کو لگتا تھا کوئی کیسے اپنی بیٹی اسے دے دے گا

پیسہ بھی کافی تھا

اور نکاح بھی نہیں ہو رہا تھا

میں پریشانی میں رہنے لگ پڑا

میرے پاس کوئی بہانہ نہ تھا

نکاح نہ کرنے کا

مگر میری والدہ کہتی کہ تمہیں نوکری ڈھونڈنی ہوگی

تم اپنی بیوی کو محفوظ مستقبل نہیں دے سکو گے

بس کیا غصے میں رہنے لگ پڑا

اور یہ آخری سٹیج تھی میری

اور میری نمازیں بھی قضا رہنے لگ پڑی

مایوسی میں کافی دیر تک سوتا رہتا تھا

اور ایک دن

خواب میں میں نے دیکھا

میں مدینہ میں ہوں

تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں

کیونکہ میرا آج بھی دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے تڑپتا رہتا ہے

تو میں رونے لگ پڑا

مگر کوئی مجھے پیچھے کی طرف گسھیٹ کر لے گیا

بس کیا

میں اٹھا

اور پریشان حالت میں

کہیں رسول اللہ میرے سے ناراض تو نہیں

میں نے کہا کہ اب اس مسئلہ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا

اور میں نے اپنے والدین سے بولنا چھوڑ دیا

وقت گزرتا گیا

ایک دن میں نے بتا دیا

کہ جب تک آپ ہمت نہیں کریں گے

کسی کے گھر رشتہ لے کے جانے کا

تب تک میں بات نہیں کروں گا

انہوں نے کہا کہ کوئی ہے تمہاری نظر میں

میں نے کہا نہیں

میں نے ان سے کہا کہ کوشش کرنا میری جیسی ڈھونڈنا

پھر میرے ماں باپ نے ایک جگہ میرا رشتہ لے کر گئے

انہوں نے مجھ سے کافی باتیں کیں

اور میں نے سب کا جواب دل اور سچائی سے دیا

اور ان کو یہ رشتہ پسند آگیا

تاہم میں نے کہا

میں لڑکی سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں

انہوں نے اجازت دے دی

اور میں نے اسے دیکھا

وہ ہرنی آنکھوں جیسی

حیا کی خوشبو

گفتگو کا انداز ایسا جیسے بارش کے بعد آسمان ہوتا ہے

وہ مجھے پہلی ہی نظر میں میرے دل کو پسند آ گئی

میں نے کہا جو مرضی ہو جائے

اسے جانے نہیں دوں گا

اور اسے نکاح کرکے ہی رہوں گا

اسے سلام کیا

اور کچھ تعارف کیا

اور اسے پسند پوچھی

اسے کہا تو کیا تمہیں کوئی زبردستی نہیں ہے

اگر ہے تو میں ہی انکار کر دوں گا

اس نے کہا

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میرے ماں باپ کبھی بھی مجھ پر زبردستی نہیں کرتے

مجھے آپ پسند ہو

مجھے بہت ہی اچھی لگی

پھر گھر آ کر میں نے کہا

بس جو مرضی ہو جائے میں نے اسی ہفتے اس سے نکاح کرنا ہے

اور پھر

لڑکی نے کہا ابھی نہیں

کچھ ماہ بعد میرے بی ایس سی کے پیپر ہیں

اس کے بعد یہ نکاح ہو تو بہتر ہے

میں نے کہا

نکاح کرلیتے ہیں رخصتی بعد میں

تمہیں نامحرم سے محرم بنانا چاہتا ہوں

تمہیں اپنے لیے حرام سے حلال کرنا ہوں

اس دوران باتیں بھی کرتے رہیں گے

تو اللہ ناراض نہیں ہو گا

میں تمہیں کسی بھی صورت میں کھونے نہیں دونگا

اس بات پر ہنسی

اور کہا ٹھیک ہے

تو کچھ ہی دنوں بعد ہمارا نکاح ہو گیا

ایسے لگا کہ جیسے برسوں کی دعا قبول ہوگی

کسی انسان کو ہزاروں سال کی عبادت کا اجر مل گیا

ایک خوبصورت زندگی میرے لیے لکھ دی گئی تھی

اور محبت حلال ہو گئی تھی

گھنٹوں باتیں کرتے رہتے

اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کبھی بھی اپنے دل میں کسی کی محبت نہیں آنے دی

اور اپنے شوہر کے لیے خود کو سنبھال کر رکھا۔

اور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے ساری کائنات مل گئی

اسے اپنی ماضی کی محبت کے بارے میں بتایا

تو اس نے پوچھا کہ آج بھی محبت ہے

میں نے کہا نہیں

وہ وہاں خوش ہے میں یہاں خوش ہوں

اور تم نے میرے دل پہ قبضہ ہی کر لیا

تو اس نے کہا

مجھے کسی قسم کا بھی شک نہیں ہے آپ سے

اور یوں میری زندگی کی داستان

محبت کی داستان بن گئی

اور کچھ ہی دنوں بعد رخصتی اور ہمارا ولیمہ ہے

اور ایسے ہی میں اپنی زندگی کو یاد کر رہا تھا

تو سوچا کیوں نہ ماضی سے لے کے حال تک ایک داستان لکھی جائے

اور پھر میں نے لکھنا شروع کر دیا۔

اور گروپ میں پوسٹ کر دیا

آپ سب کی بہت ہی زیادہ محبتیں ملی

ان سب کا بہت بہت شکریہ

اب چونکہ اختتام ہے

تو آپ یہ مجھے بتائیں کہ آپ نے میری زندگی سے کیا کیا سیکھا

کیا میری زندگی آپ کے لئے کچھ رہنمائی بنی

آپ سب کے کمنٹس کا انتظار رہے گا

آپ سب سے اجازت چاہتا ہوں

اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا