بےاولادی کے گندے عملیات             |             دل دہلا دینے والی داستان۔

Urdu Horror Stories, Khoufnak Kahani, Black Magic Childless, Real Horror Story, Urdu Kahaniyan
Black Magic for Child

آج ایک ایسا واقعہ لیکر حاضر ہوا ہوں

جس میں ایک بد بخت عورت اولاد حاصل کرنے کے لیے گندے عملیات اور شیطان کی کالی طاقتوں کا سہارا لیکر تمام حدیں پار کر دیتی ہے..

نوٹ

کمزور دل والے حضرات پیچھے والی آخری سیٹوں پر بیٹھ جائیں.

اور اپنے اپنے پوپ کورن اٹھا کر چبانا شروع کر دیں.

تو چلیے شروع کرتے ہیں بنا کسی ڈرامے بغیرتی کے

اور

سنتے ہیں آج خیر و شر کی انوکھی اچھوتی حقیقت پر مبنی شاہکار کہانی.


بشیر خان لاہور کا رہائشی تھا.

اس کے دو بڑے بھائ تھے

تینوں کی شادیاں ہو چکی تھی.

اور تینوں کے پاس اولاد جیسی نعمت بھی تھی.

بشیر خان کے دو ہی چھوٹےبیٹے تھے.

باقی سب کی اولاد بڑی تھی.

بشیر خان اور اسکے دونوں بھائ ڈرائیوری ہی کرتے تھے.

بشیر خان تو لاہور میں ہی گاڑی چلاتا تھا.

بشیر کی 43نمبر گاڑی سارے لاہور کا چکر لگاتی تھی.

جبکہ اسکے بڑے بھائ لاہور سے پشاور تک جاتے تھے.

خان ٹرانسپورٹ میں انکے باپ شہروز کا نام کافی مشہور تھا.

اسی نام کی وجہ سے انہیں معقول تنخواہ پر رکھ لیا گیا تھا.

تینوں بھائیوں میں اتفاق تھا.

سب پیار محبت سے رہتے اور زندگی بہت خوبصورت گزر رہی تھی.

اور شاید آگے بھی خوبصورت گزرتی اگر بشیر کیساتھ ایک برہنہ واقعہ پیش نہ ہوتا.

بشیر خان کی ڈیوٹی رات گیارہ بجے ختم ہوجاتی.

وہ اپنی گاڑی اڈے پر دوسرے بندے کو دے کر سارا پیسہ جمع کروا کے گھر آجاتا تھا..

اسکے بڑے بھائ کا بیٹا حافظ تھا وہ رات 12 بجے تک ٹی وی پر تلاوت سنتا تھا.

بشیر خان جب بھی رات کو گھر آتا تو بھتیجے کے کمرے سے تلاوت کی آواز آرہی ہوتی اور بے اختیار اس کے قدم اپنے بھتیجے کے کمرے کی طرف چل پڑتے.

وہاں کافی دیر بیٹھ کر تلاوت سنتا تو روح کو سکون پہنچتا اسطرح اسکے دن بھر تھکاوٹ اتر جاتی اور پھر وہ سونے چلا جاتا.

منگل کا منحوس دن تھا جب رات کو بشیر نے اپنی ڈیوٹی پوری کی اور گاڑی اڈے پر کھڑی کرنے کے بعد اپنی موٹر سائیکل نکالی اور گھر کی طرف روانہ ہوا.

سیون اپ سٹاپ سے سیدھا شیرپاؤ پُل کی طرف مڑ گیا.

اسکے آگے بڑی آبادی کے قریب انکا بڑا سا گھر تھا.

اس راستے سے گزرنے کیلیے اسے روزانہ قبرستان سے گزرنا پڑتا تھا.

قبرستان سے چند قدم دور اسکی موٹر سائیکل نے چلنے سے جواب دے دیا .

موٹر سائیکل کا پلگ شاٹ ہوگیا اور وہاں دور تک کوئ مکینک بھی نہیں تھا.

واپس جاتا تو بہت دیر ہوجاتی گھر کا فاصلہ تھوڑا سا تھا سو بشیر نے پیدل چلنے کا سوچا اور موٹرسائیکل کو کھینچتا دھکیلتا قبرستان سے گزرنے لگا وہ یہاں سے پہلے بھی گزرتا رہتا تھا مگر اسے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا آج نجانے کیا بات تھی کہ قبرستان میں قدم رکھتے ہی ایک پراثرار سی لہر اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سراہیت کر گئی.

وہ خوفزدہ ہو کر چاروں طرف دیکھتا ہوا آگے بڑھنے لگا.

بشیر خان نے خود کو سنبھالا اور کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا.

مگر کوئ تو پراثرار چیز ضرور تھی جو ماحول کو گواہ بنا رہی تھی.

ابھی وہ قبرستان کے وسط میں ہی تھا کہ ایک عجیب سی آواز سنائی دی وہ کسی عورت کی آواز تھی

پکی ٹائلوں سے بنی قبر کے پیچھے سے وہ آواز آرہی تھی

بشیر خان کا تجسس جاگ اٹھا اور آنکھوں میں خوف آگیا

وہ آہستہ آہستہ قبر کے قریب گیا عورت کی آواز اب واضح ہوچکی تھی.

لیکن کافی کوشش کے بعد بھی بشیر خان عورت کی آواز الفاظ کا مطلب نہیں سمجھ پا رہا تھا

وہ اور آگے بڑھا روح افزا منظر اسکی آنکھوں کے سامنے تھا

ایک نوزائدہ بچے کی کفن میں لپٹی لاش اور کھلی قبر

سب سے عجیب بات کہ لاش میں ایک عورت بلکل( برہنہ) ننگی تھی اس نے اپنے بال پوری طرح سے کھولے ہوۓ تھے اور بچے کا کفن اتار کر کچھ کر رہی تھی

پہلے تو بشیر نے سوچا چپ چاپ یہاں سے کھسک جاؤں

مگر اسکے ضمیر نے اجازت نہ دی

وہ عورت اس بچے کی لاش کی بے حرمتی کر رہی تھی

ایک مسلمان ہونے کے ناطے بشیر خان فرض بنتا تھا کہ وی اسے روکے

بشیر کا پختونی خون جوش میں آیا اور فیصلہ کیا خواہ یہ عورت کوئ ماورائ مخلوق ہی کیوں نہ ہو اسے روکنا ہوگا

مگر وہ پہلے دیکھنا چاہتا تھا کہ عورت آخر کر کیا رہی ہے

وہ دبے پاؤں قبر کے بلکل پاس آگیا

اس نے دیکھا کہ وہ عورت بچے کو سُرمہ لگا رہی ہے

اور عورت نے اپنی انگلی سے ایک بِندیا بچے کے ماتھے پر لگائ اور پھر نامعلوم زبان میں کچھ بڑبڑانے لگی

پھر وہ بچے کے اور بیٹھ کر ساتھ بھرے پانی کے گھڑے سے اوپر پانی پھینکنے لگی

بشیر خان کی سمجھ میں آئ کہ یہ عورت کر کیا رہی ہے

بشیر خان نے سن رکھا تھا کہ ایسے عمل بے اولاد عورتیں کرتی ہیں

تاکہ انہیں اولاد ہو سکے

بشیر خان قبر اوٹ سے نکلا اور اس عورت کو بالوں سے پکڑ لیا اور ایک زوردار جھٹکے سے عورت کو بچے کی لاش سے ہٹایا

جاہل عورت یہ کیا شیطانی کام کر رہی ہے تو ؟

عورت بد حواس ہوگیئ.

بشیر خان نے ابھی تک عورت کے بال پکڑے تھے

مجھے چھوڑ دو

تجھے چھوڑ دوں تاکہ تو پھر یہ گندا کام کرے

میں تمہیں خوش کردوں گی.

تم جتنی دولت چاہتے ہو میں دوں گی.

مگر بشیر خان نے عورت کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی بشیر خان نے عورت کو ایک آور جھٹکا دیا.

میں تو اب تمہیں تھانے میں ہی چھوڑوں گا

تھانے کا نام سن کر عورت کی آنکھوں میں خوف سما گیا

ایسا مت کرنا سارے خاندان میں میری بے عزتی ہو جاۓ گی

عورت نے شبیر کے آگے ہاتھ جوڑے

اچھا تو پھر وعدہ کر آئندہ کبھی ایسا گھٹیا کام نہیں کرے گی

کپڑے پہن اور چل میرے ساتھ میں تجھے گھر چھوڑ کر آؤں

نہیں نہیں میں گھر چلی جاؤں گی تم میرے ساتھ نا آؤ تو مہربانی ہوگی

نہیں میں تیرے ساتھ تو ضرور جاؤں گا اور تیرے کسی بڑے سے بات کروں گا

تاکہ تو آئندہ ایسا قدم نہ اٹھاۓ

اچانک وہ بشیر خان کے قدموں میں جھک گئی

بشیر خان نے سمجھا وہ اسکے پاؤں پکڑے گی اور ساتھ نہ آنے کی منت سماجت کرے گی

مگر بشیر کے تمام اندازے غلط ہوگئے.

جب عورت نے جھک کر بشیر خان کے قدموں کے پاس سے گھڑا اٹھایا اور کمال کی پھرتی سے اسکے منہ پر دے مارا

بشیر خان نیچے گرا اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا

عورت نے پاس پڑے دوپٹے سے اپنا منہ ڈھانپا اور قبرستان سے باہر کی طرف بھاگی سڑک پر جا کر عورت نے ایک رکشہ روکا اور

غازی روڈ جانے کو کہا

غازی روڈ اتر کر ایک گلی میں داخل ہوئ

تھوڑا دور پیدل چلنے کے بعد سیڑھیاں چڑھی اور اوپر فلیٹ میں چلی گئی

فلیٹ میں سامنے ایک شخص بیٹھا تھا

جس کی عجیب شکل تھی

عورت اس کے پاس جاکر بیٹھی اور کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا

کہ اس شخص نے ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا

میں جانتا ہوں سکینہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی

بس تم کالی طاقتوں کا شکر ادا کرو کہ انہوں نے کوئ ٹھوس قدم نہیں اٹھایا

ورنہ عمل کے رکنے سے تمہارے جان کو خطرہ بھی ہوسکتا تھا

اور یی تمہارا پہلا عمل تھا جس کیخلاف کالی طاقتیں کچھ نہ کر سکی

اب میں کیا کروں آپ بتائیں ؟

اب تمہیں کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں

جس کام کو اس نامراد نےروکا ہے اب یہ کام وہی کرے گا.

تمہارا عمل ضرور پورا ہوگا

اور اگر کالی طاقتوں نے چاہا تو تمہیں ضرور الاد ملے گی

لیکن تم رازانہ کی طرح ہمیشہ مجھے خوش کرو تو.

آخری الفاظوں پر اس شیطانی آدمی کے ہونٹوں پر ہوس سے مسکراہٹ تھی.

مجھے اولاد کے لیے جو کچھ کرنا پڑے گا میں کروں گی

سکینہ نے مضبوط لہجے میں کہا.

وہ آدمی اٹھا چٹائ بچھائ دروازہ بند کیا اور دونوں راز و نیاز میں گم ہو گئے

بشیر ہوش میں آیا تو وہ عورت جاچکی تھی اور نجانے پتا نہیں کتنی دیر وہ قبرستان میں بے ہوش پڑا رہا

گھڑے کی ٹھیکری نے اس کے سر کو بہت گہرا زخم دیا تھا

بشیر خان نے گھر جانے کا ارادہ کیا

مگر جانے سے پہلے اس نے بچے کو دفنا دیا

گھر آکر وہ سیدھا اپنے بھتیجے کے کمرے میں گیا جو اس وقت تلاوت قرآن پاک سن رہا تھا

پھر تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر سونے کلیے چلا گیا

کیونکہ صبح اسے جلدی اٹھنا تھا اور موٹر سائیکل بھی ٹھیک کروانی تھی

چار پانچ دنوں میں یہ واقعہ اس کے ذہن سے ختم ہوگیا

مگر جب بھی چھٹی کے وقت قبرستان سے گرتا تھا تو اسے وہ عورت یاد آجاتی تھی

وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے عورت کو بھگا دیا ہے بس اب ختم ہوگئی

مگر اسکی زندگی کا سب سے بھیانک حصہ تو اب شروع ہونے والا تھا جب سے وہ لاعلم تھا

منگل کا دن پھر آگیا ڈیوٹی سے آکر بشیر گھر میں داخل ہوا تھوڑی دیر تلاوت سنی اور پھر اپنے کمرے میں سونے کیلئے چلا گیا

اسکی بیوی اور بچے حسب معمول سو چکے تھے

وہ بھی سو گیا

رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب وہ اٹھا اس نے اپنے بستر کی طرف دیکھا

اس کا اپنا ہی ہمشکل وہاں سو رہا تھا

وہ باہر نکلا اور خود بخود اسکے قدم زمین سے اٹھ گئے

وہ اڑتا ہوا ایک قبرستان میں پہنچا

وی کوئ اور ہی قبرستان تھا

ایک چھوٹی سی قبر کے پاس وہ اترا

وہ غیر ارادہ طور پر ہاتھوں سے قبر کھودنے لگا

قبر گیلی اور تازی ہی تھی چند لمحے ہی قبر کھودنے کے بعد ایک بچہ اس کے ہاتھوں میں تھا

اس نے بچے کی لاش کو ایک طرف رکھا

اور قبر کو بڑی مہارت سے بند کردیا

بچے کو اٹھایا اور پھر سے اڑنے لگا

نجانے کونسی جگہ تھی سیڑھیاں اوپر جا رہی تھی

اسکے کانوں میں کوئ کہہ رہا تھا کہ سیڑھیا چڑھ کر اوپر اوپر آجاؤ

وہ اوپر چلا گیا اندر جا کر اس نے ایک شخص اور ایک عورت کو دیکھا

وہ شخص اسے دیکھ رہا تھا مگر عورت نظروں سے بشیر خاب اوجھل تھا

عورت پر نظر پڑتے ہی بشیر خان ٹھٹھک گیا

وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کوئ عجیب طاقت اسے اپنے قبضے میں کیے ہوۓ تھی

اس بچے کو لے جاؤ اور اپنا عمل پورا کرو

اس شخص نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ عورت سے کہا

تو عورت ایک کونے میں بنے کمرے نما کوٹھڑی میں بچے کو لیکر چلی گئی

تم چلے جاؤ اب جب تمہارے ضرورت ہو گی بلا لیا جاۓ گا تمہارا جسم تمہارا انتظار کر رہا ہے

بشیر خان اس شخص کی بات سن کر کمرے سے نکل گیا

اسکی آنکھ کھلی تو وہ بہت خوفزدہ ہوا

نجانے کیسا خواب تھا یہ

بشیر خان نے سوچا اور حالات کا جائزہ لینے لگا

صرف 6 منگل اور تمہیں یہ عمل کرنا ہوگا

اور پھر دیکھنا ضرور تمہیں اولاد ہوگی

ناگیش بابا نے سکینہ سے کہا جو ابھی ابھی بچے پر عمل کر کے نکلی تھی

مگر آپ نے کہا تھا اب یہ عمل وہ شخص ہی کرے گا

مگر یہاں تو اچانک ہی یہ بچہ آگیا

وہ شخص کیوں نہیں نظر آیا؟

یہ سب تم نہیں سمجھ سکتی سکینہ انسان جب سوتا ہے تو روح اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے

اور ہم نے بشیر خان کی روح کو قابو میں کرلیا

اب وہ ہر منگل ہمیں کوئ نہ کؤئ بچہ دے جاۓ گا

اور وہ یہی سمجھے گا کہ یہ سب خواب ہے

اب تم اس بچے کی لاش کے ٹکڑے کرو

اور اگلے منگل تک تم نے یہ گوشت کھانا ہے

جاؤ اب اپنے گھر اور اپنا کام کرو

سکینہ نے جلدی سے بچے کو شاپنگ بیگ میں ڈالا اور اپنے گھر چلی گئی

انسان اور شیطان کی جنگ ازل سے جاری ہے

اور آخرت تک جاری رہے گی

شیطان کے بہکاوے میں وہی آتا ہے جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے

اور سکینہ کا شمار بھی کمزور ایمان والی عورتوں میں ہوتا تھا

سکینہ کا خاوند اشتیاق بہت ہی نیک صفت آدمی تھا

اشتیاق والدین کا اکلوتا بیٹا تھا

اور وہ پوش ایریا میں ایک شاندار کوٹھی میں رہتے تھے

سکینہ کے ساس سسر بھی بہت اچھے تھے

اسکی ساس روایتی ساسوں سےبلکل اُلٹ تھی

مگر پوتے پوتی کی آس کسے نہیں ہوتی

اور وہ بھی جب اس بیٹا بھی اکلوتا ہو

ساس کبھی کبھی کہہ دیتی تھی کہ تم ہمیں کب پوتا پوتی دو گی

ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق میاں بیوی دونوں میں کوئ نقص نہ تھا

بس قدرت کی طرف سے ہی دیری تھی

سکینہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے ناگیش بابے سے ملنے کی ترغیب دی تھی

اور پھر ممتا کی تڑپ نے اسے گناہوں کے دلدل میں اتنا دھکیل دیا کہ اب وہ چاہے بھی تو واپس نہیں آسکتآسکتی تھی

ساس بہو پر اتنی نظر تو نہیں رکھتی تھی

نہ ساس کے دل میں کوئ میل تھا

مگر پچھلے ایک ماہ سے بہو رات کو دیر سے گھر آتی تھی

تو ساس کے دل میں اچاناچانک سے وسوسے اٹھتے

آج بھی جب سکینہ رات کو 1 بجے لوٹی تو ساس جو کب سے اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی بہو کے آگے آکھڑی ہوئ

سکینہ بیٹی ایک بات کہوں برا تو نہیں مانو گی.

جی امی بتائیں

بیٹا اتنی رات کو گھر سے باہر رہنا ایک عورت کیلئے اچھی بات نہیں ہے

ماں جی میں اپنی دوست نائلہ کے پاس گئ تھی اور ٹائم کا پتا نہیں چلا

اچھا اگر کھانا کھانا ہے تو کھا لو اور سو جاؤ

اس اشتیاق کو تو گھر کی فکر ہی نہیں ہے

خاتون میں ایسا مصروف ہوا ہے کہ 2 ہفتے سے پہلے گھر ہی نہیں لوٹتا

سکینہ جانے کیلئے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تو ساس نے کیا بیٹا یہ شاپر میں کیا لائ ہو ؟

کچھ نہیں ماں جی تھوڑی سی شاپنگ کی تھی

سکینہ نے بظاہر تو سکون سے کہا مگر اس کے اندر ایک طوفان سا ابل پڑا

وہ سوچ رہی تھی کہ اگر ساس نے اصرار کیا تو اسے کیا دکھاۓ گی ایک بچے کی لاش کے ٹکڑے ؟

اچھا جاؤ بیٹا آرام کرو

ساس یہ کہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی

اور سکینہ نے ایک سکون کا سانس لیا.

اس نے بچے ایک ٹکڑا ابالا اور نمک مرچ لگایا اور کھانے کیلئے منہ تک لے گئی کہ اچانک کراہت کی وجہ سے اسے ابکائ آئی

وہ بھاگ کر باتھ روم گئی اور الٹی کرنے کے بعد وی یہ سوچنے لگی کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پاۓ گی

اور پھر اسے شیطانی طاقتوں کا ڈر بھی تھا

اس خیال کیساتھ ہی وہ باتھ روم سے نکلی اور وہ پکا ہوا بچے کے گوشت کا ٹکڑا کھانے لگے

اس گھنونے کام کے بعد وہ بستر پر سونے چلی گئی

طرح طرح کی سوچوں نے اسے گھیر لیا

یہ مہینے کا تیسرا منگل تھا جب بشیر خان نے وہی خواب دیکھا کہ وہ قبرستان سے ایک بچے کی لاش لیکر نکل رہا ہے اور پھر وہی سیڑھیاں چڑھتا ہے

اور اسی شخص کو بچہ دیکر واپس آجانا ہے

بشیر خان پہلے تو خوابوں سے اتنا پریشان نہیں ہوا تھا

مگر اب پریشانی اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی

دوسرے ہی دن وہ ایک ڈاکٹر کے پاس گیا ڈاکٹر کا ساری بات بتائ

ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور بولا تمام رپورٹس درست ہیں

آپ بلکل ٹھیک ہیں

مگر ایک بات پوچھوں آپ صاف صاف بتانا

میرے پاس ایسے کیس پہلے بھی آۓ ہیں جن میں مریض ایک ہی طرح کا خواب بار بار دیکھتا ہے

یا تو وہ منظر اسکی زندکی میں آنا ہوتا ہے

یا پھر آچکا ہوتا ہے

مگر ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں جن کو خواب میں زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی چیز کو دیکھ کر اسکا اثر اپنے لاشعور میں چھوڑ دیتے ہیں

پھر جب انسان سوتا ہے تو اسکا شعور سو جاتا ہے اور لاشعور جاگ جاتا ہے

تبھی لاشعور میں بیٹھے خیالات یا گزرے مناظر اسے خواب کی صورت میں نظر آتے ہیں

بشیر صاحب کیا آپکے ساتھ بھی کبھی کوئ ایسا وقع پیش آیا ہے ؟

جی ڈاکٹر صاحب ایک وقعی میرے سات ہوا ہے

بشیر خان نے ڈاکٹر کو قبرستان میں داخل ہونے سے لیکر بے ہوش ہونے تک کے تمام حالت بتادیے . .

بشیر صاحب بلکل یہی وجہ ہے کہ وہ واقعہ آپکے لاشعور سے چپک گیا ہے.

پھر اس نے بشیر خان کو کچھ ادویات لکھ کر دی

بشیر خان کلینک سے نکلا اور ادویات کی پرچی پھاڑ دی

وہ ڈاکٹر کی باتوں سے مطمئن نہیں تھا

اس نے ایک بار نہیں تین بار یہ خواب دیکھا تھا بلکہ خود اپنی آنکھوں سے قبرستان والی عورت کو دیکھا تھا

بشیر کو

ڈاکٹر کی کسی بات پر تسلی نہیں تھی

اگر یہ خواب ہی تھا میں آگر لاشعور سے چکا ہوا تھا پھر روزانہ نظر آتا..

اسکے اندازے کے مطابق ہر ساتویں دن یہ خواب آتا تھا آور وہ کسی مختلف قبرستان سے بچے کی قبر کھودتااور نامعلوم پتے پر نامعلوم شخص کو دے آتا

وہ سوچوں میں غرق روڈ پر چلا جارہا تھا کہ اسے ایک دوست کی آواز آئ

بشیر خان آج ڈیوٹی پر نہیں گئے اس کے دوست مختار نے قریب آتے ہوئے کہا..

محلے میں اسکی سبزی کی دکان تھی جہاں اسکا لڑکا بیٹھتا تھا اور مختار سبزی منڈی سے سبزی لانے تک محدود تھا

بس یار تھوڑی طبیعت ناساز ہے.

کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کروالو

.

یار مختار میری ڈاکٹر کے بس سے باہر ہے..

مگر مسلہ کیا ہے ؟

کچھ نہیں یار چھوٹی سی بات ہے.

بشیر بات ٹالنے لگا.

یار بشیر کبھی کہتے ہو چھوٹی سی بات ہے اور کبھی کہتے ہو کہ ڈاکٹر کے بس سے باہر ہے

مجھےبتاؤ تو سہی کیا بات ہے

آو میرے ساتھ سامنے ہوٹل میں چاۓ پیتے ہیں اور پھر اس مسلے کا حل نکالتے ہیں

دونوں دوست ہوٹل میں چلے گئے اور چاۓ پیتے ہوئے باتیں کرنے لگے.

بشیر نے ساری بات بتائ.

بشیر میرے پاس ایک پیر کا پتا ہے ہوسکتا ہے تمہارا مسلہ وہاں حل ہوجائے.

مختار میں بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہا تھا..

تم مجھے پیر صاحب کا پتہ دے دو.

مختار نے کاغذ پر پینسل سے پتہ لکھ کر دے دیا.

ایک بات یاد رکھنا یہ پیر صرف دن کو تعویز وغیرہ دیتے ہیں رات کو نہیں..

اگلے ہی دن بشیر پیر نوازصاحب کے آستانے پر چلا گیا وہاں کافی رش تھا .

باری آنے پر وہ اندر جانے لگا تو دروازے کے پاس بیٹھے شخص نے اسے روک لیا.

کتنی فیس ہے ؟

جناب صرف 200روپے اور کام نہ ہونے کی صورت میں اپ کو 500روپے واپس دیے جائیں گے.

مگر کام نا جائز نہیں ہونا چاہئے.

بشیر نے 200روپے دیے اور اندر چلا گیا.

اندر ایک سفید داڑھی والا شخص سر پر امامہ باندھے تعویذ لکھ رہا تھا

اس شخص نے چہرہ اوپر اٹھایا اور بشیر خان کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا.

بشیر خان سے پیر صاحب کا چنونکنہ چھپا نہیں رہا

پیر صاحب کی زلفیں کالی اور لمبی تھی جو امامے سے نکلی ہوئی تھی.

منہ پت لمبی سفید داڑھی تھی.

بشیر خان اپنا مسئلہ بتانے ہی والا تھا کہ پیر صاحب بولے تمہارا مسلہ میں حل نہیں کر سکتا البتہ تم اصول کے مطابق فیس کے ساتھ 300روپے اضافی لیکر جاسکتے ہو.

مگر پیر صاحب آپ نے میری بات تو سنی ہی نہیں

بچے ہمیں سب علم ہے

تمہارے خواب تمہیں پریشان کرتے ہیں.

یہ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کے لئے تمہیں تعویذ دیا جاۓ.

کچھ دنوں میں تم خود بخود ٹھیک ہو جاؤ گے.

جاؤ اور سکون سے اپنا کام کرو

پیر صاحب کا جواب سن کر بشیر واپس نکلا مایوسی میں اس نے فیس بھی واپس نہ لی.

اور بشیر گھر آگیا.

آج بہت گڑبڑ ہونے والی تھی.

ناگیش بابا نے سکینہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا.

سکینہ رازانہ ناگیش بابا کا چکر لگاتی تھی.

اور بابا کو اپنے عمل کی رپورٹ دیتی تھی.

کیسی گڑ بڑ بابا؟

اس بشیر خان کو شک پڑگیا تھا کہ یہ خواب اسے دکھائی ہی نہیں دیتے بلکہ وہ سچ مچ ایسا کرتا ہے.

وہ پیر نواز کے پاس گیا تھا مگر وہاں اسکی دال نہیں گلی.

مگر پیر نواز تو بہت پہنچے ہوئے ہیں انہوں نے کچھ تو کیا ہوگا.

بشیر کے لئے اب ہمیں اگلے منگل ایسا انتظام کرنا ہوگا کہ یہ خواب والا سلسلہ اسکے ساتھ نہ ہو ورنہ وہ پھر کسی پیر فقیر کے پاس جاۓ گا اور ہوسکتا ہے وہ پیر واقع ہی پہنچا ہوا ہو اور وہ ہمارے عمل میں رکاوٹ نہ ڈال دے.

نہیں بابا ایسا نہیں ہو سکتا باقی عمل میں خود ہی کر لوں گی.

تم پھر بیوقوفوں والی باتیں کر رہی ہو

اب وہ عمل شروع ہو چکا ہے اور اسی کو ختم کرنا ہوگا جس نے شروع کیا ہے

اب اسکی روح نہیں بلکہ اب اگلے منگل وہ خود آۓ گا اور صبح اسے یاد بھی نہ ہوگا کہ رات وہ کسی قبرستان میں گیا تھا.

ناگیش کے ہونٹوں پر ایک گندی مسکراہٹ آئ وہ بابا کے سینے سے لگ گئی اور پھر ان دونوں نے بے تکلفی کی ساری حدیں پار کردی.

دوسرے دن منگل کی صبح تھی بشیر خان خوش تھا ہر منگل اسے خواب آتا تھا لیکن رات اسے خواب نہیں آیا تھا.

لیکن اسکی ساری خوشی چند ہی لمحوں میں کافور ہوگئی جب اسکی نظر اپنے ہاتھوں اور کپڑوں پر پڑی.

اسکے ہاتھ اور کپڑے مٹی سے لتھڑے ہوئے تھے اور ہاتھوں سے کافور کی خوشبو آرہی تھی.

وہ بہت زیادہ خوفزدہ ہوگیا.

یقیناً اب تک جو ہوتا آرہا تھا وہ خواب نہیں حقیقت تھا.

کوئ شیطانی طاقت ہے جو اس سے ایسے گھنونے کام کروا رہی ہے.

انہیں سوچوں میں غرق بشیر نہانے چلا گیا نہا دھوکر تیار ہوا اور ڈیوٹی پر چلا گیا.

دوسری طرف ساس اپنی بہو کے رویے سے پریشان تھی.

سکینہ ہر منگل رات گھر بہت دیر سے آتی تھی .

اور ہر بار اسکے ہاتھ میں شاپنگ بیگ ہوتا تھا.

ساس نے اس بار پکا ارادہ کرلیا تھا کہ وہ معاملے کی جانچ پڑتال کرے گی اور پتا لگواۓ گی کہ وہ کہاں جاتی ہے.

اسکا بیٹا اشتیاق کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا.

شام ہوتے ہی ساس ڈائننگ ہال میں آگئ.

مغرب کی اذان ہوتے ہی نماز ادا کرنے لگی.

ساس کو یقین تھا کہ بہو 20 منٹ تک اوپر اپنے کمرے سے نیچے نہیں آۓ گی.

مگر سکینہ تو جیسے موقع کا انتظار کر رہی تھی.

ساس نماز پڑھ کر فارغ ہوئ تو سکینہ گھر سے جاچکی تھی.

ساس نے اب سکینہ کی واپسی کا انتظار شروع کردیا.

رات 12 بجے رات کو سکینہ واپس آتے دکھائ دی.

ساس اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے اندر آتے دیکھ رہی تھی.

جب سکینہ اپنے کمرے میں چلی گئی تو ساس اٹھی اور سکینہ کےکمرے کی طرف بڑھی.

دروازہ بند تھا.

ساس نے دروازے پر لگے سراخ سے آنکھ لگائ تو اندر کا منظر دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہ پاسکی.

ساس کی آنکھوں نے جو دیکھا اس پر یقین نہیں آرہا تھا.

سکینہ کسی بچے کا ہاتھ پکڑے بڑی رغبت سے چبا رہی تھی.

دروازہ کھولو بہو,

سکینہ نے دروازہ کھولا.

کیا بات ہے اماں آپنے کیوں اتنا شور مچارکھا ہے.

سکینہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تم عورت نہیں ایک ڈائن ہو اور میں اپنے بیٹے اشتیاق کو ایک ڈائن کیساتھ نہیں رہنے دوں گی.

اشتیاق آتا ہے تو میں تمہارا فیصلہ کرواتی ہوں.

ساس کا چہرہ تو غصے سے سرخ ہوگیا.

ساس واپس مڑی مگر سکینہ اب اپنی منزل کے پاس آکر واپس نہیں پلٹنا چاہتی تھی.

اس لئے اس نے شاپنگ بیگ الٹا دیا.

نامولود بچے کے بچے کھچے ٹکڑے زمین پر گر گئے اور اور سکینہ نے شاپنگ بیگ ساس کے منہ پر چڑھا دیا .

تو میری موت کا فیصلہ کرے گی بڑھیا لے میں نے تیری موت کا فیصلہ کر دیا.. سکینہ واقع ہی ڈائن بن چکی تھی.

سکینہ کی شکل دیکھ کر کوئ نہیں کہ سکتا تھا کہ اس کے اس چہرے کے پیچھے ایک معصوم حسین چھپی ہے.

ساس نے اپنی جان بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن آخر کار ساس مر گئی.

کافی دیر بعد جب اس نے شاپنگ بیگ منہ سے ہٹایا تو وہ بری طرح کانپ سی گئ.

ساس کی آنکھوں کی بے نور پتلیاں جیسے اسے گھور رہی تھی.

سکینہ نے ہمت کر کے ساس کی لاش اسکے کمرے میں پہنچائ.

اور اپنے کمرے کو ہر سراغ سے پاک کیا اور سب سے پہلے اپنے شوہر فون کیا اور بڑی اداکاری سے ساس کی طبیعت ناساز کا بتایا اور پھر اپنے فیملی ڈاکٹر کو فون لگا دیا.

تھوڑی دیر میں ڈاکٹر وہاں پہنچ گیا ڈاکٹر کو پہلی نظر میں ہی پتا چل گیا کہ ساس مر چکی ہے

تھوڑی دیر بعد سکینہ نے دوبارہ اشیاق کو فون کیا اور روتے دھوتے بتایا کہ تمہای ماں اس دنیا سے گزر گئی ہے.

دوسری طرف جیسے جیسے منگل قریب آرہا تھا بشیر کا خوف بڑھ رہا تھا.

پورے ایک ماہ سے بشیر منگل کا شکار بنتا آیا تھا.

لیکن اب کی بار وہ ایسا ہونے نہیں دینا چاہتا تھا.

ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد وہ گھر کی طرف چل پڑا کچھ سوچ کر اس نے اپنی موٹر سائیکل میڈیکل سٹور کی طرف بڑھا دی.

بھاگی جاگنے والی گولی ہے بشیر نے اپنے پلین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گولیاں لے لی گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں گیا اور گولیاں کھالی.

گولیاں کھانے کی دیر تھی کہ اسے نیند آنے لگی

اس نے سر جھٹکا اور گولیوں کے پتے کی طرف دیکھدیکھنےلگا.

سفید رنگ کی گولیاں پیلے رنگ میں تبدیل ہوچکی تھی.

اسے اچھی طرح یاد تھا کہ گولیاں کس رنگ کی تھی

وہ بار بار سر کو جھٹکنے لگا.

لیکن وہ ناچاہتے ہوۓ بھی نیند کی آغوش میں چلا گیا رات 12بجے کا وقت تھا بشیر مشینی انداز میں اٹھا تو اس کے بھتیجے کے کمرے سے تلاوت قرآن پاک کی آواز آرہی تھی.

سورہ الناس کی پہلی آیت کا ترجمہ چل رہا تھا پھر دوسری آیت پڑھی گئی پھر تیسری پھر چوتھی .

چوتھی آیت پر بشیر خان ٹھٹھک کر رہ گیا

قرآن پاک کی میٹھی آواز بشیر خان کے کانوں میں پڑی تو اسکا منہ سرخ ہوگیا.

مٹھیاں بند ہونے لگی.

وہ خود بخود کھینچتا ہوا بھتیجے کے کمرے میں داخل ہو گیا

اور ساری رات وہ اپنے بھتیجے سے کہہ کر وہ قرآن پاک کی تلاوت سنتا رہا.

دوسری طرف

پیر نواز صاحب کا آستانہ تو کبھی چھٹی کے دن بھی بند نہیں ہوتا تھا مگر آج بدھ کے دن اسکا آستانہ بند تھا.

وہ اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہا تھا اچانک ہلکا سا دھماکا ہوا اور ایک بھیانک دیو نما شخص سامنے نمودار ہوا.

کہاں مر گیا تھا تو اور کام پورا کیوں نہیں کیا.

آپکو معلوم ہے کہ میں روحانی چیزوں سے دور رہتا ہوں.

اسے میں لانے ہی والا ہی والا تھا کہ کچھ نامعلامنامعلوم سے الفاظ مجھے جھلسانےلگے اور میں وہاں سے بھاگ آیا

میں بار بار وہاں جانے کی کوشش کرتا رہا اور بار بار وہ ناموس سی آواز میرے بدن میں چنگاریاں چھوڑ جاتی

ساری رات وہ اس کمرے سے نکلا ہی نہیں تو میں کیا کرتا ؟

دفعہ ہوجا یہاں سے کسی کام کا نہیں تو. پیر نواز نے دھاڑتے ہوۓ کہا

اس کے جاتے ہی پیر نواز تیہخانے میں چلا گیا

تیہخانے میں جگہ جگہ پر بُت پڑے تھے

ایک بت کی زبان باہر نکلی ہوئی تھی وہ کالی ماتا تھی

پیر نواز اس کے قدموں میں گر پڑا

میری زندگی اب تیرے ہاتھ میں ہے

ماتا وہ عمل کسی وجہ سے ادھورا رہ گیا ہے اور اب میری زندگی خطرے میں ہے

مجھے بچا لیں کالی ماتا مجھے بچا لیں

پیر نواز گڑگڑانے لگا

مگر اسے نہیں پتا تھا کہ

کالی طاقتیں وقت پڑنے پر اپنا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں.

یکا یک ایک طرف سے نیلے رنگ کا کھولتا ہوا لاوا نکلا

اور پیر نواز کے ناک اور کان سے نکلتا ہوا اس کے سارے جسم میں سراہیت کر گیا.

اسکے جسم سے نیلے رنگ کےآبلے پھوٹنے لگے.

اور وہ کپڑوں کو پھاڑتا ہوا تیہخانے سے باہر نکل آیا

درد کی شدت سے اسکے منہ سے دل دہلا دینے والی چیخیں نکل رہی تھی.

بشیر خان میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.

یہ تو نے اچھا نہیں کیا

تو پل پل موت کیلیے تڑپے گا

اور تجھے موت بھی نہیں آۓ گی

پیر نواز دانت پیستے ہوۓ بڑبڑا رہا تھا

اس نے اپنے ملازم سے کہہ کر ایک رجسٹر منگوایا

اس رجسٹر میں بشیر خان اور اس کے اہل خانہ کے نام لکھے اس کے بھائ بھتیجوں کے نام لکھے

اور ان ناموں پر کچھ پڑھتا رہا

اس نے ملازم سے کہہ کر صحن میں آگ جلوائ

اور بشیر خان اور اسکے اہل خانہ کی پرچیاں آگ میں پھینکنے ہی والا تھا کہ اس کے سامنے ایک جھماکا سا ہوا اور ایک فقیر ہاتھ میں چھڑی پکڑے نمودار ہوا .

فقیر بولا

اب بھی وقت ہے اپنی کرتوتوں سے باز آجا

شاید تجھے معافی مل جائے

پیر نواز غصے سے بولا

تو کدھر سے آیا ہے ڈھونگی دفعہ ہوجا یہاں سے

نواز اب مجھے اپنا کام کرنے دے

تو نے بہت گناہ کماۓ ہیں

مگر ہر انسان پر توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے

تو ان معصوموں کو انکے حال پر چھوڑ دے اور اس آگ کو بجھا دے تاکہ تو خود اس آگ سے بچ سکے

بابا اپنی بکواس بند کر اور دفعہ ہوجا.

بابا میرا کوئ اللہ نہیں ہے.

یہ کہتے ہی پیر نواز نے پرچیاں آگ میں پھینکی

اور پاس پڑی اینٹ اٹھائ اور فقیر کو دے ماری

اینٹ فقیر کے جسم سے ایسے گزر گئی جیسے وہ ہوا کا بنا ہوا ہو

پیر نواز اب جتنی دیر دھوپ میں کھڑا رہتا وہ نیلے آبلے پیرنواز کے جسم سے پھوٹنا بند ہو جاتے

وہ کالی طاقتیں جو کبھی پیر نواز کا ہتھیار ہوتی تو اج اس کیخلاف تھی

سورج کی پیلی روشنی پیر نواز کو کالی طاقتوں سے محفوظ کیے ہوئے تھی.

جیسے ہی سورج ڈوبا وہ آستانے سے نکلا گلی میں سورج کی ڈھلتی دھوپ میں دوڑنے لگا

موت کے خوف نے اس کی تمام حسیات ترک کردی تھی

ساۓ لمبے ہوتے گئے اور سورج ڈوبتا چلا گیا

لاہور شہر اور بسنت پر پتنگوں سے آسمان رنگین تھا

دوسری طرف بشیر خان اور اسکے بچے اور بھتیجےپتنگیں اڑانے میں مصروف تھے

کہ اچانک اس کے بھتیجے کو ایک کٹتی پتنگ ڈور سمیت جاتی ہوئی دکھائی دی

وہ پتنگ کو پکڑنے کے لیے بھاگا

جیسے ہی اس نے ڈور پکڑی ایسے لگا جیسے کوئ کرنٹ اس کے جسم میں داخل ہو گیا ہو

اور وہ نیچے گر گیا

سب اسکی طرف دوڑے

اسکے ناک منہ اور کانوں سے خون جاری تھا

اسے اٹھایا گیا ہسپتال پہنچایا گیا

دوسری طرف سکینہ جب سے ناگیش بابا کے پاس سے آئی تھی

بہت پریشان تھی

ہر منگل اسکا عمل پورا ہوا کرتا تھا لیکن اس منگل بشیر خان بچہ لیکر اسکے پاس نہ آیا تھا.

اور جہاں وہ پریشان تھی تو دوسری طرف ناگیش بابا کا بھی برا حال تھا

اس نے دو دن میں ناگیش کے فلیٹ کے دس چکر لگانے تھے مگر ہر بار اسے ناگیش وہاں نہ ملتا.

سکینہ کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے کہ شاید عمل پورا نہ ہونے کی صورت میں شیطانی طاقتوں نے اس کیساتھ کچھ الٹا سیدھا نہ کردیا ہو

اور اب وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں اس کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے

تبھی اسکی زندگی نے پلٹا کھایا

شروات ایک اُلٹی سے ہوئی

اشتیاق ماں کی وفات کے بعد باہر نہیں گیا تھا

وہ سکینہ کو لیکر ڈاکٹر کے پاس گیا تو ڈاکٹر نے سکینہ کے ماں بننے کی خوشخبری سنائی

اشتاق کی تو خوشی کی انتہا نہ تھی

گھر پہنچتے ہی اس نے ملازمون کو کہا کہ سب داتا دربار پر چلو.

داتا دربار پہنچ کر اشتیاق نے لنگر پکانے والے کو دس ہزار روپے دیے اور کہا کہ لنگر بھی تقسیم کردو

سب لوگ دربار میں داخل ہو گئے مگر سکینہ نے ابھی پاؤں اٹھایا ہی تھا کہ اسے ایسے لگا جیسے آگ کی دیوار اسے اندر داخل ہونے سے روک رہی ہو

وہ بھاگ کر پیچھےجا کھڑی ہوئ

اندر چلو

اشتیاق نے سکینہ سے کہا

نہیں اشتیاق مجھ سے چلا نہیں جا رہا

تو سکینہ میں تمہیں اٹھا کر لے چلتا ہوں

سکینہ غصے سے بولی

میں نے کہا نہ میں اندر نہیں جاؤں گی.

ٹھیک ہے سکینہ جیسے تمہاری مرضی

اشتاق اکیلا اندر داخل ہونے ہی لگا

پیچھے سے آواز آئ

بہت خوش ہو بچے

کوئ درویش بابا تھے

بچے تیری خوش نصیبی ہے کہ تو اللہ کے دربار میں آیا ہے

ورنہ تو بھی اسی کالی طاقت کی لپٹ میں جاتا جو تیری بیوی کیلیے میں نے دیکھی ہے

کونسی طاقت بابا جی ؟

میں سمجھانہیں آپکی ؟

بیٹا سمجھ جاؤ گے بہت

لو تم یہ کھالو

درویش نے چند الائچی کے دانے اشتیاق کو دیے اور بولا

بیٹا ایک بات یاد رکھنا اپنی بیوی کے پاس تب تک نا جانا

جب تک وہ اس بچے کو جنم نہیں دے دیتی

بعد میں اجازت ہے اگر وہ اس قابل رہی تو

آخری جملے درویش نے مسکراتے ہوئے کہا

اشتیاق کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر دیکھتدیکھتےہی دیکھتے درویش غائب ہو گیا

لنگر وغیرہ تقسیم کرنے کے بعد وہ گھر لوٹ آۓ

دوسری طرف بشیر خان کے بھتیجے کی موت ہوگئی تھی

بشیر خان کے بڑے بھائی کا تو رو رو کر برا حال تھا

اسکی بھابھی بار بار بے ہوش ہو جاتی تھی

بھتیجے کا کفن دفن ہوگیا

رات ہوگئ

سب لوگ سونے کیلئے اپنے کمروں میں چلے گئے لیکن بشیر خان کا بڑا بھائی گیلری میں بیٹھا گھٹنوں میں سر دیے رو رہا تھا

رات 2 بجے کا وقت تھا ایک کمرے کا دروازہ کھلا اور اسکے بڑے بھائی کی بیٹی آہستآہستہآہستہ چلتے ہوئے اس کے پاس سے گزر گئی.

بھتیجی پر نظر پڑی تو اس نے نوٹس نہ لیا کہ وہ کہاں جارہی ہے

کیونکہ وہ اس وقت دکھ کی ایسی گہری دلدل میں تھا

کہ چاہے کوئ جو مرضی کرے

اسے کچھ پرواہ نہیں تھی

اسکی بھتیجی چلتی ہوئی دادا کے کمرے میں آئ

جس کے ساتھ بشیر خان کے دونوں بیٹے لیٹے ہوئے تھے.

بھتیجی کے ہاتھ میں تیز دھار سبزی کاٹنے والی چھری تھی

سامنے دادا بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے

اور دادا کے پہلو میں بشیر خان کا بیٹا تھا

بھتیجی نے آگے بڑھ کر بشیر خان کے بیٹے کو اٹھانا چاہا کہ اسی وقت دادا نے کروٹ بدلی.

جیسی ہی بھتیجی نے پیچھے ہٹنا چاہا تو کہنی سے گلاس نیچے گر گیا

ایکدم سے دادا اٹھے اور پوتی کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ٹھٹھک گئے

بیٹا یہ کیا ہوا ہے تمہیں اور یہ چھری ؟

پوتی کے منہ سے مردانہ عجیب سی آواز نکلی

یہ بچے مجھے دے دے بوڑھے تیری باری ابھی نہیں آئ اگر مجبور کیا تو سب سے پہلے تجھے ماروں گا

پوتی کے منہ سے یہ سن کر دادا پر وحشت طاری ہو گئی.

اسی وقت اس لڑکی کے پیچھے سے ایک فقیر ظاہر ہوا

اور بولا.

تو نے جو کچھ بھی کرنا تھا کرلیا

اب ہماری باری ہے

نکل باہر اس جسم سے

فقیر نے لڑکی کی چوٹی پکڑی اور زور سے جھٹکے دینے لگا

لڑکی کے منہ سے مردانہ چیخوں کا طوفان جاری تھا اور پھر ایک دھواں سا نکلا اور ایک کالے بھیانک دیو کی شکل اختیار کر گیا

اسی اثنا میں بشیر خان اور اسکے بھائ بھی کمرے میں آگیۓ.

فقیر نے اس بھیانک دیو نما شخص پر کچھ پڑھ کر پھونکا جسکی وجہ سے اسے چیخنے کی بھی مہلت نہ ملی اور وہ

جل کر خاک ہو گیا

فقیر بولا

میں جانتا ہوں کہ آپ سب حیران ہوں گے کہ یہ سب کیا ہوا ہے

مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس طرف سے میں غافل نہیں تھا

ورنہ اس مردود کا کالا جادو ان بچوں پر بھی اسی طرح حملہ آور ہوتا جسطرح صبح آپکے چھوٹے بیٹے پر ہوا تھا

بابا جی ہم یہ تو نہیں پوچھیں گے کہ آپکون ہیں

اور آپ ہماری مدد کیلئے کسطرح آۓ

یقیناً آپ کوئ نیک ہستی ہیں

مگر اس بات کا جواب ضرور دے دیں کہ ہمارے اپر کالا جادو کون کرے گا

ہمارا تو کوئ ایسا دشمن بھی نہیں ہے

بچے اس بات کا جواب تمہیں بشیر خان بہتر طریقے سے دے سکتا ہے

فقیر نے مسکراتے ہوئے بشیر خان کی طرف دیکھا

میں ؟؟

ہاں بشیر تم

یاد کرو قبرستان میں جب تم نے اس عورت کو گندے عمل سے منع کیا تھا

وہی نیکی تمہارے گلے پڑ گئی

صبح کا حادثہ جو تمہارے بھتیجے کی جان لے گیا

وہ بھی اسی جادو کی پیداوار تھا

مگر ظلم خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے

جب پڑتی ہے تو اچھے اچھوں کے پتے پانی ہو جاتے ہیں

بابا جی تو کیا جو خواب مجھے آرہے تھے وہ حقیقت تھے؟

ہاں وہ بلاشبہ ایک حقیقت تھے.

اور شاید یہ عمل تم 7منگل تک کرتے

مگر اللہ تعالٰی کے پاک کلام کی بدولت عمل آدھے میں رہ گیا

جسکی وجہ سے وہ شخص کافی عذاب میں ہے

اور اب وہ تم سب اہل خانہ

کا دشمن ہوگیا ہے

مگر اب وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا

میں نے تمہیں قبرستان میں دیکھا تھا

میں اسی دن سے تمہارے ساتھ ساتھ ہوں

مگر بابا وہ شخص کون ہے؟

بچے اسکا ایک روپ خواب میں تم دیکھ چکے ہو اور دوسرے روپ کا نام ہے پیر نواز

وہ شخص صبح کے وقت آستانے پر بیٹھ کر پیر نواز بنتا ہے اور رات کو سفلی علم کا ماہر بن کر

ناگیش بابا کے نام سے ایک فلیٹ میں موجود ہوتا ہے

کام وہ شیطانی عمل سے ہی کرتا ہے

خواہ وہ آستانے میں ہو یا اس فلیٹ میں

اب میں چلتا ہوں اور ہاں صبح تم اپنے کام پر ضرور جانا

مگر بابا گھر میں جوان موت؟.

بیٹا وہ بھی اللہ کی مرضی تھی اور یہ بھی اللہ کی مزضی ہے

ایک کام کا آخری انجام رکا ہوا ہے.

اس نیک کام کا انجان تمہارے ہاتھوں ہی ہونا ہے.

یہ کہتے ہوئے فقیر بابا دیوار کی طرف چلے اور غائب ہو گئے

فقیر کے جانے کے بعد سب نے بشیر خان کو گھیر لیا

بشیر خان نے سارا واقعہ سنا دیا

سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ

اگلے دن فقیر کی ہدایت کے مطابق بشیر ڈیوٹی پر چلا گیا

سارا دن وہ اسی کشمکش میں رہا کہ نجانے کونسا ایسا نیک کام ہے

جو اسکی وجہ سے رکا ہوا ہے.

سارے لاہور کا چکر کاٹتی اسکی 43 نمبر گاڑی ٹوکر سٹاک پر آئ

اسکی نظر راستے پر تھی کہ اچانک ایک جنگلی ثور اسکی گاڑی کے آگے آگیا

وہ بھاگا ہوا روڈ کراس کرنے کی کوشش کررہا تھا

کچل ڈالو اسے کچل ڈالو

مسافروں کی آواز نے اسے قدم اٹھانے پر مجبور کردیا

اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ ثور نجانے کس کس کو نقصان پہنچاتا

بشیر خان نے گاڑی کی رفتار تیز کی ثور کی گردن بری طرح سے مڑی اور ثور کی آنکھیں بشیر خان کی آنکھوں سے ملی تو بشیرخان نے گاڑی روک دی

اگر وہ ثور چاہتا تو بھاگ سکتا تھا

مگر وہ وہیں رک گیا

بشیر نے ایک بار پھر زور دار جھٹکے سے گاڑی ثور پر چڑھا دی

ایسا کرنے سے اب بشیر خان مطمئن ہوگیا کہ اب وہ جانور مرچکا ہے

وہ گاڑی سے اترا مگر قدم باہر رکھتے ہی ایک پولیس کی گاڑی اسکے پاس آرکی

اور ایک وردی نما شخص نے اونچی آواز سے کہا

ہم تمہیں گرفتار کرتے ہیں

دوسری طرف پیر نواز دوڑتا رہا دھاپ ڈھلتی رہی اور آخر کا سورج ڈوب گیا

گلیوں سے نکل کر وہ سڑکوں پر آگیا

ہر شخص اسکی حالت کو دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا رہا تھا

اسکا تمام بدن گردن تک چھلنی بن چکا تھا

نیلے مواد نے اس کے چہرے کو نہیں چھیڑا تھا

اسکے منہ سے چیخوں کا طوفان بھی جاری تھا.

کوشش کے باوجود بھی وہ چیخوں پر قابو نہیں پا رہا تھا

اسی وجہ سے ارد گرد کے لوگ اسے دیکھ کر توبہ توبہ کر رہے تھے

اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا

نقلی داڑھی اکھڑ کر جھول رہی تھی

وہ تو بس دھوپ کی تلاش میں دوڑا جا رہا تھا

پھر کلمہ چوک کے پاس آکر اسکی قوت برداشت جواب دے گئی

اور وہ گر پڑا

گرتے ہی بے ہوش ہوگیا

نجانے کتنی دیر وہ بے حوش رہا

دھوپ کی ہدت محسوس ہوتے ہی اسکی آنکھ کھلی

سورج سر پر تھا

مگر وہ جانتا تھا کہ سورج نے صدا سر پر نہیں رہنا

اس لئے وہ اٹھا اور اپنی حفاظت کی تدابیر سوچنے لگا

اسکی چاک میں اب لڑکھڑاہٹ تھی.

کوئ تدبیر اسکے ذہن میں نہیں آرہی تھی

آخر کار سورج ڈھلنے کا وقت آگیا ہ

اس نے اُفق کی طرف دوڑنا شروع ہو کر دیا

ٹوکر سٹاک پر وہ پہنچا تو روڈ کراس کرتے ہوئے اسے گاڑی اپنی طرف آتے دکھائ دی .

گاڑی کے ڈرائیور کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا

یہ تو بشیر خان تھا.

جسکے اہل خانہ سے

سمیت اسنے بشیر خان کی موت کی پرچی لکھی تھی

مگر بشیر خان زندہ تھا

اور گاڑی لیکر اس پر چڑھ رہا تھا

پیر نواز نے آنکھیں بند کر لیں

بشیر خان نے اسکے جسم کو دوبارہ کچلا

سامنے 5 سگریٹ کے کھوکھے پر بیٹھے لڑکوں نے یہ حادثہ دیکھا تو جلدی سے ہولی کو فون کر دیا

چند لمحوں میں پولیس کی گاڑی پہنچ گئی

بشیر خان گاڑی سے اترا تو ایک ٹریفک پولیس نے کہا کہ ہم تمہیں گرفتا کرتے ہیں

لیکن میرا جرم کیا ہے ؟

ایک انسان کو بری طرح مار کر تم کہتے ہو تمہارا جرم کیا ہے.

ایک مسافر گاڑی سے اترا اور بولا

جناب ڈرائیور نے کسی انسان کو نہیں بلکہ جنگلی ثور کو مارا ہے.

سب مسافر بول پڑے

ہاں ہاں ہم سب نے دیکھا ہے.

سب گاڑی کے اگلے ٹائر کی طرف آآئے مگر وہاں کسی جانور یا کسی انسان یا کسی چیز کا بھی نام و نشان نہیں تھا

اور نہ ہی خون کا ایک قطرہ تھا.

سب حیران ہو رہے تھے کہ انہوں نے خود ایک جنگلی ثور کو مرتے ہوئے دیکھا ہے اور اب وہاں کچھ بھی نہیں.

جبکہ کھوکھے پر بیٹھے لڑکے اور دیگر دوکان والے بھی حیران تھے.

مگر ٹریفک آفسر کے پیچھے کھڑے فقیر بابا بشیر کو مسکراہٹ بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے

تھوڑے ہی دنوں میں بشیر خان کی زندگی معمول پر آ گئی تھی۔


دوسری طرف سکینہ کے یہاں بیٹا ہوا جو کئ ٹکڑوں پر مشتمل تھا

جسکی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی

تو اس کے بعد اسکے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔

اسے پاگل خانے میں ڈال دیا گیا.

اور پھر ایک ماہ کے اندر اس کا ناطہ اس دنیا سے ختم ہوگیا.

HAPPY END!NG

امید ہے آپ لوگوں کو آج کی کہانی پسند آئ ہو گی.

افسوس یہ ہے کہ اس واقعہ میں 2 معصوم لوگوں کی جان چلی گئی

تو یار اس عبرت ناک واقعے سے بہت سارے سبق ملتے ہیں مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے .

اگر شبیر قبرستان میں بیٹھی عورت کو نہ روکتا اور اپنے راستے ہو لیتا

تو شاید یہ کہانی نہ بنتی

اور اگر یہ کہانی نہ بنتی

تو میں یہ کہانی لکھ نہ پاتا

اور میں کہانی لکھ نہ پاتا تو آپ یہ کہانی پڑھ نہ پاتے

اور آپ یہ کہانی پڑھ نہ پاتے تو آپ اس سےعبرت کیسے حاصل کرتے ؟

تو جو کچھ ہوتا ہے اسی میں خدا تعالیٰ کی بہتری ہوتی ہے.

آخری بات

کہانی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیجئے گا اور میں آپ کے کمنٹ پر آپکا شکریہ ادا ضرور کروں گا.

تو اسی کیساتھ دیجئے اجازت 

کوئی بات بری لگی ہوتومعذرت

آپکا دوست .

اللہ حافظ