Urdu Horror Story, Urdu Horror Novel, Short urdu story, thrilling horror novel, bhoot kahaniya, scary urdu stories
Kata Hua Panja

  Chopped Claw



To download in PDF form, please go at the last of this page or simply you can read online Kata Hua Panja, by scrolling down here

کہانی : کٹا ہوا پنجہ

از۔۔۔۔۔۔: قاضی نصرت علی خآن

اطلاع :- اس کہانی کے واقعات و کردار فرضی ہیں۔ کہیں بھی کویہ بھی مماثلت محض اتفاق ہوگی۔ جس کے لیےء مصنف، اڈمن اور فیس بک ذمہدار نہی ہونگے۔


کٹا ہوا پنجہ

آج شام ہی سے تیز ہوایں چل رہی تھیں ۔ہوا مین خنکی بھی محسوس ہو رہی تھی ۔ ڈاکٹر زاہد اپنے،کلینک میں مریضوں کو چیک کر دوایں دیتا جارہا تھا۔۔‌آج مریض بھی کچھ زیادہ تھے کیوں کہ دوسرے دن اتوار تھا اور کلینک بند رہتا تھا۔۔‌زاہد کا یہ کلینک شہر سے تیس کلو میٹر دور ایک دیھات میں تھا۔ راستہ میں ایک طویل علاقہ بہت سنسان جنگل کا پڑتا تھا۔ زاہد چاہتا تھا کہ جلد از جلد مریضوں کو نپٹا۔ کر گھر چلا جاءے۔ کیوں کہ اب بارش شروع ہو چکی تھی۔ پھر بھی آخری مریض جانے تک رات کے ساڑھے دس بج چکےتھے۔ زاہد نے سامان سمیٹا اور رین کوٹ پہن کر باہر آ گیا۔ دواخانے کا شٹر بند کر کے مڑا اور تیز بارش میں بایک کو سڑک پر لا کر شہر کی قطر موڑ دی۔کچھ ہی دور چلا ہوگا کہ سامنے کوی ہاتھ ہلا کر زاہد کو رکنےکے لیے کہ رہا تھا غالباً کوی مدد چاہیےء تھی اسے ۔بایک روک کر اسنےدیکھا سامنے ۔ ایک دیہاتی تھا۔ دھوتی اور لمبا قمیض پہنے تھا اور بارش سے،بچنےکے لیے اناج کے خالی بورے کو اندر کی طرف موڑ کر دوھرا بناکر اوڑھے ہوےتھا۔ بارش اب زور پکڑ چکی تھی زاہد نے اس سے پوچھا کی کیا ہےء۔دیھاتی ڈرتے ڈرتے کہنے لگا ایک مریض کی مرہم‌پٹی کر نی ہی ۔ اتنی رات گےء ۔ زاہد بولا۔۔۔۔ ہاں صاحب یہیں نزدیک ہےء راستے میں۔۔ زاہد کچھ سوچ کر مرہم پٹی ہی تو ہے تیار ہو گیااوراس سے پہلے کہ وہ دیھاتی کو بیٹھنے کو کہتا اس نے محسوس کیا کہ وہ کب کا بیٹھ چکا تھا۔۔۔کچھ دور ہی چلا تھا کہ بایک کی ہیڈ لاءیٹ بند ہو چکی تھی ۔۔۔۔اب بارش بہت زور پکڑ چکی تھی زاہد نےسوچا کہ بایک کو روک کر لاءیٹ ٹھیک کر لے۔۔۔۔تب ہی دیھاتی بولا۔۔۔ لاءیٹ کی پرواہ نہ کریں صاحب چلتے،رہیں۔ ۔‌سڑک پر لاءٹ ہےء۔۔اسکی آواز غیر انسانی لگ رہی تھی۔ ایک لمحہ زاہد کو پھر خیال آیا کہ دیہاتی کو کیسے پتہ چلا کہ وہ کیا سوچ رہا ہےء۔۔ ۔‌وہ محسوس کیےء بنا نہی رہا کہ وہ دیہاتی کے اسے تحکمانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔۔۔۔پھر۔ ۔جیسےہی دیہاتی نے اپنا ہاتھ زاہد سے کندھے پر رکھا زاہد کو ایسے لگا جیسے کسی نے برف کی سل رکھدی ہو۔ اک بارگی ایک سردلہر اسکی ریڑھ کی ہڈی یں اتر گیء ۔۔ شاید برفانی بارش کی وجہ ہو ۔۔۔ کچھ ہی دور چلا تھا کہ سڑک کے کھمبوں کی بجلی چلی گیء‌۔۔ ایک تو تیز بارش۔ کی بوندیں سیدھی اسکی آنکھوں پر پڑ رہی تھیں دوسرے بجلی گل ہو چکی تھی ۔ زاہد نے،باءیک کو سڑک سے نیچے اترانے کے لیے رفتار کم کرنےلگا تھا۔‌تبھی دیھاتی کی آواز اءی ۔۔۔۔ چلتے رہیے صاحب مجھے گھر معلوم ہے۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔زاہد کو اکبارگی ایسا محسوس ہوا جیسے اسکی آواز بہت دور سے آ رہی ہو۔۔۔ لیکن زاہد نےاس پر زیادہ دھیان نہی دیا۔ اور زاہد نے رفتار بڑھالی۔‌ بارش تھی کے طوفان آج ہی برسنا تھا۔ اب ‌بجلیاں بھی چمکنے لگی تھی۔اس وقت خوفناک بجلیوں سےایک فایدہ یہ تھا کہ زاہد کچھ کچھ راستہ دیکھ پاتا تھا۔ پھر بجلیاں بند ہو۔ گیںء۔ اچانک دیھاتی بولا ڈاکٹر صاحب بایں موڑ لیں ۔‌ زاہد نے بایک موڑلی۔۔‌اب راستہ کچا تھا۔۔‌پتھروں پر بایک سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا اس پر ڈبل سیٹ۔۔۔۔ یک بارگی زاہد نے ارادہ کیا کہ بایک روک دے اور بارش رکنے دے ۔تب‌ ہی دیھاتی بولا۔۔‌بارش اب رکنے والا نہی آپ چلتے رہیں ۔ یہاں سے قریب ہی ہےء۔۔ زاہد کی چھٹی حس پھڑکی۔ دیھاتی کیسے،اسکے خیالات پڑھ لے،رہا‌ ہےء۔۔۔‌اب پہلی بار زاہد کو خوف محسوس ہونےلکا تھا۔۔۔ بجلیوں کی آتی جاتی روشنی میں زاہد نے محسوس کیا کہ کوی پرانا دیھات ہےء جہاں کچھ کچھ فاصلے سے جھونپڑے بنے لگ رہے تھے ۔حیرت تھی کہ کسی بھی جھونپڑے میں روشنی نہیں تھی اور اندھیرے میں وہ ہیبتناک ہیولے نظر آرہے تھے ۔

ایک جھونپڑے کےسامنے دیھاتی نے رک نے کو کہا ۔زاہد نے دیکھا کے سامنے ایک ویران جھونپڑا ہے جس میں لایٹ ہونےکے کوی آثار نظر نہیں آ رہےتھے۔ تبھی زاہد کو اس دیہاتی کا‌خیال آیا اس نے دیکھا دیہاتی ندارد تھا زہد کو ڈر محسوس ہوا ایسے خوفناک ماحول میں چھوڑ کر وہ نہ جانے،کہاان چلا گیا تھا۔ زاہد نے واپس لوٹنے کا ارادہ کیا۔ اچانک ہی جھونپڑے،کا دروازہ کھلا اور وہی دیہاتی اند رے آکر کہنے،لگا اندر آیے نہ صاحب ۔۔۔ اسکی آواز کسی کنویں سے،آتی نظر آرہی تھی ۔‌اور اسکی آنکھیں ۔۔۔ اف۔۔ لال انگارہ سی دہک رہی تھیں۔۔۔‌زاہد نے پلٹنا چاہا مگر اسےلگا کوی طاقت اسے اندر دھکیل رہی ہے۔ زاہد اندر چلا گیا یا کوی غیر مریء قوت اسے اندر لے گیء تھی ۔کٹ اسکی ساتھ ہی رکھتا تھا۔ آنرر کمرے کا ماحول بہت خوفناک تھا وہاں عجیب قسم کی گندی بو بھی پھیلی تھی جیسے لاشوں میں ہوا کرتی ہے۔ وہاں اور بھی کیء مریض نظر آرہے تھے ۔ پہلی نظر میں وہ جلی ہوی بوسیدہ لاشیں ہی لگ رہی تھیں ۔گندی بوسیدہ دیواروں پر مکڑیوں کے لا تعداد جالے تھے۔ کیء بڑی چھپکلیاں دیواروں پر رینگ رہی تھی۔ کچھ مردہ خور کیڑے اطراف میں پڑے مریضوں کے جسموں پر ادھم‌مچا رہےتھے۔کمرے میں زرد رنگ کی روشنی تھی جیسے آگ کے بڑے الاوء کے اطراف ہوتی ہےء۔روشنی کہاں سے،آ رہی تھی یہ زاہد کی سمجھ میں نہیں آیا نہ ہی اسوقت وہ اسکی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ کمرےکے مریض سب ہی بری طرح جھلسے ہوے تھے ۔ کسی کےگال پوری طرح سے غایب تھےاور اکے پورے دانت نظر آ رہے تھے جیسے وہ ہنس رہے ہوں۔۔‌زاہد کو لاشوں کا ڈر نہی تھا کیوں کہ وہ اس سے قبل بھی کیء مردہ خانوں میں جا چکا تھا۔وہ اس مریض کو تلاش کر رہا تھا جسکے لیے اس کو لایا گیا تھا۔ تب ہی اس منحوس دیھاتی کی آواز آیء ۔۔۔‌صاحب وہ آپ کےسامنے وا لے کی مرہم پٹی کرنا ہے۔۔۔‌اب تو زاہد کو یقین ہو نے لگا تھا کہ وہ بھوتوں میں پھنس گیا ہے

۔۔زاہد نے کٹ میں سے ڈریسنگ کا سا‌مان نکالا اور مریض کی طرف متوجہ ہوا ۔مریض کسی جلی ہوی لاش کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔‌اسکا پیر بری طرح زخمی تھا۔۔البتہ خون نہیں بہ رہا تھا ۔ زاہد نے ڈیٹول سے زخم صاف کیا اور ڈریسنگ شروع کی۔ ڈریسنگ کرتے کرتے زاہد سوچنے لگا تھا جلد ہی اس بھوت خانے سے نکل جا نا چاہیے۔۔ اس نے تب ہی اسے لگنے لگا تھا باقی زندہ لاشیں اسکی طرف للچائی نظروں سے دیکھ رہیں ہیں ۔ کچھ کی زبانیں انکے ہونٹوں پر گھوم‌رہی تھیں ۔ مردہ خور کیڑےانکی ناکوں اور منہ میں دوڑ بھاگ کر رہےتھے۔۔۔۔۔۔

اچانک ڑاہد کی توجہ ڈریسنگ پر گیء تو وہ لرز گیا۔ اسکے خیال،سےاب تک وہ آٹھ دس پھیرے ڈریسنگ کے لے چکا۔ تھا ۔۔۔‌ مگر مریض کے پیر پر ایک ہی پھیرا ہوا‌تھا۔‌اور اسکے ہاتھ میں بینڈیج کا بنڈل ویسا کا ویسا ہی تھا۔۔۔ تو پھر اتنی دیر سے اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا وہ ڈریسنگ کررہا ہےء۔ اسے لگا جیسے وہ زندہ لاشیں سب اسکی طرف بھوکی نظروں سے دیکھ رہے ہوں۔۔۔۔ ایک دو تو اپنی جگہ سے اٹھنے کی بھی کوشش کر رہےتھے۔۔۔ڈر کی ایک لہر اسکے جسم میں دوڑنے لگی تھی۔

اچانک ڈریسنگ کا بنڈل زاہد کےہاتھ سے خوف کے مارے چھوٹ پڑا ۔ اسی وقت ایک کڑاکے،کی بجلی چمکی۔۔ زاہد کی نظر باہر رکھی بایک پر پڑی ۔۔ پوری قوت سے دوڑ کر وہ بایک کی طرف بھاگا۔۔ بایک پر سوار ہوا ۔۔‌اور بایک چونک اگنیشن اسٹارٹ تھی فوراً چالو ہو گیء اسنے بایک سڑک کی طرف دوڑادی۔۔ اب بارش تیز ہو چکی تھی۔۔۔۔تب ہی زاہد کو اس دیہاتی کی آواز آیء ۔۔۔‌ صاحب۔۔ علاج تو پورا کرتے جاوء۔۔ زاہد کہاں رکنے والا تھا وہ وہاں سےدور نکل‌آیا تھا۔ اچانک اسےلگا جیس کوی بایک کا کیریر پکڑ کر بایک کو روکنےکی کوشش کر رہاتھا۔۔ساتھ ہی اسے لگا جیسے وہی دیہاتی اسکےکان‌ میں کہہ رہا ہو ۔۔۔ صاحب علاج‌تو پورا کرتےجاوء۔۔۔۔ تب ہی ایک گرج دار طویل بجلی چمکی۔اور زاہد کی نظر بیک ویوہ آینے پر گیء۔۔۔۔‌یکبارگی بایک زاہد کے ہاتھ سےچھوٹنےلگی‌تھی ۔۔ اس نے آینے میں دیکھا کہ بایک ان‌منحوس جھونپڑیوں سےبہت دور آچکی ثھی۔۔‌اور دیہاتی وہیں ان جھونپڑیوں کے پاس کھڑا تھا۔۔‌اور وہاں سے ہاتھ بڑھا کر اس نے مظبوتی سے بایک کا کیریر پکڑ رکھا تھا۔ اتنی بارش میں بھی زاہد کو پسینے چھوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔۔ زاہد نے بایک کی رفتار بڑھانےکیے بایک کو ریس دیا۔۔۔۔۔‌اور تب ہی ایک جھٹکا لگا اور زاہد کو لگا کہ اس خبیث کے ھات سےبایک آزاد ہو گیء ہو ۔ پھر ایک دم بایک انتہاءی تیز رفتار سے سڑک پر آگیء۔۔ تب ہی زور دار بجلی چمکی ۔۔‌ایک دھماکہ ہوا پھر زاہد کو ہوش نہی رہا۔

دوسرے دن ایک ہسپتال میں زاہد کو ہوش آنے لگا تھا۔۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ ایک نرس چلایء۔۔۔ ڈاکٹر صاحب مریض کو ہوش آرہا ہے ۔۔ ڈاکٹر کےساتھ ہی ایک پولس آفیسر بھی اندر چلا آیا۔۔ اور کہنے لگا۔۔ ٹہریے یہ پولس کیس ہےء مجھے بیان لینے دیجیےء۔۔۔ ڈاکٹر بولا ۔۔ مجھے پہلے چیک کرنے دیجیے ء آیا وہ بیان دینےکے قابل ہےء بھی یا نہی۔۔۔کچھ دیر ہلکی سی پوچھ پاچھ اور چیکنگ کے بعد اس نے پولس آفیسر کو بیان لینے کو کہہ دیا۔۔

پولس آفیسر۔: کیسی طبعیت ہے آپ کی ڈاکٹر۔۔۔

زاہد: - ٹھیک محسوس کر رہا ہوں

آفیسر:-تو اتنی رات گےء آپ کہاں سے آر رہے تھے۔

زاہد:-اپنے کلینک سے آتے آتے ۔۔راستےمیں ایک دیہات میں ایک مریض جو کسی آگزنی کا شکار ہوا تھا اسکی ڈریسنگ کرنےگیا تھا۔۔۔۔

آفیسر:- ڈاکٹر ۔۔ آپ کےسر پر گہری چوٹ آیء ہےء ۔۔‌آپ کی بایک ایک درخت سے ٹکرایء تھی۔۔آپ کے ذہن پر اثر ہوا ہےء اس لیے آپ کچھ بھی بول رہے،ہیں ۔۔۔‌میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہاں سےآپ کے دیہات تک کے بیچ میں کویءآبادی نہیں ہےء۔۔البتہ بیس تیس سال پہلے وہاں کچھ دیہاتیوں کی بستی ہوا کرتی تھی۔۔۔۔آپسی دشمنی کی وجہہ سےکسی نے ساری بستی کو آگ لگا دی تھی۔ کوی بھی زندہ نہیں بچا تھا جھونپڑے ان ہی پر گر جانے سے کویء نکل نہی پایا تھا ۔۔ اور پچھلےبیس سال سے وہاں کوی آبادیی نہںی ہےء۔۔۔ بلکہ لوگ وہاں جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔۔

زاہد :-مگر وہاں کیء مکانات تھے۔۔‌۔۔۔

آفیسر:- ٹھیک ہےء آپ ذہن پر زور نہ دیں۔۔ ہاں مگر آپ کی‌باءیک ایک درخت سے بری طرح ٹکرای‌ تھی ۔لگتا ہےآپ بہت تیز گاڑی چلا رہے تھے۔۔‌۔۔۔ اور ایک اہم‌بات ۔۔۔ آپ کی بایک کے قریب ہی بایک کا کیریر ٹوٹا واہ پڑا تھا ۔۔۔۔‌اور اسکو مظبوتی سے پکڑا ہوا ۔۔۔۔۔‌ایک پنجہ تھا جو کلای سے اکھڑ چکا تھا۔۔۔‌تو جناب کیا آپ بتا سکینگے کہ آپ کےساتھ اور کون تھا۔۔‌اور وہ کہاں گیا۔۔۔‌کیوں کہ وووہ ہ ہ ن ن غاوں غاوں فون غںوو ۔ زاہد کو آفیسر کے الفاظ سمجھ میں‌نہی آرہے تھے اس کی آواز کویں کی گہرایء سےآتی سنای دینے لگی تھی اسکا ذہن ایک بار پھر تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اور زاہد پھر بیہوش ہو چکاتھا۔۔۔۔۔۔۔!

ہسپتالء سے ڈسچارج کےبعد ۔ کچھ دن آرام کرکے زاہد نے پھر سے کلینک جانا شروع کر دیا تھا۔۔ ادھر کبھی کبھی پولس اسٹیشن سے بلاوہ آتا تھا۔ کیوں کہ تحقیق ابھی جاری تھی۔ پہلےہی دن زاہد نے غور کیا کہ راستہ بھر میں کویءدیہات یا بستی نہیں تھی۔ نہ کویء پگڈنڈی تھی۔۔۔

اسکے بدن میں ایک خوف کی لہر دوڑ گیء۔۔اس دن اس نے طےء کیا کہ اب وہ واپسی دوسرے راستے سےکریگا۔۔ دوسرا راستہ تھا مگر وہ ذرا دور کا تھا۔۔۔ اسطرح کیء دن گزر گےء زاہد بھ سب کچھ بھول کر کام‌میں لگ گیا تھااور آنا جانا بھی دوسرے راستےسےکر نیے لگا تھا۔

پھر ایک بار گویا کہ ساری بساط ہی پلٹ گیء۔۔ کسی خیال میں گم زاہد اس پرانے راستے ہی سے واپسی کے لیے نکل پڑا۔۔۔‌یا کویء غیر مریء طاقت اسےاس طرف لےگیء تھی۔ جب اسے ہوش آیا تب بہت دیر ہو چکی تھی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے اسےاس راستہ آنا ہی نہیں تھا۔۔ مگر اب کیا کرسکتا تھا سواےء آگے جانے کے۔اس نے بایک کی رفتار بڑھای ۔وہ اس منحوس علاقے سے جلد از جلد باہر نکل جانا چاہتا تھا۔آج مطلع ابر آلود تھا اور چاند کی آخری تاریخیں تھیں۔ چاند ان دنوں بہت دیر سے طلوع ہوتا تھا۔ سڑک پر اندھیرا تھا صرف بایک کی روشنی سڑک پر پڑ رہی تھی ۔ کچھ درختوں کی اونچی شاخوں پر پڑ کر محول کو اور خوفناک بنا رہی تھیں ایسا لگ رہا تھا گویا کالے سایہ بایک کےساتھ درختوں کی شاخوں پر بایک کےساتھ چل‌ رہے تھے۔۔۔ سناٹے میں بایک کی آواز بھی زاہد کو ڈرانے لگی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چلنے لگی تھی جس سے اونچے اونچے درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ ہونے لگی تھی۔ سڑک سنسان پڑی تھی کوی جانور تک وہاں نہیں تھا۔۔‌اچانک زاہد کو پتوں کی سرسراہٹ میں وہی خوفناک غراہٹ بھرے سرگوشی سنای دی ۔۔۔ علاج پورا کرتے جاو صاحب.... اور تبھی اسے لگا جیسے کوی بایک کے برابر دوڑ رہا ہو۔۔ کون تھا وہ جسکی سانسیں زاہد اپنے کانوں پر محسوس کررہا تھا۔ زاہد کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ مڑ کر دیکھے کہ کون ہے۔۔ اچانک پاس ہی کوی الو چینخا۔ اور کیء چمگادڑیں اوپر پھر پھڑا نے لگیں۔۔۔‌ایک تو سامنے سے آ کر اس کے منہ سے ٹکرای بھی تھی تب ہی بایک پر زاہد کے ہاتھ بہکانے لگے تھےکہ اس نے سنبھال لیا۔ یہی وقت تھا جب زاہد نے محسوس کیا کہ اسکے سیدھے کاندھے پر کسی نے برف رکھ دیا ہو۔۔۔‌اس نے محسوس کیا کوی پنجہ اسکے کاندھے کو پکڑے ہوےتھا۔۔‌زاہد ڈر گیا کہ کہیں پنجہ اسکا کنٹرول بایک پپر سے نہ بگاڑدے اور وہ پھرکسی حادثہ کا شکار ہو جاےء۔ اس نے آیت الکرسی کا ورد شروع کیا اور بایک رفتار پر دھیان دیا۔۔ اب وہ تیزی سے شہر کیطرف جا رہا تھا۔ اس نے ہوش ٹھکانے رکھے ۔ اس بار وہ کسی درخت سے نہیں ٹکرانا چاہتا تھا۔اس نے سیدھے ہاتھ سے بایک سنبھالی اور بایں ہاتھ سے پوری طاقت سے پنجہ کو کاندھےسےالگ کر کے درختوں میں پھینک دیا۔۔۔تب کیء الو چینخنے لگے۔ زاہد بایک بھگا نے لگا زاہد کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب اسے شہر کی روشنیاں نظر آنے لگی تھیں۔ وہ شہر میں داخل ہو رہا تھا۔۔ گھر پہنچتے ہی زاہد نے اپنی جرکن اتار کر دیوار پر ٹانگی۔ فریش ہو کر وہ کمرے میں تو اسکی نظر جرکن پر پڑی تو اسکا خون‌خشک ہونے لگا تھا۔ سانسیں گلے میں اٹکنےلگیں تھیں۔۔۔قریب تھا کہ اسکی چینخ نکل جاتی ۔۔۔ اس نے دیکھا کہ جرکن کے پچھلے حصہ پر تازہ خون‌کے ریلے اتر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ جو آہستہ اہستہ نیچے پھسلتے آرہے تھے۔۔۔اور نیچے گرنا ہی چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!زاہد نے فوراً جرکن کھونٹی سے کھینچ‌ کر باہر سڑک پر لے آیا۔۔اور لایٹر سے اس میں آگ لگادی ۔۔‌بڑی بری بدبو پھیلی اسکے جلنے سے۔۔ ویسی ہی جیسی اس گھر میں محسوس ہوی تھی۔ زاہد توہم پرست نہیں تھا مگر اب اسے ساری توہمات پر یقین آ رہا تھا۔ اب تنہای میں بھی اسکے کانوں میں وہ منحوس پھنکار سنایء دینے لگی تھی۔ جس سے اسکے بدن‌میں لرزہ تاری ہو جاتا تھا ۔ وہ خوب جانتا تھا اسکے بعد والی دھمکی بھری درخواست کو جس میں اب غراہٹ شامل ہو رہی تھی۔۔۔۔‌اسکا زہن انتشار کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ کلینک پر بھی وہ نہیں جارہا تھا۔۔پھر ایک دن اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔‌اور ہمت جٹایء۔ وہ اس دن کو کوسنے لگا جب اس نے اس منحوس دیہاتی کی بات سن لی تہی۔ مگر اب کیا کرتا۔۔‌اب ایک ہی کام کرنا تھا۔۔۔ اس پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرنا۔۔۔اس نے دوستوں کو ساری واردات بتاکر ان‌سےمشورہ مانگا۔۔۔پہلے،تو دوستوں نے اسکی بات ہوا میں اڑادی۔۔‌پھر اسرار کر نے پر ایک دوست نے کی عامل سبحان شاہ کا پتہ بتایا ۔ کہ بڑے پاےء کے عامل ہیں ۔ تنہا ہیں ۔ عورت بچے نہیں ہیں۔عامل زبر دست ہیں۔اگلے دن شام شام زاہد انکا پتہ گے کر عامل سبحان شاہ کےگھر پہنچا تھا۔۔ گھر کیا تھا ایک دربار لگا ہوا تھا۔۔ ایک طرف عامل صاحب دیوار سے ٹیک لگاےء آنکھیں بند کےء بیٹھے تھے۔ ہال میں کچھ عورتیں اور کچھ مرد حضرات بیٹھے تھے۔۔زاہد بھی پیچھے جاکر بیٹھ گیا۔ زاہد نے دیکھا کہ انہوں نےایک عورت کو سامنے بلایا۔ اور بولے۔۔‌تیرا کیا ہےء بایء۔۔۔اس عورت نہ ہلکی آواز میں کیا کہا جو زاہد کو سمجھ نہیں آیا۔۔۔ عامل صاحب بولے،۔ پانی کی بوتل لای کیا۔۔۔‌عورپ نے بوتل آگے کر دی۔۔ انہوں نے آنکھیں بند کی اور مراقبے میں چلے گےء۔ پھر اچانک انہوں نے کسی عجیب زبان میں بولنا شروع کیا جیسے وہ کسی کو ڈانٹ رہے ہوں۔۔۔‌کچہ دیر بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں۔‌زآہد نے دیکھا کہ انکی آنکھیں‌انگارہ ہو رہی تھیں۔ایک لمبی سانس لےکر وہ بولے ۔۔ بہت بڑا تھا وہ بہت بڑا۔۔۔نکالدیا اللہ نے۔۔۔ تم جاتیاں کیوں وو شام کے وقت درختوں کے نیچے اور ہم کو تکلیف میں ڈالتیاں۔۔۔ پھر پانی کی بوتل میں پھونک مار کر کہا یہی پانی پیتےرہنا۔ زاہد کے لیے یہ پہلا موقع تھا ایسی چیزیں دیکھنے کا۔۔‌آخری عورت کے جاتے ی ہی زاہد انکے سامنے بیٹھ گیا۔ انہوں نے پوچھا۔۔ تیرا کیا ہےء رےبا با۔۔۔۔۔زاہد نے ڈرتے ڈرتے ساری واردات سنا دی۔۔ وہ سن انہوں نے کچھ سوالات بھی زاہد سے پوچھا پھر اپنا چہرا نیچے کر کے بیٹھ گےء۔۔ وہ کچھ عمل بھی کرتےجا رہےتھے۔۔ پھر چہرا اٹھا کر بولے ۔۔۔بڑی مشکل میں ڈالدیا رے تونے۔۔۔بڑا سخت عمل کرنا ہوگا۔۔‌ارے تیری کیا مت ماری گیء تھی جو وہاں مرنے کو گیا تھا۔۔۔۔زاہد ڈر گیا تھا اس سے کوی جواب نہیں بن‌پڑا۔۔ مت ہےتو ماری گیء تھی اسکی۔۔۔۔۔ا

پھر زاہد نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کے حضرت تو اب کیا کرنا ہو گا۔ تو کیا کر لیگا رے۔۔ مجھے،ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔مگر بیٹا یہ ناپاک بدروحوں کا معاملہ ہےء۔۔۔۔ ان سے چھٹکارے کےلیے ان کو فنا کرنا پڑتاہے۔ اسمیں کسی کی جان بھی جا سکتی ہےء۔۔۔اسی جگہ جاکر فلیتہ جلانا ہوگا۔۔۔۔ا

اسکے بعد انہوں نے ایک تعویز نکال کر زاہد کے گلے میں باندھ دیا۔ اور کہا اسے اترانا مت۔۔۔ باندھے رکھنا۔ ورنہ پنجہ سے چھٹکارہ نہ ملیگا۔ زاہد کا ان چیزوں پر اعتقاد نہیں تھا ۔مگر اس وقت کے حالات نے اسے مجبور کر دیا تھا ۔۔۔ کہ وہ اس پر یقین کرے۔ا۔ کچھ دیر بعد زاہد وہاں سے رخصت ہو رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی اور آخری تاریخوں کا چاند تھا دیر سے طلوع ہوتا تھا۔۔۔ ویسے،سڑک پر گھروں کی کھڑکیوں سے چھنتی ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی ۔ کچھ دور جانے کے بعد ہی زاہد نے کسی پرندے کے پھڑپھڑانے کی آواز سنی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو کانپ گیا۔۔۔وہاں ایک بڑی چمگاڈر اسکے سر پر منڈرا رہی تھی ۔ زاہد نے بایک کی رفتار تیز کر دی۔ چمگاڈر کی بھی رفتار بڑھنے لگی تھی ۔۔ اب وہ بار بار اسکے سر پر اور چہرےپر ٹھونگیں مارکر اڑ جا رہی تھی ۔۔ زاہد نے بایک روک کر اسے گمچھے(عربی رمال) سے اڑانا چاہا۔۔ مگر اس سی پہلے ہی چمگاڈر اس پر حملا اور ہویء ۔۔ زاہد کو اس سے پنجوں کی تیز چبھن اپنی گردن پر محسوس ہویء۔ زاہد کو خوف تو بہت محسوس ہوا۔۔‌مگر زاہد نے بایک سےاتر کر گمچھا ہوا میں لہرایا ۔ اس سےچمگاڈر اڑ کر درختوں میں گم ہوگیء۔۔ تھی۔زاہد کی بھی ہمت بڑھی اور وہ گھر کو روانہ ہوا۔۔گھر پہنچ زاہد سیدھا آینے کےسامنے گیا۔ دراصل وہ چہرےپر چمگاڈر کے پنجوں کےنشان دیکھنا چاہتا تھا۔ آءینہ دیکھ اسکا خون خشک ہونے لگا تھا۔۔۔‌اسکی آنکھیں بڑی ہو گیں۔ اس نے دیکھا کہ تعویز اسکے گلے سے غایب تھا۔۔۔ اب اس کو یقین ہوگیا تھا کے مافوق الفطرت ہستی اسکے پیچھے پڑ چکی ہےء۔۔۔۔۔ا یقیناً وہی منحوس چمگاڈر وہ تعویز اڑا لے،گیء تھی۔۔ اس رات وہ چین سے سو نہ سکا ٹھا۔۔‌کمرےمیں اچانک مچھر بڑھ گےء تھے۔۔اس سے بھی اس کی نیند میں خلل پڑ رہا تھا۔ ایک تو چمگاڈر کے پنجوں سے دیےء گےء زخم دوسرے مچھروں کی بھنبھناہٹ۔۔ وہ کروٹیں بدلتا رہا۔۔ پھر اسکا وہم ہی سمجھو۔۔ جس سے وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔ مچھروں کی بھنبھناہٹ میں وہی سرگوشی۔ غذا رہی تھی۔۔۔‌ " علاج کرتے جاوء صاحب۔۔۔۔ازاہد گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور پنکھا درمیانی رفتار میں کھول دیا۔ کچھ دیر بعد اسے ںپنکھے کی سایں سایں میں بھی وہی سرگوشی سنای دینے لگی تھی۔۔ در اسے وہم بھی ہو چلا تھا۔۔۔وہ لحاف منہ پر ڈھانپ کر سونے کوشش کرنے لگا تھا۔ دوسرے دن صبح ہی زاہد عامل سبحان شاہ کے گھر جا پہنچا۔ رات کی ساری بات بتای۔ انہوں نے خاموشی سے سنا۔ پھر لمبی ہوں کر کےچپ ہو رہے۔ واپسی پر انکے ہاتھ میں ایک کالے دھاگے کا لمبا سا ڈورا تھا۔وہ بولے گو اب یہ ڈورا کمر پر باندھلو۔۔‌اور پھر انہوں نے ہی وہ ڈورا زاہد کے کمر پر ازار بند کی طرح باندھ دیا تھا۔ اور کہا اگلی جمعرات کو اماوس کی رات ہےء ۔‌بس اس رات یہ عمل کرنا‌ ہو گا۔ کچھ دیر بعد زاہد واپس گھر آگیا تھا۔۔ پھر اسنے محسوس کیا کے ڈورا باندھنے کے بعد سےہی وہ سر گوشی بند ہو گیء تھی۔۔۔۔ا وہ بے خوف کلینک بھی جانےلگا تھا۔ آخر وہ رات آگیء۔ غالباً رات کے نو بجے تک وہ ٹھیک اس جگہ پہونچے تھے جہاں زاہد کی بایک درخت سے ٹکرایء تھی۔۔‌زاہد اس جگہ کا پتہ پہلے ہی سےکر رکھا تھا۔ کیوں کہ حادثے کے بعد کا زاہد کو یاد نہیں تھا۔ پھر اسی بڑے درخت کے نیچے عامل صاحب نے ٹارچ کی روشنی میں اپنے ساتھ لای جھاڑو سے ایک داءیرے میں جو پانچ فٹ قطر کا بنتا تھا۔جگہ صاف کی۔ تھیلے سے کچھ سامان نکال کر رکھا۔ ایک چھڑی پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور اس سے ایک پانچ فٹ قطر کا داءیرہ زمین پر بنا دیا ۔ بناتے وقت بھی انکا پڑھنا شروع ہی تھا۔اس کے بعد انہوں نے ایک بڑا رومال نکال کر داءیرے میں‌ایک طرف بچھاکر بیٹھ گےء۔ اور زاہد کو اس حصار سے باہر ہی رہنے کو کہا۔۔ اسکے بعد انہوں نے ایک چھوٹی انگیٹھی نکال کر اسمیں کچھ چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اپنی تھیلی سے نکال کر ڈالدیں اور ان‌میں آگ لگا دی ۔۔‌ اور کچھ پوڑیوں سے سفوف نکال آگ میں جھونک دیا۔ ایک بھڑکا ہوا اور بھر آگ جلنے لگی تھی۔۔۔‌اسکے بعد وہ خاموش ہو گےء تھے۔۔ غالباً عمل شروع ہو چکا تھا۔۔۔بڑا پراسرار ما حول ہو گیا تھا۔۔۔تاروں کی ملگجی روشنی میں اونچے درخت بیحد خوفناک لگ رہےتھے۔۔اور گھنا اندھیرا روح کو لرزانے کے لےء کافی تھا۔ زاہد داءیرےکے باہر ہی دستی بچھا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔زاہد کو یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا ۔۔ کہان وہ ایک پڑھا ڈاکٹر کہاں یہ عملیات۔۔۔‌فلیتے۔۔۔مگر وہ اب اس کےساتھ ہونےوالے حالات سے مجبور ہو گیا تھا۔۔ان‌واقعات نے اسکے ذہن پر برا اثر ڈالاتھا۔۔‌اس نے دیکھا اب عامل صاحب گو‌نجدار آواز میں کچھ پڑھ رہےتھے۔۔ اس سناٹے میں انکی آواز بہت ڈراؤنی لگ رہی تھی ۔۔وہ عامل صاحب کی ہمت کی داد دینے لگاتھا۔۔ پھر انکی آواز کےساتھ درختوں سے آلوؤں کی آوازیں بھی آنے لگی تھیں جو متواتر بڑھتی جا رہی تھیں عامل صاحب کا عمل بھی تیز ہوتا جا رہا تھا.درختوں میں ہواؤں کی سنسناہٹ بھی شامل ہو رہی تھی۔۔۔پھر زاہد نے دیکھا کہ عامل صاحب کچھ چھوٹی چھوٹی ڈوریوں پر پھونک مار کر آگ میں ڈال رہے تھے ۔ غالباً فلیتے جلاء جارہے تھے۔اسی کےساتھ آگ بہت بھڑک اٹھی اور درختوں میں چمگادڑوں کے غول پھڑپھڑانے لگے تھے۔زاہد کو خوف محسوس ہو نے لگا تھا اسکا ذہن بھٹکنے لگا تھا انہی حالات پر غور کرتے کرتے ۔ تب ہی اسےایسا لگا جیسے عامل صاحب بہت دور سے آواز دے رہےہوں۔۔ یکبارگی وہ ڈر گیا کہ کیا عامل صاحب اسکو اس ویرانے میں چھوڑ کر کہاں چلےگےء ۔۔۔۔۔اوہ لرز گیا۔۔اس نے زور سے عامل صاحب کو پکارا۔۔ تب ہی حصار میں سے عامل صاحب کی گونج دار آواز آی۔۔۔‌چلا کیوں رہے ہو ۔۔‌میں یہیں ہوں نا۔۔۔۔ا زاہد کیا بتاتا کہ اس نے انکی آواز بہت دور سنی تھی۔ عامل صاحب اس سے کہ رہےتھے۔۔۔ دیکھو غور سے سنو۔۔ اب میں اس خبیث پنجہ کو حصار میں بلانے جا رہا ہوں۔۔۔۔تمہیں بہت ہوشیار رہنا ہوگا ذرا سی غفلت تباہی کا باعث ہوگی۔۔۔‌سنو جیسےہی وہ پنجہ اندر آیگا۔۔۔‌میں اسے پکڑ لونگا۔۔۔۔تب ہی تم نے نہایت سرعت سے یہ سفوف اسپر ڈال کر اس آگ میں جلتی ہوی لکڑی نکال کر ہر چال میں اس پر ڈال دینا ہوگا۔۔ وہ منحوس بھسم ہو جایگآ

۔۔ لکن تمہاری ذرا سی کوتاہی بڑی تباہی کا باعث بنے گی۔ اتنا کہ کر انہوں نے تھیلے سے ایک پوڑی سفوف کی نکال کر زاہد کے ہاتھ میں دیدی اور عامل صاحب۔ مشغول ہو گےء۔۔۔ذاہد کی نظر دہکتے شعلوں پر پڑی جس میں فلیتے جل رہےتھے ۔ اسے گمان ہوا جیسے وہ شعلے نہ ہوکر شیطانوں کی لمبی لمبی زبانیں ہوں۔۔ شعلوں کی زرد روشنی میں درخت اور بھی بھیانک لگ رہےتہے۔ درختوں کے پتوں کے بھیانک شور میں عامل صاحب کی آواز بہت خطرناک لگ رہی تھی۔۔ تب زاہد کی نظر عامل صاحب پر پڑی ۔ اوہ خدا کی پناہ اسکی منحوس لال پیلی روشنی عامل صاحب کا چہرہ بہت بھیانک ہو گیا تھا۔آنکھیں بری بڑی اور لال ہو رہی تھیں۔۔ منہ سے جھاگ اڑ رہا تھا۔۔ وہ با آواز بلند کچھ پڑھ کر فلیٹوں پر پھینک رہے تھی جو غیر فہم زبان‌میں تھا زاہد کےلیے۔۔۔۔‌اچانک تیز ہوایں چلنے لگی جیسےطوفان‌آتا ہو۔ اور بہت ساری چمگاڈریں اوپر منڈرانے لگی تھیں۔۔۔‌مگر زاہد کی حیرت کی انتہا ہو گیء جب اس نے دیکھا کہ اس تیز ہوا میں آگ اور تیز بھڑکنے لگی تھی جبکہ بجھ جانا چاہیئے تھا۔اور پھر اچانک اسے عامل صاحب کی عجیب گھٹی گھٹی اور بھیانک آوازیں آنےلگی تھیں۔۔زاہد کی روح کانپ گیء۔۔۔۔۔زرد بھڑکتے شعلوں کی منحوس روشنی میں جو منظر اسکی آنکھوں نے دیکھا تو اسکا کلیجہ منہ کو آنے لگا تھا۔۔‌وہ چینخ مار کر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے اپنی غفلت پر بہت زیادہ عرصہ آیا ۔‌ کہ کیوں‌اسکی توجہ بھٹک گیء تھی۔۔۔۔اس نے دیکھا کہ وہی منحوس پنجہ کب کا حصار میں آ چکا تھا۔۔‌۔۔۔۔ اور اب وہ تیزی سے عامل صاحب کے سینۂ سےہو کر عامل صاحب کے گلے پر پہونچ چکا تھا۔۔۔۔ اس سے پہلے کے زاہد کچھ کرتا آگ ایکدم‌ بھڑک اٹھی اور زاہد ڈر کر پیچے ہٹ گیا۔۔ اسنے دیکھا کہ پنجہ عامل صاحب کے گلے کو پوری طرح دبوچ چکا تھا عامل صاحب بری طرح ایڑیاں رگڑ رہےتھے۔۔ جس سے انگھیٹی بھی تتر بتر ہونے لگی تھی۔۔۔۔ان کی چینخیں اللہ کی پناہ۔۔ زاہد نے دیکھا پنجہ انکا نرخرہ پھاڑ چکا تھا ۔ عامل صاحب کی چینخیں اب دم توڑنے لگی تھیں۔۔۔ زاہد سے اب برداشت نہیں ہوا یہ سب۔ پہلے،ہی سے ڈرا ہوا تو تھا ہی ۔۔۔ سیدھا بھاگ کر بایک سنبھالی اور شہر کی طرف۔۔۔۔اسکو عامل صاحب کی گھٹتے ہوےگلےکی گھٹی آوازیں دور تک آتی رہیں۔ اسے اپنی غفلت اور بزدلی پر بہت کوفت ہو رہی تھی ۔۔ ایسے کیسے اسنے پنجہ کو حصار میں داخل ہوتے نہیں دیکھا تہا۔۔دیکھ لیتا تو شاید کچھ کر پاتا مگر اسکو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا تھا۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد وہ پھولتی سانسوں کے ساتھ وہ گھر پہنچا۔۔‌وہ کمرے میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ بہت سارے خیالات ایک ساتھ اسکے ذہن میں گڈ مڈ ہو رہے تھے ۔ ایک ہی رات میں اتنے خوفناک حالات۔۔۔اللہ کی پناہ ۔

پھر اسکی ذہنی رو بہک گیء۔۔۔‌وہ اس دن کو کوسنے لگا تھا۔۔‌جب اس نے اس منحوس دیہاتی کی بات مان‌ لی تھی۔

جسکی وجہ سے حالات اتنے بگز چکے تھے ۔ اور۔۔اور ۔۔۔اچانک وہ رو پڑا ۔۔ اس کا آخری واحد سہارا اسکی غفلت کی وجہ سے فنا‌ ہو چکا تھا۔۔۔‌اسکی ہچکیاں بندھ گیء تھیں۔۔عجیب عجیب خیالات اسے آ رہےتھے۔۔اسے خوف لگنے لگا تھا کہ کل اگر عامل صاحب کی لاش پولس کے ہاتھ لگ گیء تو کیا ہو گا۔۔۔۔‌پھر اسے یاد آیا کہ عامل صاحب کے ساتھ گزرے اب تک کے حالات زاہد کےسوا کسی کو پتہ ہی نہ تھے۔ ان سے اسکے تعلق ثابت نہ ہو سکتا تھا۔۔۔‌پھر اسے یاد آیا کہ اسکا رومال وہیں رہ گیا تھا ۔۔ وہ اس پولس کی رہ نماءی کر سکتا تھا۔۔پھر تیسرے دن کے اخبار میں ایک خبر دیکھ کر اسکو قلبی سکون‌مل گیا تھا۔اخبار میں لکھا تھا کہ سونا گھاٹی( دیہات کا نام) کے راستے میں روڈ کے کنارے کوءی تانترک( عامل) کوءی جادو کا عمل کر رہا تھا جس کے نتیجہ میں وہاں‌آگ لگ گیء تھی ۔ دس پندرہ فٹ کا احاطہ آگ میں جل چکا تھا ۔۔۔وہاں سے پولس کو ایک بہت بری طرح جلی ہوی لاش ملی تھی۔ لاش کا چہرہ بری طرح بھنبھوڑ کر رکھ دیا گیا تھا جس سے مقتول کو پہچان‌نا نا ممکن ہو گیا تھا ۔۔۔۔لاش کا گلہ صرف ایک ہی ہاتھ سے گھونٹا گیا تھا جو بہت ہی طاقتور گمان‌کیا جاتا ہے۔۔۔دوسرے ہاتھ کا کویء امکان‌نہیں ۔ زاہد کی نظروں‌میں وہ خوفناک منظر گھوم گیاپھر وہ سوچنے لگا کہ اسکا رومال بھی آگ کی نظر ہو گیا ہوگا۔پھر ۔زاہد عامل صاحب کی موت پر بہت دیر روتا رہا۔۔۔۔اسکے بعد وہ کچھ دنوں تک کلینک نہیں گیا۔۔وہ خود کو عامل صاحب کا قاتل سمجھنے لگا تھا۔اسے عامل صاحب کے الفاظ یاد آرہے تھےکہ اس میں جان‌ جانے کا خطرہ تو رہتا ہی ہےء۔ اسے وہ ہدایت بھی یاد آیء کہ جیسے ہی پنجہ حصار میں آےء تعویز اس پر رکھ کر آگ لگا دینی ہےء۔۔ مگر اس کو ہوش ہی کہاں تھا۔ اور جب ہوش آیا بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔ تیسرے دن زاہد نے خود کو سنبھالا۔ وہ کلینک جانے کو تیار ہوگیا۔۔ اسنے سوچنا بند کر دیاتھا کیوں کہ وہ ایک سوچتا تو دوسری ہزار باتیں دماغ میں آتیں تھیں۔ اس نے طے کیا کہ وہ اب دوسرے راستے سے ہی آیا جایا کریگا۔۔۔ آج پھر شام سےہی ہلکے ہلکے بارش کے آثار نظر آنے لگے تھے۔۔۔آثار دیکھ کر زاہد نے کلینک بند کیا ویسے بھی شام ہو چکی تھی اور اب وہ اس علاقے سے جلد نکل جانا چاہتا تھا۔۔۔بادلوں کے چھاجانے سے رات کاگمان ہو نے لگا تھا۔ آدھا راستہ طےء ہوا تھا کہ رات گہری ہوگیء ہوایں بھی چلنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کچھ ہوگا۔۔ تیز چلتی ہواؤں کے درمیان اسے اسکا خون خشک کر دینے والی وہی منحوس پھنکار اسکےکانون‌میں سنایء دینے لگی تھی۔۔۔پہلےتو وہ وہم سمجھا اور راستے پر دھیان دینےلگا۔ لیکن اب سرگوشی کےساتھ اسے جلے گوشت کی بو سے بھری بدبو دار سانسیں بھی محسوس ہونے لگی تھیں۔۔۔اس نے بایک کی رفتار بڑھانے چاہی۔۔ تو اس کے پسینے چھوٹ گیےء۔۔۔ کویء غیر مریء قوت اسکی گاڑی کو روک رہی تھی ۔۔تب ہی ایک لرزہ خیز بات ہویء۔۔۔ جس سے زاہد روح فنا ہو نے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔اسنے اپنے کاندھے پر برف کی ٹھنڈک محسوس ہوی۔۔اس نے اپنے بایں ہاتھ سے ٹھنڈک کو چھوا تو اسکی چینخ نکل گیء۔۔۔ وہاں ایک لجلجا پنجہ حرکت کر رہا تھا۔۔۔ اسکو جھرجھری محسوس ہوی ۔۔ اسےعامل صاحب کا انجام یاد آگیا۔۔۔ ا۔ فوراً بایک روکی ۔ اسٹینڈ پر لگا کر علیدہ ہو گیا اسپر جنون طاری ہو نے لگا تھا۔ دوسرے ہی لمحہ وہ بایں ہاتھ سے پنجہ کاندھےسےالگ کر رہا تھا۔ پنجہ الگ ہوتے ہی اس نے اسے نکال کر جھاڑیوں میں پھینک دیا۔اسکو اپنے ہاتھوں پر گیلے پن‌کا احساس ہوا تو اسنے ٹارچ کی روشنی سے دیکھا تو ہاتھ گہرے کتھیء رنگ میں ڈوبا ہوا تھا جس کےریلے،آہستہ آہستہ کہنیوں تک اتر رہےتھے۔اسنے گمچھے سے صاف کیا خون‌میں بہت بری بدبو آ رہی تھی۔۔لیکن ۔۔‌اب وہ ان حالات کا عادی ہو چکا‌تھا ۔مگر اس وقت دوبارہ پنجہ کو دیکھ اس پر جنون طاری ہونے لگا تھا۔وہ بایک پر بہ بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ اسے اپنے پیر وہی منحوس پنجہ آہستہ آہستہ چڑھتا محسوس ہوا۔۔اور وہی منحوس سرگوشی اسکے کان‌میں آرہی تھی۔ اب تو زاہد کا جنون اور بڑھ گیا۔۔ اسنے فوراً بیگ سے بینڈیج کا بنڈل نکالا۔۔۔ تب تک پنجہ اسکے ناف تک آ گیا تھا۔۔زاہد نے بایں ہاتھ سے پنجہ کو سختی سے پکڑا اور بینڈیج کے بنڈل سے بینڈیج کا سرا پکڑا اور بنڈل کو زمین‌پر چھوڑ دیا ۔۔ اب وہ پوری قوت سے پنجہ پر بینڈیج لپیٹ رہا تھا اور پاگل کی طرح کہتے جا رہا تھا ۔۔۔۔لے علاج۔۔۔۔لے علاج۔۔۔‌لے علاج۔۔‌۔۔ اس نے سارا بنڈل پنجہ پر لپیٹ دیا تھا۔۔ پنجہ اندر ہی اندر کسمسا نےلگا تھا۔۔ وہ اپنے آپ کو آزاد کرنا چاہرہاتھا۔آ

اور تب ہی زاہد کو سامنے کے پیڑوں میں سفید روشنی کا ہیولا نظر آیا اسکی روح کانپ گیء۔۔۔ہیولے میں اس نے عامل صاحب کو دیکھا وہ ہوا‌میں‌ معلق تھے۔۔ آنکھیں انگاروں ہو رہی تھیں۔۔۔ وہ نہایت خوفناک انداز میں زاہد سےکہہ رہےتھے۔۔۔۔ ڈالدے۔۔۔۔ ڈالدے ۔۔۔ ارے نادان جلدی کر ۔۔ ڈالدے وہ سفوف اس پر اور آگ لگادے۔۔۔ جلدی کر نادان۔۔۔‌پچھتاےء گا۔۔۔۔ تب ہی زاہد کے ہوش‌ ٹھکانےآ گےء اس کو یاد آیا کہ سفوف اسکی جیکٹ میں ہی ہےء۔۔ تیزیء کےساتھ اس نے وہ سفوف کی پڑیا جیکٹ‌ سے نکالی اور بینڈیج زدہ پنجہ کو زمیں پر پٹخ سارا سفوف اس پر چھڑک دیا۔اور بایک کے ساءیڈ بیگ سے اسٹریلایزر کا سپرے نکال کر اسپر اسپرے کردیا اب وہ اسے لایٹر سے آگ لگا رہا تھا۔ آگ لگنا‌ تھا کہ گویا طوفان مچ گیا تھا۔۔۔۔ایک دھماکے کے،ساتھ آگ کا بہت بڑا بھڑکا ہوا۔۔۔۔ زاہد فوراً بایک کو وہاں سے آگے لے جار کر پارک کر دیا۔اب آگ ایسی ہو گیء تھی جیسے وہاں ہولی جلایء گیء ہو۔۔۔۔۔۔ چھ سات فٹ اونچے شعلے اٹھ رہے تھے اور ایسی بدبو پھیلی تھی جیسے کیء لاشیں جل رہی ہوں۔ زاہد کی نظر اسطرف گیء جہاں وہ سفید ہیولا جھاڑیوں نظر آیا تھا ۔۔ اب وہاں وہ ہیولا نہیں تھا۔۔‌بلکہ وہ روشنی بھی معدوم ہوتی جارہی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد اس جگہ پہلے جیسا اندھیرا تھا۔۔۔ادھرآگ پوری طرح ٹھنڈی ہو چکی تھی ہوا‌میں بھی سکوت سا طاری ہو چکا تھا ۔ زاہد کو لگا جیسے ساری بلایں ختم ہو چکی تھیں ۔۔ نہ وہ سرگوشی تھی ۔ نہ اب چمگا ڈریں تھیں۔۔۔۔ سارے ماحول میں ایک خوشگوار یت محسوس ہورہی تھی ۔۔ زاہد بایک پر سوار اب گھر جا رہا تھا ۔۔ اب اسکو ایک اطمینان سا لگ رہا تھا۔۔۔۔ اسکی آنکھوں سے متواتر آنسو بہ رہی تھے ۔۔ رہ رہ کر اسے عامل صاحب یاد آرہے تھا آخر عامل صاحب نے اپنا کام پورہ کر ہی دیا تھا۔اور نہ جانے اس میں کہاں سے اتنی ہمت آگیء تھی ۔۔ گھر پہنچ کر وہ بہت اطمینان سےسویا تھا ۔۔۔ آج اس کو سکون کی نیند آی تھی ۔۔۔۔دوسری صبح زاہد عامل سبحان شاہ کے لیےء غایبانہ فاتحہ پڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔