Urdu Horror Stories,Urdu Horror Novel, Black magician story, Kala Jadu story, Urdu Kahaniya, horror images
Jadugar
This is a 90 pages book in the Urdu language. available here for free download and online reading.

  To download in PDF form, please go at the last of this page or simply you can read online JADUGAR, by scrolling down here

مکمل کہانی:  جادوگر

ازقلم اویس چوہان


ایک چیخ کے ساتھ سویرا کی آنکھ کھل گئی

وہ پوری طرح پسینے میں شرابور تھی

اس نے گھڑی پر وقت دیکھا تو پورے گیارہ بجے تھے

وقت دیکھتے ہیں وہ ماضی کے جھروکوں میں کھو گئی۔۔۔۔۔۔

وہ صرف سات سال کی تھی جب اس کے والد کہیں لاپتا ہو ہوگئے تھے

بچپن میں وہ اپنی ماں سے بہت پوچھتی کے پاپا کہاں ہے

لیکن اس کی ماں ہیلوں بہانوں سے اس کی بات کو ڈال دیتی

کوئی مناسب جواب نہیں دے پاتیں۔

اس کے پاپا ہر روز رات کو سونے سے پہلے اسے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔

سویرا جب سات سال کی ہوگی تو اس کی سالگرہ کے دن اس کے پاپا نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ بیٹا میں تمہیں ایک بہت بڑی بات بتانے جارہا ہوں جسے تمہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے

ہم محافظوں کے خاندان میں سے ہیں

ہمارا کام حفاظت کرنا ہے۔۔

یہ کہہ کر اس کے باپ نے ایک پرانی سی کتاب اس کے ہاتھ میں دی

اور اسے کہا کہ بیٹا جب تم پورے 18 سال کی ہو جاؤ گی تب تمہیں اس کتاب کو کھول کر پڑھنا ہے

لیکن مجھ سے وعدہ کرو کہ اٹھارہ سال کے ہونے سے پہلے تم کبھی بھی اس کتاب کو نہیں کھولو گی

سویرا جو کے اس وقت معصوم سی بچی تھی۔

اس نے معصومیت میں اپنے پاپا سے وعدہ کرلیا

سویرا کے ابو کتاب اس کے حوالے کر کے گھر سے باہر نکل گئے

میرا انہوں نے کہا کہ میں تمہارے لیے سالگرہ کا تحفہ لینے جا رہا ہوں۔

لیکن سویرا نہیں جانتی تھی کہ یہ اس کی اس کے باپ سے آخری ملاقات ہے

ورنہ وہ انکو کبھی جانے نہیں دیتی۔۔۔۔۔

سویرا بیٹا اٹھ جاؤ فجر کی نماز کا وقت ہو چکا ہے

امی کی آواز نے اسے خیالات کی دنیا سے باہر نکالا

اور وہ وضو کرنے کے لیے واش روم میں چلی گئی

وضو کرکے اس نے نماز فجر ادا کی

نماز کے بعد وہ اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑا کر دعا مانگنا شروع ہوگی کیا اللہ

تو میرا امتحان کیوں لے رہا ہے کیوں دس سال سے مسلسل یہی خواب مجھے پریشان کیے جا رہا ہے

اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا

اب مجھے اس امتحان سے نکال دیجئے۔

دعا مانگ کر وہ کچن میں اپنی امی کا ہاتھ بٹانے کے لیے چلی گئی

کیونکہ اسے جلدی سے ناشتہ تیار کرنا تھا۔اور امی اور دادی کے ساتھ ناشتہ کرکے آٹھ بجے کالج کے لیے نکلنا تھا

ناشتے کی ٹیبل پر دادی بولیں

سویرا بیٹا خیریت تو ہے تم کچھ بجھی بجھی سی ہو

سویرا کی امی بولیں کہ ماضی لگتا ہے آج اس نے پھر وہی خواب دیکھا ہے

جو یہ مسلسل دس سال سے دیکھ رہی ہے

سویرا بولی امی جان نہیں آج میں نے اس شخص کا چہرہ بھی دیکھا ہے۔۔

پہلے مجھے صرف یہ دکھائی دیتا تھا کہ ایک غار ہے پاپا اس میں چلے جارہے ہیں۔

کہ کوئی شخص پیچھے سے ان پر تلوار سے وار کرتا ہے

اور وہ وہیں گر کر خدا کو پیارے ہو جاتے ہیں

لیکن امی جان آج میں نے اس شخص کا حلیہ اور چہرہ بھی واضح طور پر دیکھا ہے۔۔۔۔۔

ناشتہ کرنے کے بعد وہ کالج کی طرف روانہ ہوگئی۔۔

سویرا ایک سرسبز و شاداب پہاڑی علاقے کی رہائشی تھی

ایک معقول گھرانے سے اس کا تعلق تھا۔

باپ کے جانے کے بعد اس کی فیملی تین نفوس پر مشتمل تھی

سویرا اس کی امی شگفتہ۔اور اس کی دادی رضیا بانو ۔۔

اس اے ابو ان کے لیے اتنا کچھ چھوڑ گئے تھے کہ آرام سے ان کا گزر بسر ہو رہا تھا۔

ویسے بھی تصویر ایک سمجھدار لڑکی تھی۔

عام نوجوان لڑکیوں کی طرح اس میں کسی طرح کی فضول اور بد عادت نہیں تھی۔

اپنے کالج اور دوستوں میں بھی وہ ہردلعزیز تھی۔

کھیل کود اور سپورٹ میں بھی ہمیشہ پوزیشن ہولڈ کرتی

کالج میں داخل ہوتے ہی سویرا کا استقبال کیلے کے چھلکوں سے کیا گیا۔

جو کہ اس کے دو شرارتی دوستو ں اقبال اور منیر نے اس کے راستے میں رکھ دیے تھے ۔

اقبال اور منیر آپس میں کافی گہرے دوست تھے۔

وہ دونوں بہت شرارتی تھے لیکن دل کے بہت اچھے تھے

جیسے ہی سویرا نے کلاس روم میں قدم رکھا۔اس کا پاؤں کے لئے کے چھلکوں پر سے سلپ ہوگیا اور وہ دھڑام سے فرش پر گر پڑی۔

ساری کلاس نے قہقہے مار کر ہنسنا شروع کر دیا۔۔

اتنے میں سویرا کی سب سے اچھی دوست اریبا سامنے آئی۔اور اس نے سویرغ کو سہارا دے کر اٹھایا سویرا کے پاؤں میں موچ آ چکی تھی۔

جس کی وجہ سے اسے چلا نہیں جا رہا تھا...

تم دونوں کو شرم نہیں آتی

تمہارے مذاق کی وجہ سے دیکھو اس کی کیا حالت ہوگی

اریبہ چیختے ہوئے دونوں لڑکوں سے مخاطب ہوئی۔۔

رہنے دو اریبا یہ تو صرف مذاق کر رہے تھے انہیں کیا پتا تھا کہ میں اتنا بری طرح گر جاؤں گی۔۔سویرا نے تحمل کے ساتھ کہا۔

تمہاری اسی اچھائی نے ان دونوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے

آج میں پرنسپل سے ان دونوں کی شکایت کروں گی۔

یہ کہتے ہوئے اریبہ پاؤں پٹختی ہوئی کلاس روم سے باہر نکل گئی۔

اسے ان دونوں سے زیادہ سویرا پر غصہ آ رہا تھا

کیونکہ وہ ہر بار اس طرح کی غلطیاں کرتے تھے اور سویرا ان کو معاف کر دیتی تھی۔

اریبا سیدھی پرنسپل کے آفس میں چلی گئی اور۔اقبال اور منیر کی شکایت کردی

پرنسپل صاحب فورا کلاس روم میں آئے اور ان دونوں کو ڈانٹا اور وارننگ دی کے آئندہ اگر تم دونوں نے ایسی حرکت کی تو تمہیں کالج سے نکال دیا جائے گا...

کالج کا یہ دن سویرا کیلئے عجیب و غریب سا تھا۔

ایک تو اس کے پاؤں میں موچ آگئی تھی دوسرا اس کی سب سے اچھی دوست اریبہ اس سے ناراض ہو گئی تھی۔

سارے لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد سویرا نے گھر جانے کا سوچا لیکن پاؤں زخمی ہونے کی وجہ سے وہ خود گھر نہیں جا سکتی تھی۔

اقبال اور منیر کے پاس صرف ایک ہی موٹرسائیکل تھی اس لیے وہ بھی تصویر کو ڈراپ نہیں کر سکتے تھے۔۔

اقبال نے کہا کہ سویرا تم آج سرمد کے ساتھ گھر چلے جاؤ میں اس کو کہہ دیتا ہوں وہ آپ کو ڈراپ کر دے گا....

یوں تو سویرا بہت سلجھی ہوئی لڑکی تھی اور وہ اپنے کالج کے سارے دوستوں کے ساتھ ہنس کر بات کرتی تھی لیکن سرمد اسے قطعی پسند نہ تھا۔

وہ تھا بھی من موجی اور عیاش طبیعت کا مالک۔

سویرا ہمیشہ اس سے دور ہی رہتی تھی۔

کیونکہ وہ ایک بن باپ کے لڑکی تھی اس کی ماں اور دادی اس کا کل خاندان تھی اس لئے وہ ان کو کسی پریشانی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

خیر چاروناچار سویرا نے ہاں کردی اقبال سرمد کو لینے کے لئے کلاس روم سے باہر نکل گیا..

سرمد کے آنے پر سویرا اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی اور وہ سویرا کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔

سویرا کے گھر کا راستہ جنگل کے بیچوں بیچ بنی ہوئی ایک کچی سڑک پر سے ہو کر جاتا تھا۔

کیونکہ وہ پہاڑی علاقہ ہے اس لئے وہاں پے جنگلات کو اس حد تک کاٹنا نہیں گیا تھا ۔

اس لیے صبح کے وقت بھی وہاں پہ اندھیرے کا سماں ہوتا تھا

سرمد بائیک کو اڑائے لیے جا رہا تھا

سویرا کو بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ سرمد کو جانتی تھی کہ وہ بہت اوباش قسم کا لڑکا ہے

کہیں وہ کچھ الٹی سیدھی حرکتیں نہ کردے۔

لیکن اس کی امید کے برعکس صرف بلکل چپ چاپ خاموشی سے بائیک کو فل سپیڈ کے ساتھ دوڑائے جارھا تھا۔

سویرا سوچوں کے بھنور میں گم تھی کہ اچانک۔سرمد نے موٹرسائیکل کو بریک لگا دی

سویرا کو ایک جھٹکا لگا اور اس کے ہاتھ مضبوطی تھے سرمد کے گرد لپٹ گئے۔

سویرا نے جلدی سے خود کو سنبھالا اور بائیک سے نیچے اتر گئی

سرمد بیباک سے اتر گیا اور سویرا کی طرف مڑا

سویرا اس اچانک افتاد سے گھبرا سے گی۔

وہ ابھی شرم کے بارے میں مثبت سوچ ہی رہی تھی کہ سرمد نے وہی کیا جو کہ اس سے امید کی جاسکتی تھی

سرمد نے سویرہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا کہ اب تم بتاؤ تم مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہو کیا برا ہے مجھ میں۔

کیا میری شکل بری ہے یا میرا قد کاٹھ۔۔

سویرا سہمی ہوئی بولی کے مجھے گھر چھوڑ کر آؤ۔۔

تم مجھے برا سمجھتی ہو تو یہی سہی

آج میں تمہیں برا بن کے دکھاؤں گا۔

سرمد سویرا کی طرف مسلسل بڑھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔

پلیز مجھے جانے دو میں نے کبھی بھی تمہارے بارے میں کچھ برا نہیں سوچا۔

نہیں آج تو قسمت سے موقع ہاتھ لگا ہے

آج تو میں اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاؤں گا چاہے اس کا انجام مجھے بعد میں بھگتنا ہی کیوں نہ پڑے۔

سویرا کی گھبراہٹ دوچند ہوگئی وہ سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ اس وقت کیا کرے اور کیا نہ کرے

کہ اچانک ایک طرف سے آدھی طوفان ہوا کی شکل میں اڑتا ہوا آیا

اور سارے ماحول پر چھاتا چلا گیا۔

جو تھوڑی بہت سورج کی روشنی زمین تک پہنچ پا رہی تھی وہ بھی زمین تک پہنچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔

گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔

اتنے میں کسی نے زوردار تھپڑ سرمد کے منہ پر پے در پے رسید کرنا شروع کر دیے۔

سرمد کی چیخوں سے جنگل گونج اٹھا۔

تو ویرانے قطعی امید نہیں کی تھی کہ اس کی عزت اس طرح بچے گی۔

اس نے موقع غنیمت جانا اور لڑکھڑاتے ہوئے پاؤں کے ساتھ آہستہ روی سے گھر کی طرف روانہ ہوگئی

و حواس باختہ تو تھی کہ یہ اچانک موسم کو کیا ہوا اور سرمد چیخ کیوں رہا ہے۔

لیکن ایک گونا خوشی بھی اس کے رد پے میں سرایت کر گئی تھی کہ اس کی عزت سرمد کے ہاتھوں سے بچ گئی۔

انہی سوچوں میں گم پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔

آدھے گھنٹے کا یہ سفر اس نے نے ذہنی انتشار میں ہی گزار دیا

شام کا وقت ہونے کو تھا۔

سویرا نے ڈور بیل بجایی تو دروازہ اس کی امی کی جگہ اریبہ نے کھولا۔

وہ حیران تو بہت ہوئیں لیکن ابھی کچھ منٹ پہلے والے سانحے سے وہ پوری طرح باہر ہی نہیں نکل رہی تھی اس لیےاس نے زیادہ غور کرنا مناسب نہ سمجھا اور سیدھا واش روم کی طرف گی۔

وضو کیا اور جان مال بچا کر مغرب کی نماز ادا کرنے بیٹھ گئی۔۔۔

نماز ادا کرنے کے بعد اس نے خدا کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے کہ اللہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

پہلے تو بچپن سے اک خواب پریشان کیے ہوئے ہیں اوپر سے آج ایک عجیب واقعہ پیش آگیا

جس کی کوئی توجیہ اپنے ذہن میں نہیں بنا پا رہی ۔۔

اب تو ہی میری مدد فرما

ابھی دعا میں مشغول تھی کہ اس کے کانوں میں سرگوشیاں سنائی دی

اریبہ اس کی دادی اور امی بہت آہستگی سے آپس میں کسی موضوع پر بات کر رہے تھے۔

اور ساتھ ساتھ ہنسے جارہے تھے۔

سویرا کا دماغ ماؤف ہونے لگا کہ آخر آج یہ کیسا دن نکلا ہے جس میں عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں

یا اللہ خیر۔۔۔۔۔۔

سرگوشیاں اور قہقہوں کی آواز سن کر سویرا نے جاۓنماز سمیٹی اور کمرے میں داخل ہوگی جہاں اریب اور اس کے گھر والے بیٹھے ہوئے تھے۔

سویرا کے کمرے میں داخل ہوتے ہی دادی نے سب کو چپ ہونے کا اشارہ کیا تو وہ سب ایک دم خاموش ہو کر بیٹھ گئے

جیسے کہ وہ کچھ بات ہی نہیں کر رہے تھے

سویرا بولی کیا ہوا آپ مجھے دیکھ کر ایک دم چپ کیوں ہوگئے۔

اریبہ نے جھٹ سے جواب دیا ہم تو پہلے ہی خاموش تھے تمہارے کان بج رہے ہیں کیا؟۔

سویرا بولی نہیں میں نے خود سنا آپ تینوں آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے اور زور سے ہنس بھی رہے تھے

مجھے بتائے آخر بات کیا ہے۔۔۔

دادی نے اپنی پاٹ دار آواز میں سویرا کو ڈانٹ دیا۔

اور بولی یہ بچے کہہ رہی ہے کہ ہم کچھ بھی بات نہیں کر رہے تھے جا دفع ہو جاؤ اپنے کمرے میں۔

سویرا کو بالکل توقع نہیں تھی کہ دادی اسے بلاوجہ ڈانٹ دے گی وہ حیران و پریشان اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔

اس کے جاتے ہی کمرے میں پھر سے ان تینوں کا قہقہہ گونجا۔۔

سویرا پلنگ پر پڑی سوچوں کے گرداب میں ہچکولے کھاتی جا رہی تھی

اس کا دماغ عجیب کشمکش کا شکار تھا۔

اس نے صبح سے لے کر ابھی رات تک ہونے والے سبھی واقعات و حادثات پر غور کیا۔

تو اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا یہ سب سچ میں ہورہا ہے یا وہ محض ایک خواب دیکھ رہی ہے

جیسا کہ وہ بچپن سے اب تک دیکھتی آئی ہے۔

لیکن اس کے پاؤں میں موچ آئی تھی اور وہ مسلسل درد ہو رہا تھا

اس لئے سویرا جانتی تھی کہ یہ خواب ہرگز نہیں ہو سکتا۔

لیکن اس کے دماغ یہ باتیں قبول کرنے کے لئے دلیلیں تلاش نہیں کر پا رہا تھا

روزمرہ سے ہٹ کر اسے اپنی خواب میں کچھ زیادہ تفصیل نظر آنا۔

کالج جاتے ہی کیلے کے چھلکے سے پھسل کر پاؤں میں موچ آ جانا۔۔

سرمد کا اسے گھر کی طرف چھوڑنے آنا۔

راستے میں سرمد کا اس پر دست درازی کرنے کی کوشش۔۔

اور پھر اچانک سے طوفان کی آمد اور سرمد کی چیخیں۔۔۔

اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے گھر والوں کے رویے اور اریبا کی وجہ سے حیران ہو رہی تھی۔

کی آخری تینوں مل کے کیا سوچ رہے تھےاور کیا باتیں کر رہے تھے۔۔۔

پھر اس نے ان سب خیالات کو دماغ سے جھٹکا اور آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے کمبل منہ پر اوڑھ لیا۔۔۔

آنکھ لگتے ہی سویرا اپنے خواب کی اسی دنیا میں چلی گئی

اس نے دیکھا کہ وہ ایک غار میں کھڑی ہے۔

اس کے سامنے اس کے پاپا غار میں آگے کی طرف چلے جارہے ہیں۔

ان کے آگے ایک دروازہ آ جاتا ہے۔

وہ اس دروازے کو چابی سے کھولنے کی کوشش کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ اتنے میںان کے پیچھے سے کوئی آتا ہے جس نے سیاہ رنگ کا لباس پہنا ہوتا ہے

اس میں اس کا سارا وجود ڈھکا ہوتا ہے صرف منہ ہی نظر آرہا ہوتا ہے۔

اس شخص کے ہاتھ میں سنہری رنگ کی انتہائی چمکدار تلوار موجود ہوتی ہے۔۔

جیسے ہی سویرا کے ابودروازہ کھولنے کے لیے جو ہے وہ تلوار کا زوردار وار ان کی قمر پر کردیتا ہے۔۔

اس شخص کے وار کرتے ہی ایک انتہائی دردناک چیخ مار کر سویرا نیند سے جاگ گئی۔

واش روم میں جاکر اسے وہ ہاتھ دھویا اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔

اس کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا ایک جا رہا تھا۔۔

سارا جسم سن چکا تھا اور ہمت نہیں کر پا رہی تھی کہ اٹھ کر باہر جائے

ابھی وہ صدمے سے باہر بھی نہیں نکل پائی تھی کہ اسے کمرے میں سرگوشیاں سنائی دینے لگی۔

گھڑی کی سوئی رات کے ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔

کمرے کی خاموشی میں جہاں گھڑی کی ٹک ٹک بھی صاف سنائی دے رہی تھی

وہاں پے یہ پراسرار سرگوشیاں سویرا جیسی مضبوط اعصاب کی لڑکی کے دل کو بھی ڈگمگا رہی تھی۔

وہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔

کہ ایک دم سے اس کے کمرے کا بلب جل اٹھا۔۔

ایک دم بلب روشن ہونے سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

عباس نے پپوٹوں کو مسل کر اپنی آنکھیں دوبارہ کھولیں تو۔

سامنے کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔

کیونکہ سامنے اس کی امی دادی اریبا۔

اقبال منیر۔اور اس کے کالج کے سارے فیلوز کھڑے تھے

اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو اس کے کمرے کو بہت اچھی طرح ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔۔

دائیں جانب میز پر ایک بہت بڑا کیک رکھا گیا تھا۔

جس پر لکھا ہوا تھا

Happy birthday dear savera

یہ سب دیکھ کر سویرا کی آدھی حیرت دور ہوتی چلی گئی۔۔

تم کو یاد آگیا کہ آج پورے 18 سال کی ہوچکی تھی۔۔

سب نے مل کر سویرا کیلئے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گنگنانا شروع کر دیا۔۔۔

دادی اماں اس کے قریب آئی اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ بیٹا معذرت خواہ ہوں کے میں نے تمہیں ڈانٹا

لیکن اگر ہم تمہیں بتا دیتے تو ہمارا سرپرائز خراب ہوجاتا جو کہ ہم تمہیں تمہاری سالگرہ پر دینا چاہتے تھے۔

تم تو بالکل بھول ہی چکی تھی کہ آج تم 18 سال کی ہونے والی تھی

ہماری دوست اریبہ کو یاد تھا اور ہمیں بھی۔

تو یہ ہم سب نے مل کر یہ پلان بنایا کہ تمہاری سالگرہ پر تمہیں سرپرائز پارٹی دیں گے

یہ بات تمہارے آنے سے پہلے ہی آ پہنچ چکی تھی اور تمہارے سب دوستوں کو بھی انوائٹ کرلیا گیا تھا۔۔

سویرا بولی دادی اماں آپ معافی مت مانگیں۔

کے مجھے تو بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے میرے لئے اتنا سب کچھ کیا۔۔

اتنے میں سویرا کی امی بولیں کہ اب جذباتی ہونا چھوڑو اور جلدی سے کیک کاٹو

اس بات پر سب کی ہنسی نکل گئی۔

خیر سویرا نے تالیوں کی گونج میں کیک کاٹا اور اپنی ماں اور دادی کو کھلایا۔

ترکی ایک سب دوستوں میں تقسیم کیا گیا۔

سویرا کے سب دوست اس کے لئے کچھ نہ کچھ گفت لے کر آئے تھے۔

کے کاٹنے کے بعد سب نے مل کر کھانا کھایا

کھانا کھانے کے بعد سویرا کی ا می نے اسے کہا کہ بیٹا میرے پاس آؤ میں تمہیں کچھ دینا چاہتی ہوں۔

یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

سویرا نے نوٹ کیا کہ اس کی امی کچھ اداس ہو گئی ہے۔۔

وہ ان کے پیچھے پیچھے ان کے کمرے کی طرف گئی۔

وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا ان کی امی ایک پرانی صندوقچی کھول کر بیٹھی ہیں۔

ان کی آنکھوں میں آنسو ستاروں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں۔

سویر اپنی امی کے پاس گئی اور ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے آپ کیوں ہیں۔

تو اس کی امی بولیں گے آج عربوں یہاں ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔۔

یہ کہہ کر انہوں نے خود ہی اپنے آنسو پونچھے اور جلدی سے کہا کہ خیر چھوڑیں ان باتوں کو۔۔

یہ دیکھو میں تو میں یہ دینا چاہتی تھی۔

یہ کہہ کر اس نے ایک چاندی کی چین سویرا کی طرف بڑھا دیں جس میں سنہرے رنگ کا ایک بہت پیارا لاکٹ تھا۔

جو کہ بہت ہی پرانا لگ رہا تھا۔

لیکن اس کی چمک جوں کی توں تھی۔

سویرا کی ماں بولی بیٹا یہ تمہارا خاندانی لاکٹ ہے جو کہ تمہارے خاندان کے ہر فرد کے پاس نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔۔

اس وقت میں ایک تلوار کا نشان بنا ہوا تھا۔۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دو لاکٹ تھے ایک تمہارے ابو کے پاس تھا۔

اور ایک تمہارے ابو نے مجھے سنبھالنے کے لئے لیا تھا کہ میری بیٹی کو اس کی اٹھارہویں سالگرہ پر میری طرف سے دے دینا۔

سویرا نے وہ لوکٹ اپنے ماں کے ہاتھ سے پکڑا اور گلے میں پہن لیا

جلدی سے اپنی امی کو گلے سے لگا لیا۔۔

اتنے میں دادی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

آج اتنا خوشی کا دن ہے اور تم دونوں یو ں تب سے الگ تھلگ اس کمرے میں اداس ہو رہی ہو

چلو آؤ میرے ساتھ تمہارے دوست تمہارا انتظار کر رہے ہیں سویرا۔۔

سویرا نے کہا جی دادی آتی ہوں۔۔

سب دوست سویرا کے ساتھ خوب ہلہ گلہ کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے۔

سب کے جانے کے بعد سویرا اپنی امی کے پاس جاکر بیٹھ گئی اور کہا

امی جان ابو کے ذکر پر مجھے ایک بات یاد آئی ہے۔

میری ساتویں سالگرہ پر ابو نے مجھے ایک کتاب دی تھی اور کہا تھا کہ اسے تم اپنے 18ویں سالگرہ پر پڑھو گی۔

وہ کتاب میں نے آپ کو سنبھال کر رکھنے کے لیے دے دی تھی۔۔

کیونکہ آپ میں اٹھارہ سال کی ہوچکی ہو تو مہربانی کر کے وہ کتاب مجھے دے دیں میں بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آخر اس کتاب میں ایسا کیا راستہ جو ابو چاہتےتھےکہ میں 18 سال کے بعد جانوں۔۔

سویرا کی یہ بات سن کر اس کی امی کے منہ پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا۔

از قلم اویس چوہان۔

جب سویرا نے اپنی امی سے کتاب کا مطالبہ کیا تو وہ پریشان سی ہوگئی۔

سویرا نے پوچھا کیا میں کیا بات ہے کتاب کا نام سنتے ہی آپ کچھ کھو سے گئی ہیں۔

وہ بولی نہیں بیٹا ایسی کوئی بات نہیں دراصل وہ کتاب شاید مجھ سے کہیں کھو گئی تھی۔۔

اس لئے میں یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن فی الحال میرے ذہن میں نہیں آرہا کہ میں نے کہا رکھی ہے۔

اب جو کہ رات بہت زیادہ ہوچکی ہے اس لیے جلدی سو جاؤ ورنہ فجر کے وقت تمہاری آنکھ نہیں کھلے گی۔

یہ کہہ کر وہ سویرا کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی

سویرا نے اللہ کا نام لیا اور ذہن سے سارے فضول خیالات کو جھٹک کر سونے کے لیے لیٹ گئی ۔۔

صبح کال جاکر وہ بھی کلاس روم میں بیٹھی ہوئی تھی کہ تقریبا دوڑی ہوئی آئی اور بولی کہ تمہیں معلوم نہیں ایک عجیب حادثہ رونما ہوا ہے۔۔۔

سویرا جو کہ پہلے ہی اپنے ساتھ ہونے والے حادثات و واقعات سے بے حد پریشان تھی جھنجھلا کر غصے سے بولی

تمہاری یہ تجسس پیدا کرنے کی عادت نہیں جائےگی سیدھے سیدھے بتاؤ ہوا کیا ہے؟

وہ کل جب سرمد تمہیں گھر چھوڑنے گیا توواپسی پر کسی نے اس کا بہت بے دردی سے قتل کر دیا۔۔

یہ خبر سویرا کے دماغ پر بم کی طرح گری۔

بعد میں اریبہ اس کو کافی باتیں بتاتی رہی لیکن وہ تو کھوسی گئی تھی۔۔

وہ کچھ سننے سمجھنے کی حالت میں ہی نہیں رہی تھی اس کا ذہن مفلوج ہوچکا تھا۔

پھر اس کے ذہن میں ایک بجلی سی کوندتی چلی گئی۔۔

اس نے حالات و واقعات کو ترتیب دینا شروع کی تو اسے سمجھایا کہ یہ سب اس کے 18ویں سالگرہ پر ہوا ہے۔

عریبہ نے اس کو جھنجوڑ کر خیالات کی دنیا سے باہر نکالا۔

اور بولی تم سن رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں

آہ ہاں میں

میں سن رہی تھی۔

لگتا تو نہیں کہ تم نے میری ایک بات بھی دھیان سے سنی ہے۔

سرمد کے والد اس شہر کے بدمعاشوں اور عیاش لوگوں میں شمار کیے جاتے ہیں اس لیے وہ اپنے الٹے دماغ کی بدولت تم پر شک ضرور کریں گے۔

کیونکہ آخری بار سرمد کو تمہارے ساتھ دیکھا گیا تھا جب وہ تمہیں تمہارے گھر کی طرف چھوڑنے گیا تھا۔

سویرا نے جواب دیا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے

میں نے تو کچھ نہیں کیا

اس لیے مجھے فکر بھی نہیں کرنی چاہیے

جو لوگ حق پر ہوتے ہیں اللہ تعالی کی ذات بھی ان کا ساتھ دیتی ہے۔

یہ کہتے ہوئے سویرا کلاس روم سے باہر نکل گئی۔

وہ گھبرا تو گئی تھی لیکن غریبوں پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

کیونکہ شام کو جو کچھ ہوا تھا اگر وہ اس کے بارے میں اریبہ کو بتاتی تو عرب قطعی اس کی بات پر یقین نہ کرتی۔۔۔

وہ واقعات تھے بھی نہیں یقین کرنے والے۔

سرمد کا ایک دن من بری با پر دست درازی کی کوشش اور ایک دم سے طوفان کی آمد اور سرمد کی دردناک اور دہشت انگیز چیخوں کی آواز۔

سوچتے سوچتے اسے یاد آیا کہ کہ اس کی اٹھارہویں سالگرہ پر تو اسے خواب میں بھی کچھ زیادہ ہی مناظر دکھائی دیتے ہیں۔۔

اس نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہو نہ ہو اس سب کا میرے والد کی گمشدگی سے ہے۔۔

تب تو میں کچھ نہیں کرسکتی تھی کیونکہ میں چھوٹی تھی لیکن اب تو میں اس قابل ہوں کے میں ان کو ڈھونڈ سکوں۔

ہاں میں ضرور اپنے ابو کو ڈھونڈو گی۔

اپنے ڈگمگاتے ارادے پر پختگی کی مہر لگاتے ہوئے وہ کالج سے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آتے ہی وہاں سیدھی اپنی دادی جان کے کمرے میں گئی اور پوچھا کہ دادی جان۔

آپ کو یاد ہے میری ساتویں سالگرہ پر ابو نے مجھے ایک کتاب تحفے میں دی تھی اور کہا تھا کہ اسے تب پڑھنا جب تم پورے 18سال کی ہو جاؤ گی۔۔

آپ کو معلوم ہے کہ وہ کتاب کہاں ہے؟

دادی بولی ہاں۔۔

تمہاری ماں نے وہ کتاب اپنے کمرے میں ایک پرانی سی صندوقچی میں رکھی ہوئی ہے۔۔

یہ بات بھی سویرا کیلئے حیران کر دینے والی تھی۔

اس کی ماں نے زندگی میں پہلی بار اس سے جھوٹ بولا۔

آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔۔

یہ چیز سویرا کے ارادے کو اور پختہ کرتی چلی گئی

کے ضرور اس کتاب میں ایسا کچھ ہے جس کے بارے میں امی نہیں چاہتی کہ مجھے معلوم ہو۔

اچھا دادی جان اب میں چلتی ہوں۔

دادی جان کے ماتھے کا بوسہ لے کر وہ ان کے کمرے سے باہر نکل گئی اور کچن کی طرف کا رخ کیا جہاں اس کی امی کھانا پکا رہی تھی۔

تصویر ان کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور آرام سے بولی

امی جان آپ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ؟

اس کی امی حیران ہوتے ہوئے بولی کیسا جھوٹ۔۔

یہی کے آپ نے ابو کی کتاب کو کھو دیا ہے۔۔

جب کہ وہ آپ کے پرانے صندوقچے میں ابھی بھی موجود ہے دادی جان نے مجھے بتا دیا ہے۔

نہیں بیٹا تمہاری دادی جان کو شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔

وہ کتاب صندوقچے میں نہیں ہے۔

اس کی امی مصنوعی اطمینان کے ساتھ بولی۔۔

تو چلیں ابھی چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کتاب وہاں موجود ہے یا نہیں

تورا اپنی امی کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی

رک جاؤ سویرا میرا میں نے کہا نہ وہ کتاب وہاں پر موجود نہیں ہے تو پھر کیوں تم بار بار ضد کر رہی ہو

کیا امئ غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

سویرا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے

آپ نہیں جانتیں امی میرے ساتھ کیسے پراسرار اور عجیب و غریب واقعات پیش آ رہے ہیں۔۔

اور مجھے لگتا ہے کہ ان سب کا تعلق مجھ سے اور میرے ابو سے ہے۔۔

پھر آپ نے مجھے اس کتاب کے بارے میں نہیں بتایا تو شاید میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھوں۔۔

یہ کہتے ہوئے سویرا نے زاروقطار رونا شروع کردیا۔۔

چپ ہو جاؤ سویرا پاگل تو نہیں ہو گئی ہو۔

بچوں کی طرح روئے جا رہی ہو۔

سویرا نے پھر اپنی ماں کو فروٹ کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

بیٹا ہوسکتا ہے یہ تمہارا وہم ہو۔

اس کی امی سوچتے ہوئے بولی۔

امی یہ میرا وہم نہیں ہے یہ آپ بھی جانتی ہے اور آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ مجھ سے کافی کچھ چھپا رہی ہیں

آپ کو ابو کی قسم مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دیں اور وہ کتاب بھی مجھے دے دیں۔۔

سویرا نے اپنی ماں کو مجبور کر ہی دیا۔۔

سویرا بیٹا اب تم نے مجھے اپنے باپ کی قسم دے دی ہے جو کہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھے۔

مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ تمہارے والد کسی بہت پرانے خزانے کے محافظوں کے خاندان میں سے ہیں۔۔

اس خزانے پر ایک جادوگر کی بددعا بھی ہے

اور تمہارے ابو کی گمشدگی کا تعلق بھی اسی خزانے سے ہے۔۔

تم سے یہ سب کچھ اس لئے چھپاتی رہی کہ میں تمہارے ابو کو تو کھو ہی چکی تھی لیکن تمہیں اپنے آپ سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

لیکن کہتے ہیں نہ تقدیر کے لکھے کو اور وقت کے کھیل کو کوئی بدل نہیں سکتا۔

اس لئے آج مجھے تمہیں یہ سب کچھ بتا نا پڑ رہا ہے۔۔

چلو آؤ میرے ساتھ میرے کمرے میں۔۔۔

سویرا اور اس کی امی کمرے میں گئں

اس کی امی نے صندوقچی کھولی اور اس میں سے پرانی سی جلد والی ایک کتاب نکال کر اسے جھاڑنے لگی کیونکہ وہ کافی گردآلود تھی۔۔

جھاڑ کر انہوں نے یہ کتاب تصویر کے ہاتھ میں تھما دیں۔

اور بولی لو بیٹا یہ وہ تمہاری امانت جو تمہارے والد نے صرف اور صرف تمہارے لیے چھوڑی تھی۔۔

سویرا نے اپنی والدہ کے ہاتھ سے وہ کتاب لے لیں اور اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔۔

جبکہ اس کی امی اپنے بہتے ہوئے آنسو پونچھ کے واپس کچن کی طرف مڑ گئیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سویرا کافی دیر تک اس کتاب تھے دے سرے ادھر ادھر کرتی رہی لیکن اسے کہیں پر بھی کوئی ایسا نشان نظر نہ آیا جہاں سے وہ کتاب کھولی جا سکے۔۔

پھر اس نے سوچا کے پہلے زمانے میں اس طرح کی کتابوں کو تالے لگائے جاتے تھے

ضرور اس کتاب کی بھی کوئی چابی ہوگی۔

جب اس نے کتاب کو سیدھی کرکے اس کے سامنے والے حصے کو دیکھا تو اس پر تلوار کا ایک چھوٹا سا نشان بنا ہوا تھا۔۔

وہ سوچ میں پڑ گئی کہ یہ نشان تو مجھے دیکھا دیکھا لگتا ہے۔

لیکن اسے کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا پریشانی کے عالم میں اسے خدا کی یاد آئی اور وہ دل میں خدا سے دعا مانگنے لگی کی یااللہ میری مدد فرما تو دلوں کے حال جاننے والا ہے تجھ سے تو کچھ بھی نہیں چھپا ہوا۔۔

اتنے میں اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا اور اس کے گلے میں پڑے ہوئے لوکٹ کے اوپر گرا۔

آ نسو کا گرنا تھا کہ لوکٹ ایسے چمکنے لگا جیسے سورج کو زمین پر اتار لیا گیا ہو۔۔

سویرا کی آنکھیں چوندھیا گئیں اور جب اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کی نظر اپنے لاکٹ پر پڑی۔۔

لوکٹ پر نظر پڑتےہی خوشی کی ایک لہر اس کے رگ دبے میں سرایت کر گئی۔۔

کیونکہ وہ اسےاپنے لوکٹ پر وہی تلوار کا نشان نظر آ گیا جو کہ اس کتاب پر بنا ہوا تھا ۔

سویرا نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہی اس کتاب کی چابی ہے

اس نے جیسے ہی گلے سے لوکٹ کتاب پر لگانے کے لئے اتارا۔مانو جیسے کمرے میں طوفان برپا ہو گیا۔

آندھیوں کا شور اور عجیب و غریب چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں۔

کمرے میں رکھے ہوئے سب کانچ کے برتن چھن چھن کر کے ٹوٹنے شروع ہوگئے

تورا اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی لیکن چلتے ہیں اس نے لوکٹ کو کتاب کے چاند پر رکھا سارا ماحول پشتون ہوگیا اور ایسے ہوگیا جیسے یہاں پے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔

لوکٹ کا کتاب پر رکھنا تھا کی کتاب کی جلد کڑکڑاہٹ کی آواز کے ساتھ کھلتی چلی گئی۔

سویرا نے جلد کو کھولا اور اس میں سے کتاب کا پہلا صفحہ کھول کر اسے پڑھنا شروع کر دیا

سویرا بیٹی کیسی ہو؟

آج تو تم پورے 18 سال کی ہوچکی ہوگی۔

بھائی یہ کتاب صرف اور صرف تمہیں اپنے خاندان کے بارے میں تفصیل سے بتانے۔ اور تمہیں اپنے فرض سے آگاہ کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔

یاد رہے اس کا ہر ایک لفظ حقیقت پر مبنی ہے

اور یہ سب معلومات ہمارے خاندان کی وراثت ہے جو کہ نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے لیکن اس بار پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمارے خاندان میں ایک لڑکی اس سب کی وارث قرار پائی ہے۔

اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ تم میری سب امیدوں پر پورا اتروں کی اور اپنے فرض کو احسن طریقے سے انجام دوں گی ۔۔۔۔

سویرا سمجھ گئی کہ یہ کسی اور نے نہیں بلکہ اس کے اپنے والد نے لکھا ہے۔

سویرا نے کتاب کا صفحہ پلٹا اور دوسرے صفحہ پر پہنچی۔

وہاں سب سے پہلی سطر پہ لکھا تھا کہ سویرا بیٹا۔

اس صفحے پر تم اپنا ہاتھ رکھو۔

نیچے باقی صفحے پر ایک ہاتھ کی تصویر سی بنی ہوئی تھی۔

سویرا نے اس جگہ اپنا دایاں ہاتھ رکھا تو اس کے جسم کو جھٹکے سے لگنے شروع ہوگئے اور آنکھیں بند ہو گئی جیسے ہی اس نے آنکھیں کھولی تو وہ حیران و پریشان رہ گئی کیونکہ وہ اپنے گھر میں اپنے کمرے میں موجود نہیں تھی اس نے جب اپنے اردگرد دیکھا تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہزاروں سال پہلے کی دنیا میں چلی گئی۔

اس کے کانوں میں آواز آئی کے بیٹا پریشان نہ ہوں

میں نے یہ کتاب صرف اور صرف تمہارے لیے انتہائی محنت کرکے اپنے سارے علوم استعمال کرکے بنائی تھی۔

تاکہ جو کچھ بھی میں تمہیں بتاؤں وہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں اور تمہیں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔

تم اس وقت تین ہزار سال پہلے کی دنیا میں کھڑی ہو۔۔

تمہارا جس میں وہی تمہارے کمرے میں موجود ہے لیکن تم باطنی طور پر اس جگہ کی سیر کر رہی ہو

تم اس وقت میں ہوں جب ہدایت کا سورج عرب میں طلوع نہیں ہوا تھا۔

مطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے کا زمانہ تھا۔

عرب میں تو جہالت تھی ہی لیکن ہندوستان میں بہت زیادہ جہالت توہم پرستی اور بے حیائی عام پائی جاتی تھی۔

جادو ٹونا اور سفلی علوم اس دور میں عروج پر تھا۔۔۔

تم اس وقت ہندوستان کے اسی علاقے میں کھڑی ہو جہاں اب کے پاکستان موجود ہے۔

سویرا نے غور کیا تو اس کے چاروں طرف گھنے درخت تھے اور کہیں کہیں پرانے زمانے کے چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانات بنے ہوئے تھے۔

مطلب جنگلات بہت وسیع رقبے میں ادھر موجود تھے۔

اسے اپنے باپ کی آواز سنائی دی کہ بیٹا اپنے دائیں جانب دیکھو تمہارے جد امجد اور ان کے ساتھی جا رہے ہیں۔۔

اس نے دائیں جانب مڑ کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا قافلہ تھا چار لوگ تھے جو کہ خچر پر سوار تھے اور ان میں سے ایک شخص باقی تینوں کے آگے چل رہا تھا۔

پیچھے سے ایک شخص نے کہا کہ اسلم کیا یہ لوگ ہماری دعوت کو قبول کریں گے۔۔

وہ لوگ خالص عربی زبان میں بات کر رہے تھے لیکن سویرا ان کی زبان کو اچھے طریقے سے سمجھ پا رہی تھی۔۔

ہاں کیوں نہیں حق کبھی بھی باطل کے سامنے جھکا نہیں ہے اور نہ ہی کبھی چھپا ہے۔

جس کے دل میں بھی سچائی کی روشنی اور ایمان کا جذبہ ہوگا وہ ہماری دعوت ضرور قبول کریں گے۔

اگر انہوں نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا یہ ہمیں جان سے مار دینے کا حکم دیا تو کیا کریں گے۔۔

اسلم غصے سے بولاکیا تم پسند نہیں کروگے کہ دین حق کی تبلیغ میں تمہیں موت آجائے اور تمہیں دائمی زندگی میں جنت نصیب ہو؟

میں نے تم میں سے کسی پر کوئی زبردستی نہیں کی اگر تم میں سے ابھی بھی کوئی پیچھے ہٹنا چاہتا ہے تو بخوشی یہاں سے واپس جا سکتا ہے۔۔

نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں وہ تینوں ایک زبان ہو کر بولے۔

پھر وہ خاموشی سے آگے کی طرف سفر کرنے لگے سویرا بھی ان کے پیچھے پیچھے چلے جارہی تھی اور وہ حیران تھی کہ وہ ان کی رفتار کے بالکل متوازن رفتار میں چل رہی تھی۔۔

سویرا بیٹا تمہارے جد امجد اور ان کے دوست ہندوستان کے بادشاہ وقت کو دین حق یعنی اس علیہ السلام کے دین کی تبلیغ کرنے جارہے ہیں۔

عیسیٰ علیہ السلام چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیغمبر گزرے ہیں اس لئےآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کہ لوگ جو توحید کے قائل تھے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار تھے تھے

تھوڑی دیر بعد وہ ایک نسبتا زیادہ گھنے جنگلات والے علاقے میں پہنچ گئے۔

شام کا وقت ہونے کو تھا

پورے جنگلات میں سنسان اور دہشت بڑی خاموشی کا راج تھا جیسے یہاں پر کسی جانور کا نام و نشان نہ ہو۔۔

اچانک ان چاروں کو ایک دم سے رکنا پڑا۔

کیونکہ ان کے سامنے لمبی سی چوٹی والی اور بھیانک چہرے والی ایک ڈائن کھڑی تھی۔۔

ان کو دیکھ کر اس نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا اور بولی کہ بہت عرصے سے اس علاقے میں کسی انسان کا گزر نہیں ہوا سب جانتے ہیں کہ اس جنگل میں کالی ڈائن کا راج ہے۔

یہاں آنے سے تو بڑے سے بڑا جادوگر بھی کتراتا ہے۔

تم چاروں نے یہ ہمت کیسے کی کہ تم رات کے وقت میرے علاقے میں داخل ہو گئے ہو۔۔

میری آدم خوری کے قصے تو پورے ہندوستان میں مشہور ہیں۔۔

لگتا ہے تم کسی اور علاقے سے یہاں پے آئے ہو۔

خیر اب آ ہی گئے ہو تو واپس نہیں جاؤ گے میرے ایک ھفتے کی خوراک کا انتظام تو ہوگیا۔

یہ کہہ کر ڈائن پھر سے قہقہے لگانا شروع ہوگئی ۔۔

سویرا خاموشی سے یہ سب منظر دیکھ رہی تھی

چونکہ ڈائل ان چاروں کو دیکھ پا رہی تھی سویرا اس کی نظروں سے اوجھل تھی

پیچھے والے تینوں آدمیوں کا تو اسے دیکھ کر پسینہ چھوٹنے شروع ہوگیا

لیکن اسلم ویسے ہی سنجیدہ اور باوقار حالت میں کھڑے تھے

جیسے ان کو کچھ ڈر خوف ہی نہ ہو۔

وہ ڈائن آہستہ آہستہ ان کے قریب آتی جا رہی تھی۔۔

جیسے ہی ڈائن نے ان کے قریب آ کر اسلم کے جسم کو چھوا اسے بجلی کا ایک جھٹکا سا لگا۔

اور وہ پلٹ کر پیچھے ہٹ گئی۔۔

اسلم نے جلدی سے آگے بڑھ کر مقدس کلمات پڑھ کر ڈائن کے وہ پھونک دیے

السلام کے پھوک مارنے کی دیر تھی کہ ڈائن کے پورے وجود کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔

ڈائن کی چیخوں سے پورا جنگل گونج اٹھا

سویرا کے توکا ن بھٹے جا رہے تھے۔۔

اتنے میں اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی کہ سویرا بیٹا اٹھ جاؤ فجر کا وقت ہوچکا ہے چلو شاباش جلدی سے وضو کرکے نماز پڑھ لو۔۔

سویرا ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ گئی اور اس نے دیکھا کہ وہ اپنے بستر پر پڑی ہے اور کتاب اس کے ہاتھ میں موجود ہے۔۔۔

سویرا بیٹا آج کے لیے اتنا کافی ہے باقی کی کہانی تم کل دیکھ لینا۔۔

اس آواز کو سننے کے بعد سویرا مطمئن ہوگئی اور وضو کرنے کے لیے واش روم کی طرف بڑھی

کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ وہ آواز اس کے اپنے والد کی تھی۔

نماز پڑھنے کے بعد سویرا کالج کے لیے تیار ہونے لگی تو دروازے پر دستک ہوئی

سویرا کی امی بولیں کہ جاؤ بیٹا دیکھو دروازے پر کون ہے۔

اس نے جلدی سے جا کر دروازہ کھولا

اور سامنے پولیس کو کھڑا دیکھ کر تھوڑا سہم گئی

میں کی آواز آئی کہ بیٹا کون ہے باہر۔۔

وہ بولی امی باہر پولیس کھڑی ہے۔۔

امی جلدی جلدی دروازے پر آئیں

اور بولیں خیریت؟

پولیس کے انچارج سامنے آ کر بولے

خالہ جی اندر آنے کو نہیں کہیں گی۔

امی بولیں کیوں نہیں آجائے۔

یہ کہتے ہوئے انہوں نے دروازے سائیڈ پر ہوتے ہوئے انہیں راستہ دے دیا۔

یہ پہلی بار تھا کہ ان کے گھر میں پولیس داخل ہوئی تھی

پولیس نے سویرا سے کچھ ضروری سوالات کیے جس کے اس نے کافی معقول جوابات دے دیے۔

سویرا کی دادی امی پریشان تھے ہوگی کہ آخر پولیس یہاں پر کیوں آئی ہے

لیکن سویرا کی امی نے انہیں مطمئن کردیا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔۔

سویرا کی کالج کے ایک لڑکے کا قتل ہو گیا تھا تھا۔۔

اس اسی حوالے سے کچھ پوچھ کیچ کرنے آئے تھے۔۔

خیر سویرا ان سب معاملات کو نپٹا کر بغیر ناشتہ کئے کالج کی طرف روانہ ہوگئی۔۔

کالج میں سارا دن معمول کے مطابق ہی تھا اس نے اریبہ کو پولیس کے بارے میں سب کچھ بتایا تو اریبہ تو حواس باختہ ہی ہوگئی

سویرا نے اسے تسلی دی کہ تم پریشان کیوں ہو رہی ہو میں نے کل ہی تمہیں کہا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اگر میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو میں کسی سے نھیں ڈرتی۔۔

اریبہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی کے تم نہیں جانتیں سویرا یہ پولیس والوں کے چکر میں ہر کسی کو خواری اٹھانی پڑتی ہے چاہے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔۔

خیر چلو چھوڑو اس بات کو ہم آج لائبریری جاکے کوئی اچھی سی کہانی پڑھتے ہیں۔

اسی طرح باتیں کرتی ہوئی وہ لائبریری میں داخل ہوگئیں

لائبریری میں انہوں نے دیکھا کہ اقبال اور منیر پہلے ہی وہاں بیٹھے ہوئے تھے

دونوں کے آتے ہیں وہ جسے ان کے پاس آئے اور اونچی سی آواز میں کہنے لگے کہ یہ دیکھو ہمیں ایک بہت ہی اچھی کہانی ملی ہے۔

ویرانے دھیرے سے ان دونوں کو ڈانٹا کہ تم دونوں لائبریری میں ہو اتنا چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

اقبال کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب تھی۔

جس پر لکھا ہوا تھا جادوگر کا خزانہ۔۔

اریبا جھٹ سے اقبال کے ہاتھ سے کتاب چھینتے ہوئے بولی کہ کتاب کا ٹائٹل تو بہت اچھا ہے لگتا ہے پڑھنے میں بہت مزہ آئے گا۔۔

ہمارے اگلے دو لیکچر آف ہیں تو کیوں نہ ہم اس کتاب کو کلاس روم میں لے جائے اور آرام سے مل کر پڑھیں۔

سویرا نے ان کو مشورہ دیا تو وہ سب متفق ہوگئے اور لائبریرین سے پوچھ کر کتاب کو کلاس روم میں لے گئے

کلاس روم میں معمول سے زیادہ رشتہ اس لئے ان تینوں نے فیصلہ کیا کے کیوں نہ کالج کے پارک میں بیٹھ کر کے کہانی پڑھی جائے۔

وہ چاروں کالج کے پارک میں جا کر بیٹھ گئے۔

اریبا نے وہ کتاب کھولی تو اس پر رائٹر کا نام تک نہیں لکھا ہوا تھا۔

خیر وہ پڑھنا شروع ہوگئی

کتاب میں لکھا تھا کہ۔۔۔۔

ایک کہانی آج سے ہزاروں سال پرانی ہے۔

جب ہندوستان میں اسلام کا نور نہیں پھیلا تھا۔

اس زمانے میں وہاں ایک کافی عادل اور سمجھدار راج حکومت کرتا تھا۔

راجہ کے پاس ایک بہت بڑا اور قیمتی خزانہ تھا جو کہ پوری دنیا کے بڑے بڑے خزانوں سے بھی بڑا تھا۔

بادشاہ چوکے کافی عقلمند اور سمجھدار تھا اس لیےاس نے اپنے کسی وزیر مشیر یا جاننے والے کو اس خزانے کے بارے میں کبھی نہیں بتایا۔

بادشاہ کا ایک وزیر تھا۔

جس کا نام شاکال تھا وہ کہنے کو تو بادشاہ کا بہت وفادار تھا۔

لیکن اندر سے وہ اس خزانے کی لالچ میں تھا

وزیر کالے جادو اور سفلی علوم کا ماہر تھا اور شیطان کا بہت بڑا پوجاری تھا۔

اس نے اپنے جادو کے زور سے معلوم کر لیا تھا کہ بادشاہ کے پاس ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔

جس کی کسی کو بھی بھنک نہیں ہے

وہ کسی بھی حالت میں اس خزانے کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔

لیکن آپ نے انتہائی طاقتور جادوئی طاقتوں کے باوجود وہ خزانے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا سکا

تو حیران تھا کہ ایسی کونسی طاقت ھے جو اسے خزانے تک پہنچنے سے روکتی ہے۔۔

لیکن وہ جادوگر بھی کافی چلاک تھا وہ ہر وقت بادشاہ کے قریب رہنے کی کوشش کرتا تھا کہ کسی طرح سے بادشاہ سے خزانے کا پورا راز جان سکیں۔

ایک دن اسی طرح دربار سجا ہوا تھا کہ بادشاہ کے دربار نے بادشاہ کے قریب آکر کہا کہ آپ کا دوست اسلم آپ سے ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔

کتاب میں اسلم کا نام سن کر سویرا چونک گئی لیکن اس نے اپنے دوستوں پر اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔

بادشاہ نے دربان کو کہا کہ انہیں عزت کے ساتھ لے جاکر مہمان خانے میں بٹھا دیا جائے۔

پھر بادشاہ معمول کے درباری کاموں میں مصروف ہوگیا سب کاموں سے فراغت پا لینے کے بعد بادشاہ مہمان خانے کی طرف چلا گیا

وزیر بادشاہ کا پیچھا کرتے ہوئے مہمان خانے کے دروازے کے قریب ہوکر کھڑا ہوگیا اور چپکے سے بادشاہ کی باتیں سننے لگا

بادشاہ خاموش تھے اسے بادشاہ کے مہمان اسلم کی آواز سنائی دی کہ آج کاہن اعظم اپنی ساری طاقتوں کو استعمال کرکے آپ کے خزانے کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیں گے اور ہمیں اور ہماری نسل کو آپ کے خوانوں کا نگہبان مقرر کر دیں گے۔

اس کے بعد کوئی بھی شرپسند یا لالچ کا مارا اس خزانے کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا

ہمیں کل ہی خزانے کی طرف نکلنا ہوگا

اگلے دن بادشاہ نے اپنے وزیر کو سفر کی تیاری کا حکم دیا اور کہا کہ میرے لیے سفر کا انتظام کیا جائے اور میں اپنے ساتھ کسی کو بھی لے کر نہیں جاؤں گا۔

وزیر چونکہ ساری باتیں سن چکا تھا اس لئے بولا کہ حضور میں تو آپ کا وفادار ہو تو ایسا کون سا سفر ہے جو آپ میرے بنا اکیلے کرنا چاہ رہے ہیں

بادشاہ بولا ایسی کوئی بات نہیں ہے

بس میرا دل آج اکیلے گھومنے کا کر رہا ہے

شام تک واپس آ جاؤں گا

وزیر نے بادشاہ کے لیے تازہ دم گھوڑا اور دیگر لوازمات کا انتظام کیا

چنانچہ بادشاہ اور اسلم ایک ہی گھوڑے پر سوار خزانے کی طرف روانہ ہوگئے۔

خزانے کے پاس والی گار پر پہنچ کر انہوں نے گھوڑے کو روک لیا

بادشاہ کو یہ خبر نہیں تھی کہ اس کا وزیر جادوگر شاکال اس کا پیچھا کر رہا ہے۔۔

اس نے وہاں پہنچ کر بادشاہ پر حملہ کردیا

اسلم بادشاہ کے خزانے کا محافظ مقرر ہونے والا تھا

اس لیے بادشاہ کی حفاظت اس نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے بھی کی

اسلم کے پاس ایک تلوار تھی جو کے اس کے بزرگوں نے تحفہ میں دی تھی

اسلم نے اس تلوار سے جادوگر کا سر قلم کردیا

اس کے بعد کاہن اعظم نے اپنی تمام تر پراسرار طاقتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے اس خزانے کو مکمل طرح سے محفوظ کر دیا اوراسلم اور اس کے آنے والی نسلوں کو اس خزانے کا محافظ مقرر کر دیا۔۔

اس کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ اس بادشاہ کی حکومت زوال پذیر ہوگئی اور اس کی تاریخ ہی صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی

کسی کو پتہ نہیں کہ بادشاہ اور اس کے خزانے کے خزانے کے محافظ کہاں چلے گئے۔۔

سلطنتیں حکومتیں اور زمین کے خدوخال بھی بدلتے چلے۔

واقعے کے ہزاروں سال بعد آج سے تقریبا 80 سال پہلے اسی علاقے میں جہاں کے اب پہاڑ اور جنگل تھا ۔۔ایک بدروح نے پورے علاقے میں دہشت سی مچا دی

جو کوئی بھی جنگل میں سیروسیاحت کی نیت سے جاتا اور جنگل میں زیادہ گہرائی میں چلا جاتا وہ کبھی زندہ واپس نہ لوٹتا۔

جو لوگ جادوگر کی اس کہانی کو جانتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ جادوگر کیروح واپس لوٹ آئی ہے جو کہ خزانے کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے

اس لیے وہ اس جنگل میں بھٹک رہی ہے جو کوئی بھی اس جنگل میں اس روح کے علاقے میں جاتا ہے وہ بدروح اس خزانے کے راز کو ہمیشہ راز رکھنے کے لیے اسے مار دیتی ہے۔۔۔۔۔

کیسی عجیب وغریب کہانی ہے نا۔

کتاب ختم ہوتے ہیں اریبا نے اپنی رائے دی

سویرا جو کہ کہانی میں بالکل کھو سی گئی تھی اچانک چونک کر بولی بالکل بہت عجیب ہے۔

عجیب تو نہیں بلکہ ایڈونچر سے بھرپور ہے۔

کاش کہ ہمیں اس خزانے کا نقشہ مل جائے اور ہم اسے حاصل کرلیں

اقبال اور منیر ایک زبان ہو کر بولے۔۔

چپ کرو تم بڑے ہرکولیس کی اولاد۔

سویرا غصے سے بولی۔

چلو اب شام ہو چلی ہے اور لیکچر کا ٹائم بھی ہونے والا ہے تو کلاس روم میں چلتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالج سے واپس آکر ویرانے نماز مغرب ادا کی اور اپنی امی کے ساتھ کچن میں ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔

اس کے ذہن میں مسلسل یہ بات چل رہی تھی کہ ایک نام مشترک ہے اور بات بھی ہزاروں سال پہلی ہے۔

ہوسکتا ہے یہ دونوں کہانیاں ایک ہی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں

خیر یہ بات تو مجھے ابو کی کتاب کو پورا پڑھ کر ہی پتا چلے گی۔۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد نماز عشاء ادا کی اور اپنے کمرے میں چلی گئی

کمرے میں جاتے ہی اس نے اپنے والد کی کتاب پکڑی اپنے لاکٹ کے ذریعے اس کا کھولا اور ہاتھ اس کتاب پر رکھ دیا ایک جھٹکے کے ساتھ وہ دوبارہ اسی دنیا میں پہنچ گئی۔۔

وہاں پہنچتے ہی اس نے اپنے ابو سے سوال کیا کہ کیا اس واقعے میں کسی جادوگر کا بھی ہاتھ ہے

لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا۔

کیونکہ اس کے ابو اس وقت وہاں حاضر نہیں تھے بلکہ وہ سب واقعات اور اس کے باپ کی آواز ایک فلم کی طرح اس کے لئے محفوظ کی گئی تھی جسے صرف وہ دیکھ سکتی تھی

کچھ پوچھ نہیں سکتی تھی اور نہ ہی کسی واقعے کو بدل سکتی تھی۔۔

اس نے دیکھا کہ اسلم اور اس کے تین ساتھ جنگل کو تقریبا پارکر کے نسبتاً زیادہ گنجان آباد علاقے میں داخل ہونے والے تھے

آسمان پر صبح کی سفیدی نمودار ہو رہی تھی۔

سورج کی پہلی کرن پھوٹتے اسلم اور اس کے ساتھی ایک گاؤں میں داخل ہوچکے تھے۔۔

گاؤں کے کچھ لوگوں نے گاؤں کے سرپنچ کو خبر دی کہ چار اجنبی جنگل کے راستے سے گاؤں میں داخل ہوئے ہیں

گاؤں کا سردار ان چاروں سے ملنے کے لیے آیا اور ان سے پوچھا کہ یہ جنگل توایک ڈائن کے قبضے میں ہے تم اس کے چنگل سے کیسے زندہ بچ کر آگئے۔۔

جواب میں اسلم نے کہا کہ میں نے اس ڈائن کا فتنہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا ہے

اب جنگل اور اس کے اردگرد کا سارا علاقہ ڈائن کے شر سے محفوظ ہے۔۔۔

گاؤں کا سردار اور باقی لوگ بہت حیران ہوئے کہ جو کام بڑے بڑے تانتریک اور جادوگر نہ کرسکےوہ ان چار مولوی سے دیکھنے والے دبلے پتلے نوجوانوں نے کیسے کر دیا۔۔

سب گاؤں والے پنچایت میں اکٹھا ہو گئے

اسلم اور اس کے ساتھیوں کی کافی آؤ بھگت کی گئی

کیونکہ گاؤں والے ڈائن کے حملوں سے اور اس کی دہشت سے بہت پریشان رہتے تھے ہرایک دن وہ کسی نہ کسی کو اپنا شکار بنا لیتی اور صبح وہ خون سے خالی ہوئی اس کی لاش جنگل کے کنارے برآمد ہوتی

گاؤں کے سردار میں اسلم سے پوچھا کہ تم نے کس طرح اس ڈائن کو اس کے انجام تک پہنچادیا

وہ تو لوگوں کی عمر چورا کر کھا جاتی تھی اور ان کا خون چوس کر جنگل کے کنارے پر پھینک دیتی تھی

اسلم نے جواب دیا کہ میں نے مقدس کلمات اور اپنے خدا کی طاقت کی مدد سے اس ڈائن کو ختم کیا ہے۔

پھر اسلم نے ان کو دین حق کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور وحدانیت کا تصور ان کو سمجھایا اور خدا کی طاقت اور عظیم الشان سلطنت کے بارے میں آگاہ کیا

بت پرستی شرک اور جھوٹے خداؤں کو ماننے سے منع کیا۔

سویرا جو پاس ہی کھڑی یہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ اسلم کے کردار سے بہت متاثر ہو رہی تھی۔

اسلم کی تبلیغ کا گاؤں پر خاطر خواہ اثر ہوا گاؤں کے سردار سمیت آدھے سے زیادہ گاؤں کلمہ پڑھ کر دین حق میں داخل ہوگیا۔۔

باقی لوگ چونکہ عرصہ دراز سے جہالتاور بت پرستی میں جی رہے تھے اس لیے وہ اپنے باپ دادا کی رسومات کے خلاف نہیں جاسکتے تھے اس لئے وہ اس دعوت کی چاشنی سے محروم رہ گئے۔۔

گاؤں کے کچھ شرپسند عناصر ایک طرف ہو کر گڈجوڑ کرنے لگے

سویرا ان کے پاس جا کر ان کی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگی۔۔

ارے بلرام اتنے شکتی مان یوک ﴿نوجوان ﴾کا مقابلہ ہم نہیں کر پائیں گے

تم خود سوچو اس نے اتنی شکتی شالی ڈائن کو اکیلے مار گرایا ہے

تو پھر کیا کریں ہم دینو

ہم اسے اپنا دھرم تو نہیں خراب کرنے دے سکتے۔

ہمارا دھرم سنکٹ میں ہے

ضرور کچھ نہ کچھ اوپائے کرنا پڑے گا۔۔

میرے من میں ایک وچار آیا ہے

کیوں نہ ہم راجہ صاحب کے پاس جائیں اور انہیں اپنی رام کہانی بیان کریں۔

پر راجہ کے دربار میں کون جائے گا۔

بلرام بولا میں جاؤ گانا راجہ کے دربار میں

اس پر سب نے اتفاق رائے کرلیا۔۔

گاؤں کے سردار نے اسلام اور اس کے ساتھیوں کو اپنے گھر میں رکھا اور ان سے طہارت عبادت اور دیگر ضروری معلومات حاصل کرنے لگا

کچھ ہی دنوں میں اسلام قبول کرنے والے سب گاؤں والے دین حق کے بارے میں سب ضروری معلومات حاصل کر چکے تھے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف بلرام مہاراجہ اندر پرتاب کے دربار میں حاضری کے لیے پہنچ چکا تھا۔۔

سویرا بھی بلرام کے پیچھے پیچھے تھی کیونکہ وہ سب حالات و واقعات کو اچھے طریقے سے جاننا چاہتی تھی۔

بلرام جا کر راجہ کے دربار میں بیٹھ گیا

کچھ دیر بعد جب اس کی سنوائی کی باری آئی تو اس نے کہا کہ میں راجہ صاحب سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔

درباری کافی برہم ہوئے ایک معمولی سا گاؤں والا ایک ریاست کے راجہ سے کس طرح تنہائی میں بات کر سکتا ہے

اور اس کی ایسی گستاخی کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔

لیکن بادشاہ وقت بہت نیک دل اور تحمل گزار انسان تھا اس نے اپنے وزیر کو کہا کہ شاکال جاؤ اور اسے کہو کہ ہمارے مہمان خانے میں بیٹھے ہم دربار سے فراغت پاکر اس کی رام کہانی سنیں گے۔

شا کال شا کال شا کال

سویرا کے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنا شروع ہوگئیں

ارے یہ نام تو میں نے اس کہانی میں سنا تھا

اور ہاں اس کہانی میں اصل نام کے کردار کا بھی تو ذکر تھا۔۔

اس کا مطلب ہے کہ وہ جادوگر کے خزانے کی کہانی بالکل حقیقت پر مبنی تھی۔

لیکن حیرت کی بات ہے اتنے ہزاروں سال پہلے کی کہانی اور موجودہ دور کے واقعات کو ایک کڑی میں ملانے والا شخص آخر ہو کون سکتا ہے۔۔۔

سویرا کو خیالات کی دنیا سے باہر آنا پڑا کیونکہ بادشاہ مہمان خانے کی طرف جا رہا تھا

وہ جلدی سے اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں تاکہ دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن لے

راجہ جیسے ہی مہمان خانے میں داخل ہوا بگرام اس کے پاؤں میں گر پڑا اور کہا حضور ہم غریب لوگوں کو آپ نے اتنی عزت بخشی میں آپ کا احسان مند ہوں ورنہ کہاں راجہ اور کہا ہم جیسے لوگ۔

کوئی بات نہیں بلرام اوپر والے کی نظر میں سب انسان ایک جیسے ہوتے ہیں۔۔

میں آپ کو ایک بہت ہی اہم خبر سنانے آیا ہوں راجہ صاحب جو کہ میں آپ کے دربار میں ہرگز نہیں بتا سکتاتھا

ایسی کونسی گھمبیر بات ہے جو تم ہمیں تنہائی میں بتانا چاہ رہے تھے

جلدی بتا دو میرے تجسس بھی بڑھتا جا رہا ہے

بلرام گویا ہوا کہ حضور چار اجنبی جنگل کے علاقے سے گاؤں میں داخل ہوئے ہیں جیسے علاقے سے ڈائن کا قبضہ تھا

ڈائن کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہوگا ہی؟

ہاں مجھے معلوم ہے اس ڈائن کے ظلم و ستم اور دہشت کے قصے تو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے ہمارے کانوں میں پڑ رہے ہیں۔۔

حضور اجنبیوں نے اس ڈاین کو مار دیا ہے۔۔

کیا ! ایسا بالکل نہیں ہو سکتا۔

ناممکن سی بات کہہ رہے ہو بلرام۔۔

حضور ہم سب نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا تھا لیکن اس کی نشاندہی پر ہم جنگل کے اس علاقے میں گئے جہاں پر اس ڈاین کی جلی ہوئی لاش اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہے ہیں۔

لیکن حیرانی کی بات یہ نہیں ہے میں تو آپ کو کچھ اور ہی بات بتانے آپ کی راج دربار میں آیا ہوں

وہ اجنبی ہمارے دھرم کو ماننے والے نہیں ہیں

وہ کسی ان دیکھی ایک خدا کو مانتے ہیں اور صرف اسی کی پوجا کرتے ہیں

لوگوں کو بھلائی اور صحیح راستے کے بارے میں گیان دیتے ہیں۔

ہمارے دھرم پر مشکل آ پڑی ہے

اس لیے میں آپ کے دربار میں آیا ہوں تاکہ آپ اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال سکے

راجہ نے بلرام کی ساری باتیں غور سے سنیں

ان باتوں نے اس کے اندر کی چوب ہلادیں

کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس ٹائم کو مارنے والے ہندو دھرم کے جادوگر اور تانتریک ہو ہی نہیں سکتے۔۔

پھر اس نے بلرام کو ٹال کر واپس بھیج دیا کہ ہم دیکھ لیں گے جو بھی ہوگا تم جاؤ اور اس بات کے بارے میں اور کسی سے ذکر نہ کرنا۔۔

بلرام حیران تو بہت ہوا کہ اس کی اتنی بڑی بات کو بادشاہ نے اپنے حلقے میں لے لیااور اسے واپس جانے کا کیا دیا لیکن بادشاہ کے سامنے وہ زبان درازی کرنے کیہمت نہیں کر سکتا تھا اس لئے وہ خموشی سے گاؤں کی طرف واپس لوٹ آیا

سویرا بھی اس کے پیچھے پیچھے گاؤں میں داخل ہوچکی تھی

لیکن آتے ہوئے اس نے راجہ کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک دیکھی تھی۔۔

گاؤں میں داخل ہوتے سویر نے دیکھا کہ اسلام اور اس کے تین ساتھی رخصتی کی تیاریاں کر رہے ہیں

سب کی باتیں سننے پر سویرا کو معلوم ہوا کہ وہ چاروں راجہ کے دربار میں ہی دین کی تبلیغ کرنے جارہے ہیں

سویرا کو بلرام اور اسکے احمق ساتھیوں کی ترکیب کے بارے میں بڑی ہنسی آئی

کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ دین حق پر چلنے والےکسی حکومت کسی سلطنت سے ڈرتے نہیں ہے بلکہ ان تک بھی حق کی تعلیم کو پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔

گاؤں کا سردار کہہ رہا تھا کہ آپ راجہ کے دربار میں نہ جائے ہوسکتا ہے کہ آپ کی جان کو وہاں پر خطرہ ہو۔

اسلم بولا نہیں ہم راجہ کے دربار میں جاکر اسے ایک خدا کی وحدانیت کی تبلیغ ضرور کریں گے اور یہ ہمارا فرض ہے

اگر ہم نے اسے انجام نہ دیا تو ہم خدا کے حضور جواب دہ ہوں گے۔۔

یہ کہہ کر وہ گھوڑوں کو لے کر بادشاہ کے دربار کی طرف روانہ ہوگئے۔۔

اتنے میں فجر کی اذان کی آواز سن کر سویرا کی آنکھ کھل گئی

آج کالج میں سویرا پہلی بار کسی انسان سے متاثر ہوئی تھی۔۔

اس نے آج ہی کالج میں داخلہ لیا تھا۔

شکل سے ہی باوقار اور اچھے اخلاق کا مالک لگ رہا تھا

دیکھنے میں بھی اتنا وجیہ تھا کہ ہر لڑکی اسے اپنے ساتھ دوستی پر متفق کرنے کے چکروں میں تھی۔

لیکن سویرا عام لڑکیوں جیسی نہیں تھی اس نے ان باتوں کی طرف قطعی دھیان نہیں دیا۔۔

اس کی توجہ کا مرکز تو صرف اور صرف اکرم کی ذہانت تھی۔

اکرم آج پہلی بار جب کالج میں داخل ہوا تو سویرا نے اسے دیکھتے ہی اس کے بارے میں اندازے لگانے شروع کر دیئے تھے

اور یہ بات وہ احسن طریقے سے جانتی تھی کہ اس کے انداز عموما صحیح ثابت ہوتے تھے۔

خیر اکرم اریبہ اور سویرا کا کلاس فیلو تھا۔

عمر اس کی تقریبا انیس سال تھی۔

لیکچر سٹارٹ ہوتے ہی وہ کلاس روم میں داخل ہوا اور اقبال کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

ٹبا لیکچر کے دوران ہی بول پڑا اوئے ہیلو۔

مسٹر یہ سیٹ میرے جگری دوست منیر کی ہے۔

مہربانی فرماکر تم کہیں اور بیٹھ جاؤ۔

اکرم خاموشی کے ساتھ اٹھ کر پیچھے والی کرسی پر بیٹھ گیا

اور لیکچر سننے لگا۔۔

لیکچر کے اختتام پر منیر جب کلاس روم میں داخل ہوا اور اقبال کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے لگا تو نہ جانے کیا ہوا کہ وہ سیٹ خود بخود پیچھے سرک گئی

منیر دھڑام سے پیچھے کی طرف گر پڑا۔

اس کے گرنے سے پوری کلاس میں ہنسی اور مزاح کا طوفان برپا ہو گیا۔

ہر کوئی منیر کا مذاق اڑا رہا تھا

اریبہ تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جا رہی تھی۔

سویرا نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر اریبہ کو ڈانٹنا شروع کر دیا😃😃😀

تمہیں شرم نہیں آتی اپنے بیسٹ فرینڈ کے گرنے پر ہنسے جارہی ہو۔

اکرم نے منیر کو اٹھ کر سہارا دیا اور سیٹ پر بٹھا دیا۔۔

منیر نے اکرم کا شکریہ ادا کیا اکرم بولا اسلام علیکم میرا نام اکرم ہے

کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں

میرا نام منیر ہے اور یہ میرے ساتھ میرا دوست اقبال ہے

منیر مشکور ہوتے ہوئے بولا

کیونکہ سب اس کی حالت پر ہنسے ہی جا رہے تھے لیکن کسی نے اسے اٹھانے کی زحمت نہیں کی تھی

اکرم نے یہ فریضہ سرانجام دیا تھا😩😩

ویسے یار حیرانگی کی بات ہے کہ اس سیٹ کو میرا پاؤں تک نہیں چھوا۔۔

پھر وہ اپنے آپ ہی اپنی جگہ سے کیسے سرک گئی جب کہ کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا

کالج کی گارڈن میں اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے منیر والا۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے فضول میں وہم کرنا اچھی بات نہیں

سویرا منیر کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔

نہیں سویرا بات تو یہ واقعی حیران کر دینے والی ہے

لیکن مجھے مزہ بہت آیا کیونکہ دوسروں کو گرانے والا آج خود دھڑام سے گر پڑا

ہاہاہاہا!

اریبہ ہنستے ہوئے بولی

تم کسی دن ضرور میرے ہاتھوں سے پٹ جاؤگی اریبہ

سویرا کو واقعی اریبہ پر غصہ آ رہا تھا۔

کہیں ایسا تو نہیں اکرم کوئی جادوگر ہے۔۔

کیونکہ اس سیٹ کے پیچھے اکرم ہی بیٹھا ہوا تھا

اقبال نے یوں ہی مذاق کے موڈ میں کہہ دیا

لیکن اس کی اس بات پر سویرا کے دماغ میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔

کیونکہ اس کے ساتھ جو ہو رہا تھا اور آگے جو ہونے والا تھا اسے سوچ کر وہ کافی پریشان تھی

ابھی وہ یہ سب باتیں کر ہی رہے تھے کہ انہیں اکرم اپنی طرف آتے ہوئے نظر آیا

اچھا خاموش ہو جاؤ وہ آرہا ہے اس طرح کی باتیں سنیں گا تو برا مان جائےگا

سویرا نے سمجھانے والے ان سب کو چپ کرا دیا۔

اکرم گارڈن میں ان کے قریب پہنچ کر بولا اسلام علیکم

سب نے سلام کا جواب دیا۔

وہ بولا کیا میں آپ سب کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں

دراصل میں اس کالج میں آج داخل ہو اور یہاں میری کسی سے کوئی خاص جان پہچان بھی نہیں ہے۔

آپ لوگ مجھے سب سے منفرد اور اخلاق میں اچھے نظر آئے

تو میں نے سوچا کیوں نہ میں آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤں

مری رپورٹ سے بول پڑا کیوں نہیں آپ کا سواگت کیا جاتا ہے😃😀😀

اکرم ان چاروں کے پاس زمین پر بھیجی ہوئی نرم گھاس پر بیٹھ گیا۔

سویرا نے اسے پوچھنا شروع کیا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو

تم سب میری بات سن کر یقین نہیں کرو گے کہ میں کہاں کا رہنے والا ہوں۔۔

اگرم پراسرار لہجے میں بولا۔

کیوں کیا تم خلاصے آئے ہو یا پرستان کی مخلوق ہو

یا کوہ قاف سے یہاں پر نازل ہوئے ہو۔

اریبہ بدستور ہنستے ہوئے بولی۔

چپ کر جا شریر کہیں کی۔

سویرا نے سے چٹکی کاٹ کر خاموش کرادیا

اچھا تو جناب بتائیے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں

اس بار اقبال مخاطب ہوا۔۔

دراصل میں اس کالج کے پیچھے والے جنگلات میں سے ایک قبیلے کا باشندہ ہوں۔

کیا۔۔

امپوسیبل

چونکتے ہوئے اریبہ اور ویرا بولی۔

میں نے کہا تھا نہ کہ آپ کو میری بات کا یقین نہیں آئے گا

بات تو واقعی حیران کر دینے والی ہے کیونکہ دیکھنے میں اور بولنے میں تو تم بالکل مہذب اور کسی شہر کی رہائشی لگتی ہو۔

تمہیں دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ تم ایک قبائلی ہو۔

اخلاق کا تعلق کس قبیلے گاؤں یا شہر سے نہیں ہوتا

اور رہی بات ظاہری مینرز کی تو وہ تو کوئی بھی تھوڑی سی محنت کے ساتھ سیکھ سکتا ہے۔۔

دراصل پہاڑوں کی اوٹ میں گرے ہوئے اس جنگل کے درمیان بہت سارے قبیلے آباد ہے جن میں سے کچھ اچھے اور کچھ شرپسند ہیں

میرا تعلق بھی انہی میں سے ایک قبیلے سے ہے

اور میں اپنے قبیلے کا پہلا فرد ہو جو مکمل طور پر تعلیم حاصل کر رہا ہے

دراصل میرے والد نے مجھے بچپن ہی سے زبان اور دوسری چیزوں پر عبور حاصل کرنا سکھا دیا تھا

کافی کچھ گھر سے سیکھ لینے کے بعد مجھے اسکول میں بھی داخل کرادیا گیا

ہاسٹل میں رہ کر میں نے اپنی انٹر تک کی تعلیم پوری کی

اس کے بعد ابھی تمہاری کالج میں داخلہ لے لیا

جنگلات میں رہا ہوں اس لئے جنگلات کے بارے میں بہت زیادہ ریسرچ کی ہے میں نے۔۔

جنگل میں چھپے تقریبا ہر راز کے بارے میں میں جانتا ہوں

جادوگر کے خزانے کے بارے میں بھی جانتے ہو کیا

اریبہ جوکہ عادت سے مجبور تھی اس سے رہا نہ گیا اور وہ اکرم کی بات کو کاٹتے ہوئے بولی۔

شٹ اپ اریبا

سویرا نے غصہ سے گھورتے ہوئے اریبا کو چپ کرا دیا

ویسے تو ہمارے قبیلے مالی طور پر بہت مضبوط و مستحکم ہوتے ہیں اور انہیں اپنے گزر اوقات کے لیے کسی طرح کی تعلیم و تربیت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

لیکن ہمارا خاندان ایک خاندان ہے اور میرے والد مجھے بچپن ہی سے یہ سمجھا رہے تھے کہ میں نے کوئی بہت اہم فریضہ سرانجام دینا ہے

یہ بات کہتے ہوئے اگر ہم نے سویرہ کی طرف منہ کیا اور ہلکے سے مسکرا دیا۔۔۔

اچھا میں نے تو اپنے بارے میں تقریبا سب کچھ آپ کو بتا دیا ہے۔

اب آپ بھی اپنا مکمل تعارف کرا دیں

اکرم کا یہ لائن کہنا تھا کہ اریبا تو جیسے پھٹ پڑی

میں ہوں اریبہ اپنے گروپ کی سب سے شوخ و چنچل لڑکی

یہ اقبال اور منیر ہے آپس میں بہت گہرے دوست اور الٹے سیدھے ایڈونچر کرنے کے شوقین۔

اور یہ ہے سویرا ہماری کلاس کی سب سے سمجھدار اور سب کی دادی اماں کو سمجھانے والی۔۔

اس وقت کا سننا تھا کہ سویرا سمیت سبھی کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔

تو آپ کا سواگت کیا جاتا ہے ہمارے چار دوستوں کے گروپ میں😃

چار نہیں پانچ منیر ہنستے ہوئے بولا۔۔۔

آج تھوڑی طبیعت خراب تھی اس لیے زیادہ نہیں لکھ پایا اس بات کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

آپ سب سے گزارش ہے کہ کہانی پڑھنے کے بعد پوسٹ کو لائیک ضرور کیا کیجئے اور اپنے دوستوں کو مینشن بھی کر دیا کیجئے

اس سے رائٹر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور مزید لکھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے

اور یہ ضرور بتائیے گا کہ کہانی کیسی جا رہی ہے

آپ سب کی رائے اور دعاؤں کا منتظر۔

اکرم کے اپنے دوستوں کے گروپ میں شامل ہو جانے سے دلی طور پر سویرا بہت زیادہ خوش تھی لیکن اس کے ذہن میں ایک کھٹکا تھا

مجھے وہ کسی شخص کا نام بھی نہیں دے پا رہی تھی

کیونکہ اکرم ایک سمجھدار اور سلجھا ہوا لڑکا تھا اس لئے اس پر بے بنیاد شک کرنا سویرا کیلئے بالکل فضول تھا۔

وہ پانچوں کافی دیر بیٹھے ادھر کی باتیں کرتے رہے اور ہلہ گلہ کرتے رہے۔

شام کے وقت سویرا بولی اچھا اب میں چلتی ہوں۔

جلدی سے آ کر بولا میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں ویسے بھی ہوسٹل میں رہتا ہوں تو ضروری سامان لینے کے لیے میں نے یہاں سے باہر جانا ہے۔

راستے میں ہی آپ کا گھر پڑتا ہے

اور میرے ساتھ ہی چلیے

سویرا بخوشی تیار ہوگئی

وکرم کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئی

آدھے راستے میں پہنچ کر اکرم سویرا سے مخاطب ہوا کہ محترمہ میں آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو پہلے سے ہی بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔

اس لئے آپ یہ سوچنا بند کر دیں کہ مجھے آپ کے گھر کا ایڈریس کیسے معلوم ہے۔

سویرا حیران رہ گئی کہ اکرم کی چھٹی حس اتنی تیز تھی کہ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے

آپ پریشان نہ ہو اطمینان سے گھر جائیںوقت آنے پر میں آپ کو اپنے بارے میں سب کچھ بتا دوں گا۔

آپ کے لئے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ میں ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں

کبھی کسی مقام پر کسی بھی طرح کی ضرورت پڑے تو یاد کرلیجئے گا۔

سویرا کیلئے یہ سب کچھ اتنا بھی حیران کن نہیں تھا کیونکہ آپ نے 18ویں سالگرہ کے بعد جس طرح کے مناظر اور حالات سے وہ گزر رہی تھی ان میں کچھ بھی ہونا ناممکن نہیں تھا۔

سویرا نے خیالات کو ذہن سے جھٹکا اپنے گھر کے قریب پہنچ کر بائیک سے اتری اور اکرم کو الوداع کہتے ہوئے گھر میں داخل ہوگئی

گھر آکر حسب معمول اس نے نماز ادا کی اور ماں کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے گھر کے کام کرنے لگ پڑی۔

سویرا بیٹا میں یہ باتکچھ دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں کہ تم عشاء کی نماز کے بعد اپنی دادی اور مجھے بالکل وقت نہیں دیتی۔

بلکہ اپنے کمرے میں سو جاتی ہو۔

اس کی کیا وجہ ہے۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں وہ دراصل میں ابو کی کتاب پڑھ رہی ہوں اور بس یہی چاہتی ہوں کے اسے جلدی جلدی ختم کر لوں

چلو جاؤ شاباش اپنی دادی کے پاس

وہ تمہارے آنے سے پہلے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔۔

سویرا جلدی جلدی کام سمیٹ کر دادی جان کے کمرے میں داخل ہوئیں اور سلام کرنے کے بعد اپنی دادی کی بالکل پاس بیٹھ گئی

کیسی ہیں میری پیاری دادی جان سویرا نے دادی سے ہنستے ہوئے کہا

تمہیں کیا لگے تم نے تو دو تین دن سے میری خبر تک نہیں لی

ایسی کوئی بات نہیں ہے دادی جان دراصل میں ابو کی وہ کتاب پڑھ رہی ہو جو انہوں نے میری اٹھارویں سالگرہ کے لیے مجھے رہی تھی وہ حقیقت میں ان کی کتاب نہیں بلکہ ان کی اپنی لکھی ہوئی ایک ڈائری ہے جو انہوں نے صرف اور صرف میرے لئے لکھی ہے

اس میں کچھ ایسے راز پوشیدہ ہیں جن پر سے پردہ میں ابھی تو نہیں اٹھا سکتی لیکن مکمل حقیقت معلوم ہونے کے بعد میں سب سے پہلے آپ کو اور امی کو اس کے بارے میں بتاؤں گی

چلو کوئی بات نہیں بیٹا

سویرا اور دادی ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئی اتنے میں عشاء کی نماز کا وقت ہوگیا

جاؤ بیٹا تم نماز پڑھ لو عشاء کا وقت ہو چکا ہے میں بھی وضو کرکے نماز پڑھنے جا رہی ہوں

دادی نے سویرہ کو کہا تو سویرا اپنے کمرے کی طرف چلی گئی

حسب معمول نماز عشاء ادا کرنے کے بعد اس نے خدا سے دعا کی اور اپنے بیڈ پر آکر کتاب ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گئی۔

کتاب کو کھولا اور اس پر ہاتھ رکھتے ہی اس دنیا میں چلی گئی جو پہلے تو اس کے لیے اجنبی تھی لیکن اب جانی پہچانی تھی

وہاں پر رات کا وقت ہو رہا تھا اور اسلام اور اس کے ساتھی بادشاہ کے محل کے قریب پہنچنے والے تھے

سویرا بھی ان کے قریب ہوگی تاکہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو آسانی سے سن سکے

مجھے نہیں لگتا کہ راجہ ہماری ایک خدا کی دعوت کو قبول کرے گا

وہ سالہا سال بلکہ صدیوں سے بتوں کی پوجا کرتے آئے ہیں اور دیگر رسومات نبھاتے آئے ہیں

کے سب کچھ تو ان میں ر چ بس چکا ہوگا۔

تم یہ بات بھول گئے کہ جب خدا کسی کو ہدایت دیتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ پہلے کیا کرتا آیا ہے

بلکہ وہ اس کے ذہن کو ہدایت کی روشنی سے مکمل طور پر منور کر دیتا ہے

اس طرح کی باتیں کرنا کمزور ایمان کی نشانی ہے سو آئندہ اس طرح کا رحمان اپنے ذہن میں نہیں لانے دینا۔

یہ کہتے ہوئے اسلم نے گھوڑے کی رفتار تھوڑی تیز کی تو باقی سب نے بھی اپنی رفتار اور کی رفتار کے ساتھ ملا دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بادشاہ اپنے خوابگاہ میں محو خواب تھے کہ ان کا مشیران کے دروازے پر گورمکھی دستک دینے لگا

راجاکی نیند کھل گئی اور غصے کے عالم میں وہ کمرے سے باہر کی طرف نکلے

سامنے اپنی خاص مشیر کو دیکھ کر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور ہمیں پوچھا کہ حیرت کی بات ہے

تم تو اتنی سمجھ دار ہو پھر بھی تمہیں احساس نہیں کہ ہم سو رہے تھے اور تم نے کتنی رات کے وقت ہمیں بیدار کیا

دراصل بات ہی کچھ ایسی تھی راجہ صاحب۔

کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں وہ بہت دور سے سفر کرکے آرہے ہیں اور ابھی ابھی یہاں پہنچے ہیں۔

راجہ مشیر کے پیچھے پیچھے مہمان خانے میں داخل ہوگئے۔

وہاں پر چار شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں ایک ان سب سے زیادہ با وقار اور پر اثر نظر آرہا تھا۔

راجہ نے ان سب سے پوچھا کہ تم کون ہو اور اتنی رات کو کیا لینی آئے ہو

ہمارا دربار تو صبح سجتا ہے

کوئی کام تھا تو صبح آجاتے

راجہ صاحب میرا لام اسلم ہے اور یہ تینوں میرے ساتھی ہیں

اسلم

راجہ صاحب نے ذہن پر زور دیا تو نہیں یاد آگیا کہ ایک گاؤں والااصل نام کے ہی کسی انسان کے بارے میں بتا کر گیا تھا کہ وہ ایک نیا مذہب لے کر آیا ہے

اسلم پھر سے کھویا ہوا

اور راجہ صاحب ہم آپ کے کچھ لینے نہیں بلکہ آپ کو کچھ دینے کے لیے آئے ہیں

راجہ صاحب کی حیرت دوچند ہوگئی کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتے ہو۔

راجہ صاحب نے اپنے مشیر خاص کو باہر بھیج دیا

راجا صاحب ہم آپ کو ہدایت کی روشنی دینے آئے ہیں اور ایک خدا پر ایمان کی طاقت دنیے آئے ہیں

ہم آپ کو یہ دعوت دینے آئے ہیں کہ آپ جتنے بھی بتوں کو پوجتے ہو وہ آپ کے کسی کام کے نہیں نہ آپ کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔

ہم سب کو اور آپ کو پیدا کرنے والا صرف اور صرف ایک ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں اور وہ اپنی سب ذات اور صفات میں اکیلا ہے کوئی بھی اس کا ہمدم نہیں۔

وہ انسانی شکل میں آنے اور اوتار لینے سے پاک ہے۔

ہاں جب اسے ضرورت ہوتی ہے تو وہ انسانوں میں سے اپنے پیغمبر چن لیتا ہے جو اس کے دین کی تبلیغ کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

میں بھی ایسے ہی پیغمبر کا پیروکار ہوں جو ایک خدا کی پوجا کی دعوت دیتا ہے

بادشاہ سناٹے میں آگیا۔

وہ یہ جانتا تھا کہ یہ کس مقصد سے آئے ہیں لیکن اسے یہ قطعی امید نہیں تھی کہ وہ برملا ریاست کے بادشاہ کے سامنے نے دین کی تبلیغ کریں گے

ان کی بہادری دیکھ کر بادشاہ عش کر اٹھا

سچ بتاؤں تو مجھے بھی بتوں پر بالکل یقین نہیں ۔

لیکن کسی صحیح خدا کے بارے میں مجھے کچھ علم بھی نہیں تھا۔

ایک گاؤں والاتمھارے آنے کی اطلاع تم سے پہلے ہی یہاں پہنچا گیا ہے تاکہ میں تمہاری سر کو بی کر سکوں۔۔

لیکن جب سے وہ تمہاری خبر دے کر گیا ہے تب سے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں

میں نے یہ تو ہرگز نہیں کی تھی کہ تم اتنی جلدی یہاں پہنچ جاؤ گے اور اس طرح بنا کسی ڈر کے میرے سامنے حق گوئی کروگے

تمہارے دین سے تو میں پہلے سے ہی متاثر ہوچکا تھا

اب تمہارے عادات و اطوار اخلاق اور بے خوفی نے مجھے اور زیادہ متاثر کر دیا ہے

میں سچے دل کے ساتھ تمہارے مذہب کو قبول کرنا چاہتا ہوں

سویرا جو ایک سائیڈ پر کھڑی یہ سب باتیں سن رہی تھی راجہ صاحب کی اس بات پر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔

اسلم میں راجا صاحب کو غسل کے طریقے بتائیں اور کہا کہ جائیے آپ نہا کر آئے۔

راجہ صاحب مہمان خانے کے ساتھ منسلک غسل خانے میں گئے اور نہا کر پاک صاف ہو کر آگئے

اسلم نے ان کو موجودہ دور کا کلمہ حق پڑھایا اور انہیں دین حق میں داخل کرلیا

اسلم کے باقی ساتھیوں نے بغلگیر ہو کر راجہ کو مبارک پیش کی

راجہ صاحب میں نہیں سننا چاہتا کہ آپ کا اس مذہب میں داخل ہونے سے پہلے کیا نام تھا لیکن ابھی میں آپ کا نام ابراہیم رکھ رہا ہوں جو کہ ہمارے ایک بہت ہی مقدس پیغمبر کا نام تھا

اسلم بولا راجہ صاحب ہم کچھ دن آپ کے محل میں ایسی مہمان خانے میں رکھتے ہیں تاکہ ہم آپ کو دن کی مکمل طور پر تعلیم دے سکے فلحال آپ جائے اور سو جائے

اگر خدا نے چاہا تو سب کچھ آپ کے حق میں بہتر ہوگا

اور فی الحال اپنے ایمان کے بارے میں کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے وہ آپ کے جان کے دشمن ہو جائں

تاریخ میں بھی ایسے ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی راست سے بھٹکا ہوا راہ راست پر آتا ہے تو اس کے اپنے ہی اس کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں

سویرا کے وہاں کھڑے کھڑے ہی دن بدلتے گئے اور راجہ صاحب اسلام سے دین کی مکمل تفصیلات حاصل کرتے رہے۔

لیکن ابھی بھی وہ عملی طور پر اپنی عبادات انجام نہیں دے سکتے تھے

ایک دن راجہ صاحب نے اسلم کو اپنے پاس بلایا۔

راجہ صاحب دربار میں بیٹھے تھے کہ وزیر نے اطلاع دی کہ آپ کا کوئی جاننے والا اسلم نامی شخص آپ سے ملنے آیا ہے

سویرا کو کچھ یاد سے آگیا۔

اسے یاد آگیا کہ جادوگر کا خزانہ نامی کتاب میں بھی اس نے کچھ ایسا ہی دیکھا تھا

وہ سمجھ گئی کہ وہ ساری کتاب حقیقت پر مبنی تھی اور اسی کہانی کا ایک جزو تھی

سویرا بھی اسلم خواجہ صاحب کے پاس مہمان خانے کی طرف چلی گئی جہاں اسلم کے آنے کے بعد راجہ صاحب وں سے لیے گئے تھے

راجہ صاحب نے اسلم کو کہا کہ میں ان مشرکوں کے درمیان نہیں رہ سکتا

اور ان کو تبلیغ دینا بھی اپنی جان کے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے کیونکہ یہ بہت ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں

میں ایک خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہوں اور اس کے دین کے سارے عادات واطوار کو اپنانا چاہتا ہوں

اس لیے تم کچھ ایسا انتظام کرو کہ میں ان کے درمیان سے نکل جاؤں

جانے کو تو میں ابھی چلا جاتا لیکن

میرے پاس اس اس ریاست کے جنگلوں میں ایک ایسا خزانہ موجود ہے

جسے میں غلط ہاتھوں میں نہیں پڑھنے دینا چاہتا

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میرے جانے کے بعد اس خزانے کی حفاظت کون کرے گا

آپ فکر نہ کریں راجہ صاحب میں آپ کے خزانے کی حفاظت کروں گا بلکہ اگر آپ کہیں تو میری آنے والی نسلیں بھی یہ ذمہ داری سرانجام دیں گی

اسلم نے اپنے ایک ساتھی کو کہنے اعظم کو بلانے کے لیے بھیج دیا

راجہ صاحب کو اسلام نے کہا کہ میں نے کہا اعظم کو بلا لیا ہے وہ ہمیں اپنی غیبی طاقتوں کے ذریعے جو کہ اللہ کی عطا کردہ ہے

ہمیں آپ کے خزانے کا ہمیشہ کے لئے محافظ مقرر کر دیں گے

آپ سفر کی تیاری کیجئے ہمیں آجا خزانے والی جگہ پر پہنچنا ہے وہ راہب بھی وہاں پر پہنچ جائیں گے

سویرا بیٹی ان کا پیچھا کرنا

اب اس کہانی کا سب سے اہم پہلو تمہارے سامنے آنے والا ہے

پھر وہی سب ہوا جو کہ وہ لائبریری میں ملنے والی کتاب میں پڑھ چکی تھی

اسلم اور راجہ صاحب سفر کے لیے نکلے تصویر ابھی ان کے پیچھے پیچھے ہولی

سویرا نے دیکھا کہ بادشاہ کا وزیر شاہ کال بھی چپکے چپکے بادشاہ کا پیچھا کر رہا ہے

لیکن تصویر اس کا چہرہ نہیں دیکھ پا رہی تھی کیونکہ شکاال نے جنگی سوٹ پہنا ہوا تھا

خزانے والی جگہ پر پہنچ کر راجہ صاحب اور اسلم گھوڑوں پر سے اتر گئے اسلم کے ساتھ ہیں اور راہب پہلے سے وہاں پر موجود تھے

راہب نے اپنی طاقتوں کے ذریعے اسلم اور اس کے خاندان کو خزانے کا محافظ مقرر کردیا

اس کے ساتھ ہی شاہ کال نے راجہ پر حملہ کردیا اسلم نے جوانمردی کے ساتھ شکال کا مقابلہ کرکے اپنی سنہری تلوار سے اسے ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔

اور وہاں سے راجہ کے محل کی طرف رخصت واپس روانہ ہوگئے

سویرا اسی جگہ پر موجود رہیں کیونکہ وہ شہکار کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی۔۔

لیکن چونکہ وہ بھی حالت میں وہاں پر موجود تھی اس لئے وہ بذات خود اس کے منہ سے وہ جنگی سوٹ ہٹا نہیں سکتی تھی

اس نے خدا سے سچے دل سے دعا مانگی کہ یا اللہ جہاں اتنا سب کچھ تم نے میرے سامنے روز روشن کی طرح عیاں کردیا ہے حالانکہ میں اس زمانے کی بھی نہیں ہوں

وہی میری تھوڑی سی اور مدد فرما اور اس ملعون کا چہرہ مجھے دکھا دے

اتنے میں کچھ گدھ ہوا میں اڑتے ہوئے تیز رفتاری سے شاہکار کی طرف بڑھے

اور اپنے تیز پنجوں سے شاکال کے منھ سے جنگی سوٹ اتار کر پرے پھینک دیا

شاکالاکا کے منہ سے جنگ سود کا ہٹنا تھا کہ سویرا جلدی سے اس کے چہرے کی طرف متوجہ ہوئی

کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ باز شاکال کے چہرے کو بگاڑ نہ دیں

شاکال کے چہرے کو دیکھنا تھا کہ سویرا کے وجود کو ایک زوردار بجلی کا جھٹکا لگا۔

کیونکہ شاہ کال اور کوئی نہیں بلکہ وہی تھا جو اس کے خوابوں میں آتا تھا اور اس کے والد کی کمر میں تلوار گھونپ دیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔

سویرا اسی جگہ پر کھڑی ہوئیشاہ کال کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی کہ ایک دم قدم سارے ماحول پر اندھیرا چھا گیا۔۔

سویرا ڈر گئی کہ پتا نہیں یہ کیا ہوگیا ہے

جب اندھیرا تھوڑا چھٹا تو اس نے دیکھا کہ آسمان پر سے بجلیاں کوندتی ہوئی زمین پر آ رہی ہیں۔۔

بجلیوں کی زمین سے ٹکراتے ہی زمین سے دھواں اٹھنا شروع ہوگیا۔

اس دورے نے کچھ ہی دیر بعد ایک انسانی ہیولے کی شکل اختیار کرلی

سویرا نے غور سے دیکھا تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی جادوگر کی بری روح تھی۔

اس بھوت نے زور زور سے ہنستا شروع کر دیا۔

تم نے کیا سمجھا تھا اسلم کہ تم مجھے مار دو گے اور سارا قصہ یہیں پر ختم ہو جائے گا۔۔۔

میں شیطان کا سب سے بڑا پوجاری

کالی کو ہزاروں بلیاں چڑھانے والا۔

اور سالوں سال شیطان کی کڑی ریاضت کرنے والا۔

میں شاہ کال

موجودہ اور آنے والے زمانے کا سب سے بڑا جادو کر

میں واپس آگیا ہوں۔

تو کیا ہوا اگر یہ خزانہ مجھے نہیں مل سکا تو۔

کیا ہوا تم نے اگر اپنی مقدس تلوار سے میرے جسمانی وجود کو فنا کر دیا۔

اگر یہ خزانہ میرا نہیں ہو سکا تو میں اس خزانے کی جستجو رکھنے والے کسی بھی انسان کو اس تک نہیں پہنچنے دوں گا۔

تو کیا ہوا ابھی میں کمزور ہوں اور میری طاقت اتنی بلند نہیں کہ میں راہب کے علوم کا توڑ کر سکوں۔

ایک زمانہ آئے گا جب میں اس کا حل ڈھونڈ لوں گا۔

تب میں اس خزانے کو حاصل کروں گا اور میری یہ خواہش پوری ہونے کے بعد شیطان مجھے میرے جسم کو واپس لوٹا دے گا۔

پھر میں اس دنیا پر قہر بن کر نازل ہوں گا

میرے عتاب سے راجہ اور اس کے چاروں محافظوں کی آنے والی نسلیں تباہ و برباد ہو جائے گی۔۔

سویرا خاموش کھڑی ہے سب کچھ سن رہی تھی۔۔

اب بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ کیوں ہزاروں سال گزر جانے کے بعد اسے جادوگر کے بارے میں خواب آرہے ہیں

کیوں اسے اپنے والد کی موت خواب میں نظر آ رہی ہے۔

ہوسکتا ہے میرے والد زندہ ہو

اور جادوگر نے ان کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہو۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خزانے کی ہوس میں آکر اس جادوگر نے میرے والد کو قتل کر دیا ہو۔۔

اس بارے میں سوچنا قبل از وقت ہے

یہ خیال کر کے وہ راجہ کے محل کی طرف بڑھنا شروع ہوگی

راجہ کے محل میں پہنچ کر سویرا نے دیکھا کہ اسلم کے ساتھی اسلم اور راجہ کمرہ خاص میں بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

اسلم ان کو کہہ رہا تھا کہ راجہ صاحب آپ اللہ کے فضل سے دین حق میں داخل ہو چکے ہیں آپ کے علاوہ ایک اور گاؤں کے بہت سارے فرد مسلمان ہو چکے ہیں

آپ کے وزیر شاہ کال نے آپ کی دربار کے بہت سارے عمرہ اور بڑے لوگوں کو اپنے زیر اثر کر رکھا تھا اس کے علاوہ اپنے دھرم کے بہت پکے ہیں

ہم ان کے سامنے آکر بھی دکھا دیں تو وہ اپنی ضد سے باز نہیں آئیں گے

کیونکہ جب اللہ تعالی کسی کی آنکھوں سے ہدایت کے نور کو چھین لیتا ہے تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔

اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ سب گاؤں والوں کو لے کر اس نگر سے ہجرت کر جائیں اور کسی ایسے علاقے میں جاکر بس جائے جہاں پر آپ کو دینِ حق کی پیروی کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔۔

آج رات ہی تقریبا رات کے پچھلے پہر کو آپ سب یہاں سے نکل جائے

تاکہ کسی قسم کا جانی نقصان نہ ہو۔

اور رہی بات ہماری تو ہماسی دیس میں رہیں گے اور آپ کے خزانے کی ہمیشہ حفاظت کرتے رہیں گے۔

راجہ جن کا موجودہ نام ابراہیم تھا وہ بولے کے ابھی بھی ایک انسان ہمارے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہو سکتا ہے۔

وہ کون؟

اسلم نے پوچھا

میرا مشیر خاص۔

تم لوگ اسے بھی میری طرح نرم گفتار نرم دل اور راست باز پاؤگے

پھر وہ سب اٹھ کر محل میں وزیروں اور مشیروں والے حصے کی طرف بڑھے جہاں پر مشیرخاص کا گھر تھا۔۔

سویرا بھی ان کے پیچھے پیچھے تھی

اس کا تجسس اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا

وہ حیران ہو رہی تھی کہ وہ ایسے پرعزم اور پارسا لوگوں کے خاندان میں سے تھی۔۔۔

مشیر کے دروازے پر پہنچ کر راجا نے آہستہ سے دروازے پر دستک دے دی

مشیر خاص تو شاید پہلے ہی جاگ رہا تھا دستک کی آواز سنتے ہی اس نے دروازہ کھول دیا۔۔

سامنے بادشاہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے

آئے عالیجاہ

آپ کے آنے کی اطلاع تو مجھے خواب میں پہلے ہی دے دی گئی تھی۔

اس بات پر راجہ کو حیرت نہ ہوئی۔

کہ وہ جانتا تھا کہ وہ جس رب تعالی کی دعوت دینے کے لیے مشیر خاص کے پاس آئے ہیں اس کے قبضہ قدرت سے باہر دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں۔

پھر تو تمہیں یہ بھی پتہ ہوگا کہ ہم تمہارے پاس کس مقصد سے آئے ہیں۔راجہ صاحب مسکراتے ہوئے بولے

ہاں بالکل مجھے پتا ہے۔

دربار سے فراغت پانے کے بعد جب میں اپنے نام کھانا کھا کر سو گیا تو مجھے خواب میں ایک نورانی بزرگ دکھائی دیےان کا چہرہ ایسے چمچ کر رہا تھا جیسے ہزاروں سورج اور چاند دونوں کو اکٹھا کر دیا ہو

اور ان سب کی روشنی ایک سمت کردی گئی ہو۔

یہ شاید اس سے بھی زیادہ۔

اس نے مجھے کہاں کے کہہ دو کہ خدا صرف ایک ہے اور عیسی علیہ السلام کے پیغمبر ہیں۔

میں ہر بڑا کر اٹھ بیٹھا

اور یہ سوچنے لگا کہ کھانا کھانے کے فورا بعد میں سوگیا تھا اس لیے معدے کی خرابی کی وجہ سے یہ خواب مجھے آیا ہے

خیر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں دوبارہ بستر پر دراز ہو گیا۔

تھوڑی دیر بعد ہی دوبارہ مجھے اسی طرح کا خواب دکھائی دیا

میں اٹھا اور پریشان سا ہو گیا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے

ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ پھر سے مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی

اس بار جب سویا تو کہیں اور ہی آنکھ کھلی۔

کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بزرگ مجھے ہاتھ پکڑے اوپر ہی اوپر اڑائے لیے جا رہے ہیں

کافی اوپر جا کر وہ بزرگ رک گئے

ان کے سامنے دو دروازے تھے

بزرگ نے ایک دروازہ کھولا اور کہا کہ اس میں جھانک کر دیکھو۔۔

کیا دیکھتا ہوں کہ ایسے باغات محلات ایسی ایسی نعمتیں کہ نہ کسی کان نے سنی اور نہ کسی آنکھ نے دیکھی

اور نہ ہی انسانی دماغ میں ان کا تصور ممکن

بزرگ نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا دیا اور کہا کہ یہ سوارگ یعنی جنت کا ایک چھوٹا سا عکس ہے۔

اس کے بعد بزرگ نے دوسرا دروازہ کھول دیا اور کہا کے اب اس میں جھانکو۔۔

اس دروازے کی طرف میرے منہ کا کرنا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ عجیب کشمکش کا سماں ہے نفسا نفسی کا عالم ہے ہر طرف آگ ہی آگ بلائے ہی بلائیے مصیبت ہی مصیبت۔

اور ایک ایسی نہ ختم ہونے والی چیخ و پکار ہے کہ جسے اگر انسان انسانی حالت میں سن لے تو شاید قیامت تک اس کے دماغ پھٹتا اور پھٹتا ہی رہے۔۔

اس بزرگ نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ یہ نرکھ یعنی جہنم ہے

تمہارے پاس ان دونوں میں سے کسی بھی ایک کو اپنا مستقل بسیرا بنانے کا حق ہے۔

اگر تم جہنم میں رہنے کے خواہش مند ہو تو خواب خرگوش کے مزے اڑاتے رہو اور اپنے شب و روز یوں ہی گزار دو

اور اگر تمہیں جنت کی خواہش ہے تو جلدی سے نیند سے بیدار ہو جاؤ اور نہا کر پاک صاف کپڑے پہن لو

کیونکہ تمہارے پاس سچائی اور حق کی دعوت آنے والی ہے

دنیا میں چاہے ہزاروں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے

لیکن آخر میں حق ماننے والوں کو جنت ہی ملتی ہے

اور جھوٹ کے حصے میں صرف اور صرف جہنم ہے

چاہے دنیا میں وہ کتنا ہی سر بلند اور خوشنما کیوں نہ ہو۔

اس آواز کے سننے کے بعد میں خواب سے بیدار ہو گیا

میرا پورا وجود پسینے سے تربتر ہو پڑا تھا

بزرگ کے الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے تھے میں جلدی سے اٹھا غسل خانے میں گیا اور نہا دھو کر پاک صاف کپڑے پہن کر بیٹھ گیا

کیونکہ جتنا مجھے خود پر یقین تھا اتنا ہی اس بزرگ کی بات پر یقین ہو رہا تھا کہ میرے پاس حق کی دعوت آنے والی ہے۔۔

اس لئے میں دروازے پر دستک کا ہی انتظار کر رہا تھا۔

مشیر خاص نے یہ سب کچھ ایک ہی سانس میں راجہ صاحب کو بتایا اور روتا ہوں راجا صاحب کے گلے لگ گیا

آپ بہت عظیم ہے راجہ صاحب کے آپ نے دنیا کے ہر کام میں مجھے اپنے ساتھ رکھا اور آخرت سنوارنے کے معاملے میں بھی مجھے اپنا ساتھ دینے کی سعادت بخشی۔۔

وہ سب مشیر خاص کی کمرے میں جاکر بیٹھ گئے وہاں پر اسلم نے مشیرخاص کو دینا کا کلمہ پڑھایا اور خدا کی وحدانیت کی دعوت دی

جسے مشیرخاص نے بخوشی قبول کر لیا اور اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔۔

سویرا کی آنکھوں سے آنسو کا سلسلہ روک نہیں رہا تھا

وہ خود کو بہت خوش نصیب سمجھ رہی تھی کہ وہ پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ نبوت میں پیدا ہوئی جبکہ اسلام قبول کرنے پر کسی قسم کا جانی خطرہ نہیں تھا بلکہ وہ تو پیدائشی مسلمان پیدا ہوئی تھی

اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ حق ایک بہت بڑی نعمت ہے جو کہ خوش نصیب لوگوں کو ہی ملتی ہے

اسلم نے مشیر خاص کا اسلامی نام ہارون رکھ دیا اور اسے مبارکباد پیش کی۔

اس کے بعد اسلم اور راجہ صاحب نے ہارون کو کہا کہ رات کا پچھلا پہر ہے تم جلدی سے ایک گھوڑے پر سوار ہوکر گاوں جاؤ

اور وہاں موجود سب اسلام کے پیروکاروں کو لے کر جنگل کے راستے کی طرف آ جاؤ

میں اور اسلم صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی تمہیں ملیں گے

اسلم نے ہارون کو کچھ مقدس کلمات سکھا دئیے اور کہا کہ جب بھی راستے میں کوئی مصیبت یا کسی طرح کی پریشانی ہو تو ان کلمات کا درد سب مل کر کرنا جو بھی مصیبت ہوگی ہوٹل جائے گی

یہ کلمات ہمیں ہمارے پیغمبر کے وسیلے سے ملے ہیں۔

اور ان کی تاثیر تب سے جاری ہے جب سے یہ دنیا بنی ہے اور اس دنیا کے اختتام تک جاری رہے گی۔

اور وہ مقدس کلمات اور کچھ نہیں بلکہ آنے والے پیغمبر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام تھے

سویرا بھی ہارون کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے تھی

ہارون گاؤں پہنچا اور گاؤں کے سربراہ سے ملاقات کی

انہیں کہا کہ خفیہ طور پر جتنے بھی لوگ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں ان سب کو اکٹھا کیا جائے

اور یہ بات دھیان میں رکھی جائے گی کافروں کو اس بات کی بالکل خبر نہ ہو

سردار نے اپنے خاص آدمیوں کے ذریعے مسلمان ہو چکے سب گاؤں والوں کو ایک میدان میں اکٹھا کر لیا

جب سب اکٹھے ہو گئے تو مشیرخاص ہارون نے ان سب سے خطاب کیا کہ دوستوں میں بھی تمہاری طرح آج ہی حق کے دین میں داخل ہوا ہوں

اتنا تو آپ سب کو معلوم ہوگا ہیں کہ سچائی کے راستے میں ہمیشہ مشکل آتی ہے

اس لئے میں آپ سب کے لئے اس عظیم انسان اسلم کا پیغام لیکر آیا ہوں جس کی بدولت ہم سب توحید کے نور سے منور ہو چکے ہیں

پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنا سب چھوڑ چھاڑ کر

یہاں سے کوچ کرنا ہو گا تاکہ ہم آزادی کے ساتھ اپنے ایک واحد رب کی عبادت کرسکے اور سکھ چین سے خدا کے قائم کیے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال سکیں اور ہمارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو

اس لیے تمہیں کوئی تیاری کرنے کی ضرورت نہیں

تمہارے ہاتھوں اور جیبوں میں جو کچھ ہے وہ کافی ہے

دوسرا تمہارے دل میں خدا پر توکل ہونا ضروری ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اس لئے واپس گھروں کی طرف مڑنا ہمارے شایانشان بھی نہیں

ریاست کے راجہ صاحب بھی اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔

وہ جنگل کے پاس والے راستے پر ہمارا انتظار کریں گے ہمیں ابھی کے ابھی یہاں سے نکل کر جنگل کی طرف جانا ہے

سب لوگوں نے ہارون کی آواز پر لبیک کہا

اور سردار سمیت جنگل کی طرف نکل پڑے

کسی کا باپ یہاں رہ گیا تھا تو کسی کی اولاد کسی کی ماں تو کسی کی بہن

لیکن کسی نے اس تک نہیں کی دین کی خاطر اپنا سب گھر بار دولت اور یہاں تک کہ رشتہ دار بھی چھوڑ کر چل پڑے

سویرا ان کے ایثار کے جذبے کو دیکھ کر عش عش کر اٹھی..

ابھی رات کی سیاہی سفیدی میں تبدیل نہیں ہوئی تھی کہ وہ سب جنگل کے سامنے والے راستے پر موجود تھے تھے

تھوڑی دیر بعد کھڑے رہنے پر راجہ اور اسلم اور اس کے ساتھی بھی وہیں پر آگئے

اسلم راجہ صاحب سے بولا کہ راجہ صاحب میں اور میرے ساتھی آپ سب کو صرف جنگل کی اس حد تک چھوڑنے آ سکتے تھے

آگے آپ سب نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کدھر جاتے ہیں

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے اس لیے آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے

پھر اسلم سب سے مخاطب ہوا اس خدا کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں حق کے دین کی طرف مائل کیا

اور پیغمبروں کے اس سلسلے کی ایک کڑی سے جوڑ دیا جس کا اختتام جنت کے دروازے پر ہوتا ہے۔

جاؤ خدا تمہاری حفاظت کرے لیکن میری ایک بات ہمیشہ اپنے ذہن میں تازہ رکھنا کے پیغمبروں کے جس سلسلے کو حق سبحانہ و تعالی نے آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا اس کے اختتام کی آخری کڑی آئے گی

اس کے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا

اس لیے تم سب پر واجب ہے کہ جب وہ ظہور پذیر ہو تو اس کی اطاعت کرنا اور اس کے دین کو سر آنکھوں پر رکھنا

کیونکہ وہ ہدایت کا آخری چراغ ہوگا

اب جاؤ اپنی منزل کی تلاش کرو

ہم یہیں پر اپنا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔

اسلم کے خطاب کرنے کے بعد راجہ صاحب مشیر خاص اور گاؤں کا سردار اسلم سے بغل گیر ہوئے اور رخصت ہوگئے وہ سب جنگل کی طرف نکل پڑے

جبکہ اسلم اور اس کے ساتھی اسی شہر میں موجود رہے کیونکہ انہیں ایک اہم ذمہ داری نبھانا تھی راجہ کے بے حد قیمتی خزانے کی حفاظت کرکے۔۔۔

سویرا بیٹا اس کہانی کا یہ حصہ یہیں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اس کے بعد عرب میں ہدایت کا سورج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں طلوع ہوا تو ہم تک بھی اسی ہدایت کی روشنی پہنچی

اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گئے

یہ سب میں نے تمہارے لئے اپنی روحانی طاقتوں کے ذریعے محفوظ کرکے رکھا تھا کہ تم اپنے فرض کے متعلق آگاہی حاصل کر سکو

مجھے اتنا ہی علم ہے جتنا میں نے تمہیں دیکھا دیا ہے کیونکہ میں اسلم کی نسل سے ہوں

چونکہ ہم راجا اور گاؤں والوں سے بچھڑ چکے تھے اس لیے ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان پر کیا گزری

اس واقعے کے ہزاروں سال بعد مجھے پراسرار قسم کے خوابوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا

جہاں پر مجھے دکھایا جاتا تھا کہ بادشاہ کا خزانہ خطرے میں ہے

تم نے وہ دیکھ لیا ہوگا کہ جادوگر شاہ کال کے مرنے کے بعد اس کی بری روح یعنی اس کا بھوت اس خزانے کو حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہو چکا تھا

اور یہ بات تو ہمارے خاندان میں نسل در نسل ہم تک منتقل ہوتی آرہی تھی کہ ہمیں کسی بھی طرح راجہ صاحب کے خزانے کی حفاظت کرنی ہے

اور اسے کسی بھی غلط ہاتھ میں نہیں لگنے دینا ہے

جب میرے خوابوں میں مجھے یہ بات بتائی گئی تو میں نے تمہارے لیے اپنی یہ ڈائری ترتیب دی

تاکہ اس خزانے کو بچانے کے مشن میں اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم میری جگہ پر یہ اہم فریضہ سرانجام دے سکو

ہوسکتا ہے جب یہ ڈائری تم تک پہنچے تو میں زندہ ہوں یا نہ ہوں

لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں تمہارے پاس موجود نہیں ہوں گا

اس لیے اب یہ تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ تم کس طرح سے اس خزانے کو محفوظ کرتی ہو

میں خدا کے حضور یہ دعا ضرور کروں گا کہ اس مشکل کام میں وہ تمہیں جان نثار کرنے والے ہمسفر ضرور عطا فرمائے جیسے کہ اسلم کو اس کے تین جانثار دوست ادا کیے تھے۔۔

اپنا خیال رکھنا میری بچی فی امان اللہ۔

اتنے میں سویرا کے ابو کی آواز آنا بند ہوگی

ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ سویرا کی آنکھ کھل گئی

آنکھ کھلتے ہیں جو منظر دیکھا اس سے سویرا پریشان ہو گیی

کیونکہ کتاب کی جگہ اس کی جھولی میں راکھ کا ڈھیر پڑا ہوا تھا

سویرا سمجھ چکی تھی کہ اس کتاب کی کہانی اور اس کا کام اب ختم ہو چکا ہے

اب اسے اپنے باپ کے ادھورے رہ گئے کام کو پورا کرنا ہے اور راجہ صاحب ان کے مشیر اور باقی گاؤں والوں کے حالات جاننے تھے۔

اللہ کا نام لے کر وہ بستر سے اٹھی اور وضو کرکے تہجد پڑھنے بیٹھ گئی

کیونکہ فجر کی اذان میں ابھی کافی وقت تھا۔

کتاب کی کہانی ختم ہو چکی تھی

سویرا بستر پر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ کاش وہ اپنے باپ سے یہ پوچھ سکتی کہ آیا کہ وہ زندہ ہے یا ان کی موت ہوچکی ہے

اور یہ بھی کہ سرمد کی موت کس طرح ہوئی

اکرم کون ہے اور میرے بارے میں سب کچھ کیسے جانتا ہے۔

لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ کتاب صرف اور صرف ایک یاداشت تھی جو کہ اس کے ابو نے اس کے لئے تخلیق کی تھی

وہ کسی قسم کا سوال جواب نہیں کرسکتی تھی۔

وہ بستر سے اٹھی اور کالج کے لئے تیار ہونے لگیں کیونکہ سات بج چکے تھے۔

سویرا بیٹا میں حیران ہوں کہ آج تم نے فجر کی نماز ہی نہیں پڑھی۔

اس کی امی نے ناشتے کی ٹیبل پر اس سے پوچھا

وہ دراصل امی آج میری آنکھ نہیں کھل سکی جب اٹھیں تو سورج سر پر تھا۔

چلو کوئی بات نہیں اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے۔

اس نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور کالج چلی گئی۔

کلاس روم میں داخل ہوتے اس نے دیکھا کہ منیر اقبال اور اریبااپنے نئے دوست اکرم کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

سویرا کو آتا دیکھ کر اریبہ چہک کر بولی کہ آجاؤ سویرا تمہارا ہی انتظار تھا۔۔

اکرم نے ہم پر آج ایک نیا انکشاف کیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ یہ جادوگر کا خزانہ والی کتاب اس نے ہی لکھی ہے۔۔۔

کیا یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔؟

سویرا پر تو جیسے حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

ہاں میں سچ کہہ رہی ہوں میں ہم کب سے اکرم سند کر رہے ہیں کہ تم اتنی ہزاروں سال پرانی بات کا علم کیسے ہوا

اور اس جادوگر کی روح کے بارے میں تمہیں کیسے پتہ چلا

لیکن یہ بتانے کو تیار ہی نہیں ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں سب سے پہلے اس بارے میں سویرا سے بات کرنا چاہوں گا۔۔۔

سویرا نے تصدیق کے لیے اکرم کی طرف دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

اکرم کرسی سے اٹھا اور سویرا کو مخاطب کرتے ہوئے بولا گے او پارک میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

وہ دونوں باقی تینوں کو حیران و پریشان چھوڑکر کالج کے پارک میں چلے گئے۔

تو مس سویرا۔

اسلم اور اس کے باقی ساتھیوں کا تو آپ نے جان لیا لیکن کیا آپ یہ نہیں جاننا چاہیں گی کہ راجہ صاحب

مشیر خاص ہارون اور باقی گاؤں والوں کے ساتھ کیا بیتی۔

سویرا جو کہ پہلے ہی سمجھ چکی تھی کہ اکرم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اس لیے اسے زیادہ حیرانگی نہیں ہوئی۔

اچھا تو باقی کہانی آپ میری زبانی سنیے

اکرم روانگی میں بولتا چلا گیا۔

اسلم اور اس کے ساتھیوں کے چلے جانے کے بعد۔راجہ صاحب اور باقی سارا کارواں جنگل کے اندر داخل ہوگیا

وہ چاہتے تھے کہ جنگل کو پار کر کے کسی ایسے علاقے میں پناہ گزین ہو جائیں جہاں انہیں دین حق کے مطابق زندگی گزارنے پر کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے

ابھی آدھا جنگل ہی پار کیا تھا کہ بجلی کی کڑک کڑاہٹ اور اور گرج چمک کے ساتھ عجیب طوفانی بارش نے انہیں آلیا۔

بجلی کی چم کتنی دیر تھی کہ آنکھیں جودھا جاتی تھی

ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے اس طوفان سے کہا پر پناہ حاصل کریں

کیونکہ وہ عجیب بارش تھی جو جنگل کے درختوں کو چیرتی ہوئی ان پر برس رہی تھی

راجہ صاحب اور گاؤں کے سردار کو اسلم نے بہت سارے مقدس کلمات اور صحیفے زبانی یاد کرا دیے تھے

انھوں نے ان کلمات کا اونچی زبان میں ورد کرنا شروع کردیا

ان کی زبان سے کلمات کا جاری ہونا تھا کہ آہستہ آہستہ بارش رکھنا شروع ہوگی

اور کچھ ہی دیر میں آسمان بالکل صاف تھا

جیسے کبھی یہاں بادل آئے ہیں نہ ہو۔

سورج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو چکا تھا

تھوڑا اور آگے چلنے کے بعد پہاڑی غار نظر آنا شروع ہو گئی جو کہ جنگل کے بیچوں بیچ تھیں

وہ ان غاروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک گاؤں والے کی چیخ و پکار سے سب لرز کر رہ گئے

جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی ان دیکھا وجود اس گاؤں والے کے جسم کے پرزے پرزے کئے جارہا ہے

اس کی چیخوں سے سارا جنگل گونج رہا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں وہاں پر اس گاؤں والے کی بجائے اس کے جسم کے پردے پڑے ہوئے تھے

سب لوگ تھر تھر کانپ رہے تھے

کسی نے دیکھا نہیں کے یہ سب کیسے ہوا ہے

راجہ صاحب سب سے مخاطب ہوئے

جی حضور میں نے دیکھا ہے

ایک گاؤں والا بول پڑا

یہ شخص میرا بھائی تھا ہم دونوں کارواں سے تھوڑا پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں غار کے سامنے سونے کے کچھ زیورات پڑے ہوئے نظر آئے

وہ کہنے لگا کے چلو انہیں حاصل کرلی اپنا مال تو ہم گاؤں میں ہی چھوڑ آئے ہیں

میں نے اسے بہت معنیٰ کیا کہ ہمیں کسی کی چیز کو نہیں لینا چاہیے لیکن وہ میری بات نہ مانا اور جلدی سے آگے بڑھ کر جھپٹ کر وہ زیورات اٹھا لیے۔

اس کاظم رات کو چھونا تھا کہ اس کی چیخ وپکار دیکھ کر میں بھی ٹھٹک کر رک گیا

کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہیولا سا اچانک ہوا میں نمودار ہوا ہاتھ میں اس نے خنجر پکڑا ہوا تھا

اس نے پے در پے وار کرنے شروع کر دیے اور اس کے جسم کو کاٹنا شروع کر دیا

اس ہیولے کا حلیہ کیسا تھا

راجہ صاحب نے دریافت کیا

اس نے جنگی سوٹ پہنا ہوا تھا اور سفید بال تھے تھے اور لمبی لمبی داڑھی بھی تھی

راجا صاحب فورا سمجھ گئے ہو نہ ہو یہ سب جادوگر شاہ کال کی روح کی کارستانی ہے۔

اس سب کو کہا کہ ہمیں جلدی جلدی جنگل سے نکل جانا چاہیے

ایک بدروح ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

راجہ صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ گاؤں کے لوگ جوکہ کافی توہم پرست اور ڈرپوک تھے

ان میں بھگدڑ مچنا شروع ہوگی

کیونکہ وہ نئے نئے ایمان لائے تھے اس لیے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ خدا کی طاقت کے آگے سب کچھ بے بس ہے

خیر وہ سب لوگ دم دبا کر جنگل سے بھاگ گئے اور جنگل کے سردار کو بھی ان کے ساتھ ہی چاروناچار جانا پڑا۔۔

راجہ صاحب ہارون سے بولے کہ میرا خیال ہے ہمیں یہیں پر رک جانا چاہیے

اس گاؤں والے کا قتل جادوگر شاہکار کی روح نے کیا ہے

ہمیں یہی اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لینا چاہیے

تاکہ ہم بھولے بھٹکے لوگوں کو شاکال کے شیطانی شکنجے سے بچا سکیں

مشیر خاص ہارون کو راجہ صاحب کی یہ ترکیب بہت پسند آئی چناچہ انہوں نے وہیں پے جو مری بنالیں اور جنگل میں اپنا گزر بسر کرنے لگے۔

تم حیران ہو رہی ہوگی کہ میں ان سب باتوں کے بارے میں تمہیں ایسے بتا رہا ہوں جیسے یہ سب میں نے آنکھوں دیکھا ہو

تمہاری معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کے میں راجہ صاحب اور مشیر خاص ہارون دونوں کی نسل میں سے ہوں

چونکہ وہاں آباد ہوگئے تھے اور وہیں پر جنگلی قبیلے کی دو عورتوں سے ان دونوں نے نکاح کیا

راجہ صاحب کے بیٹے سے مشیر خاص ہارون کی بیٹی کی شادی ہو گئی

جس طرح ان دونوں نسلوں کا ملاپ ہو گیا اور میں اسی ملی ہوئی نسل میں سے ہوں

جس طرح تمہارے والد نے تمہارے لئے کتاب میں سب کچھ محفوظ کر لیا تھا

اسی طرح میرے ساتھ سال کی ہونے پر ہی مجھے ان سب کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا

اس کے بعد سے ہی میں نے اپنے اس فرض کو اپنا جنون بناکر کر بہت ساری معلومات حاصل کی۔

مجھے پتا چلا کہ تم اسلم کی نسل میں سے ہو اور تمہیں 18 سال کے بعد اپنے فرائض سے آگاہی دلائی جائے گی۔۔

اس لئے میں تمہارے 18 سال کا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

اس وقت تک میں نے ایک اور بہت اہم کام سرانجام دیا

مجھے مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ جادوگر شاہکار کی روح صرف ان لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے جو کہ اس کے پیدا کیے ہوئے چھلاوے میں آ سکتے ہیں

مطلب اس کی پھینکی ہوئی کسی چیز یا زیور کو چھو لیتے ہیں

ورنہ سے کال کیوں اتنی کمزور ہے کہ کسی کو چھو بھی نہیں سکتی کیونکہ اس کی موت اسلم کی مقدس تلواریں تھی جس وجہ سے اس کی ساری طاقتیں زائل ہوگئی تھی

اور ایک حیرت انگیز انکشاف کرنے جا رہا ہوں کہ تمہارے دوست اقبال منیر اور اریبا اسلم کے تین ساتھیوں کی نسلوں میں سے ہیں

میانہ ڈھونڈنا چاہتا تھا اس لیے تقریبا چھ مہینے پہلے میں نے ایک بہت ہی مشکل عمل کرکے استخارہ کیا

جس پر مجھے ان تینوں کی شکلیں دکھا دی گئی

قدرت کا حسین اتفاق تو دیکھو کہ

اتنے ہزار سال گزگزر جانے کے بعد سویرا کا ذہن کشمکش کا شکار تھا

وہ اپنے فرائض کے انجام دہی کے لیے خود کی جان تو خطرے میں ڈال سکتی تھی

لیکن اپنے دوستوں کو اصل بات بنا بتائے ان کو کیسے اتنے دشوار گزار سفر کے لئے لے کر جا سکتی تھی

جبکہ وہ یہ بات بھی جانتی تھی کہ یہ ایسا سفر ہوگا جس سے زندہ واپس لوٹنا تقریبا ناممکن ہوگا۔۔

خیر سویرا اور اکرم پارک سے اٹھ کر واپس کلاس روم میں چلے گئے

جہاں کے باقی دوست ان کے منتظر تھے۔۔

سویرا کو اندر آتا دیکھ کر اریبہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی

اتنا وقت کیوں لگا دیا تھا میرا کیا راز و نیاز کی باتیں ہو رہی تھیں

اریبا روایتی انداز سے چہکتے ہوئے بولی

سویرا جو کہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچ کر ہی پریشان ہو رہی تھی اس لیے اس نے اریبہ کو ڈانٹ دیا

کبھی زندگی کو سیریس بھی لے لیا کرو اریبہ

تم ہر وقت مذاق ہی کرتی رہتی ہو

کہیں ایسا نہ ہو تمہاری زندگی ہی مذاق بن کر رہ جائے

اریبہ حیران ہو گی کیونکہ اس نے سویرہ کو اتنے غصہ میں کبھی نہ دیکھا تھا

یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے سویرا منیر بولا۔

تم نے اس طرح اسے میں ہم سے کبھی بھی بات نہیں کی۔

ضروراس اکرم نے کوئی جادو کر دیا ہے اس پر۔۔ اقبال بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالے بھی نہ رہ سکا

اریبہ جوکہ سویرا کے اس طرح برتاؤ پر شدید رنجیدہ تھی کچھ بولنا سکی اور پاؤں پٹختی ہوئی کلاس روم سے باہر چلی گئی۔

سویرا کو اب افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی بیسٹ فرینڈ کو بلاوجہ ہی ڈانٹ دیا

وہ بھی پیچھے پیچھے اس کو منانے کے لیے دوڑی۔۔

اریبا دوڑتی ہوئی لائبریری میں داخل ہوچکی تھی

سویرا بھی اس کے پیچھے پیچھے لگ رہی میں چلی گئی تو اس نے دیکھا کہ اریبا ایک جگہ پر بیٹھی آنسو بہا رہی ہے

وہ اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور کان پکڑ کر معافی مانگنے لگی

اریب دراصل مجھے ایک بات نہیں پریشان کر دیا تھا

جس وجہ سے میں نے اپنا سارا غصہ تم پر نکال دیا

خدا کے لئے مجھے معاف کر دو اور چپ ہو جاؤ۔

سویرا کی آنکھوں میں بھی آنسو جھلملا رہے تھے

اریبہ نے جب دیکھا کہ سویرا بھی اس کے ساتھ آنسو بہانا شروع ہوگئی ہے تو اس نے نے اسے معاف کر دیا۔

اور بولے گی تمہیں ایک شرط پر معاف کرو گی۔

وہ کیا ۔سویرا حیران ہوتے ہوئے بولی

کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اریبہ کا موڈ جیسا بھی ہو اسے کوئی نہ کوئی شرارت ضرور سوچ جاتی ہے۔

وہ یہ کہ تمہیں سب کلاس والوں کے سامنے کہنا پڑے گا

آئی ایم ایڈیٹ۔۔

اچھا تمہاری خوشی کے لئے میں یہ بھی کر لوں گی

اگر تمہیں مجھے بےحد کروا کر خوشی ملتی ہے تو یہی سہی سویرا مطمئن ہوتے والی۔۔

ارے نہیں نہیں میں تو تم سے مذاق کر رہی تھی

اریبا بھی جذباتی ہو کے بولی اور سویرا کو گلے لگا لیا

چلو اب کلاس روم میں چلتے ہیں مجھے تم سب کو ایک بہت اہم بات بتانی ہے۔

وہ دونوں اپنے باقی دوستوں کے پاس کلاس روم میں آگئیں

اکرم مجھے معاف کرنا میں اپنے دوستوں سے اتنی بڑی حقیقت نہیں چھپا سکتی

اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے میں ان سب کی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی

ہمیں انہیں سب کچھ سچ سچ بتانا پڑے گا اس کے بعد یہ ان پر ہے کہ وہ اس کام میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں

سویرا اکرم کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔۔۔

یہ تم کس بات کے بارے میں بات کر رہے ہو

اقبال اور منیر جلدی سے بولے

مجھے تم سے یہی امید تھی سویرا اکرم خوش ہوتے ہوئے بولا

میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ اسلم کی نسل اسی کی طرح راستباز اور صاف گو ہے یا نہیں

اس لئے میں نے تمہیں اپنے دوستوں کو یہ سب بتانے سے منع کیا تھا

خیر اب ہمیں انہیں سب کچھ صاف صاف بتا دینا چاہیے تاکہ ان کا تجسس بھی ختم ہوجائے

اریبا نے سب کو اپنے گھر پر اکٹھا ہونے کے لئے کہا

اور اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کالج سے گھر کی طرف نکل پڑیں کیونکہ اسے اپنے دوستوں کے لیے کھانا وغیرہ تیار کرنا تھا

شام کو سب لوگ اریبہ کے گھر پر جمع تھے

وہ سب سویرا کا انتظار کر رہے تھے جو کہ ابھی نہیں پہنچی تھی

وہ بھی کھانا کھانے میں مصروف تھے اتنے میں ڈور بل بجی اریبہ بھاگ کے گئی اور دروازہ کھولا سامنے سویرا کو دیکھ کر اس کی بانچھیں کھل گئیں

تم لیٹ لطیف کب سے بن گئیں

اریب مسکراتے ہوئے بولی

بس امی سے اجازت لیتے لیتے دیر ہو گئی

سویرا اندر داخل ہوتے ہوئے بولی..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سویرا نے سب کچھ اپنے دوستوں کو سچ سچ بتا دیا تھا

اسلم اس کے ساتھیوں راجہ گاؤں والوں کی کہانی

بعد میں ہونے والے واقعات جادوگر کی شر انگیزیاں

اور ان سب کے اسلام اور اس کے ساتھیوں سے تعلق کے بارے میں

سب بتانے کے بعد سویرا بولی کے اب یہ تم لوگوں پر ہے کہ تم اس سفر میں ہمارا ساتھ دیتے ہو یا نہیں

لیکن میں آپ کا ارادہ کر چکی ہوں کہ اس جادوگر کی روح کو فنا کرکے اس خزانے کو ہمیشہ کے لئے تلف کرنے کے سفر میں اکرم کے ساتھ دونگی

کیونکہ وہ جادوگر اگر خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو بھی دنیا کے لیے تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا

اور اگر وہ کامیاب نہ بھی ہوا تو بھی وہ لوگوں کو خزانے کی طرف مائل کر کے ان کی موت کا سبب بنتا رہے گا۔

اس لیے ہمیں ہر حالت میں جادوگر کے بھوت کا خاتمہ کرنا ہی پڑے گا۔

ویسے یہ تم نے کیسے سوچ لیا کہ اس سفر میں ہم تمہارا ساتھ نہیں دیں گے اقبال بولا

میں مانتا ہوں کہ ہم شرارتیں کرتے ہیں اور اس سے کبھی کبھار کسی کو نقصان بھی ہو جاتا ہے

لیکن ہم اتنے برے نہیں کہ ہزاروں سال سے چلے آرہے اپنی نسل کے ایک اہم فریضہ سے منہ موڑ لیں

ہم دونوں بھی اس مشن میں تمہارے ساتھ ضرور چلیں گے

ان دونوں کا جواب جان لینے کے بعد سویرا کا منہ اریبہ کی طرف مڑ گیا

وہ منتظر تھی کہ اریبہ آخر کیا فیصلہ لیتی ہے

ایسا کبھی ہوا ہے کہ تم تینوں نے کوئی پلین بنایا ہو اور میں نے تمہارا ساتھ نہ دیا

نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا

اریبہ کے اس جملے نے سویرہ اور باقی سب کو ان کے سوال کا جواب دے دیا تھا

ہم سب متفق ہوگئے ہیں کہ ہمیں ایک ساتھ جادوگر کے خاتمے کے لیے نکلنا ہے

اب ہمیں دو بہت اہم کام سرانجام دینے ہیں۔

اکرم ان سب کو سمجھاتے ہوئے بولا

پہلا کام تو یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے گھر والوں سے اجازت لینی ہے

یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے ہم گھر والوں کو یہ کہہ دیں گے کہ پندرہ بیس دن کے لیے کالج کے ٹور پر جا رہے ہیں

منیر ایک دم بول پڑا

ہاں یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے اکرم منیر کو داد دیتے ہوئے بولا

اور دوسرا اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہمیں مکمل تیاری بھی کرنی ہے

میں تم سب کو کچھ ضروری سامان کی لسٹ بنا دیتا ہوں جو تم سب نے اکٹھا کرکے اپنے اپنے بیگ میں ڈال لینا ہے

اور سب سے اہم اور ضروری بات تو میں تمہیں بتانا بھول ہی گیا

سفر کے دوران ان یا کہیں پر بھی ہم سب میں سے کسی کو بھی سونے چاندی اور ہیرے سے بنی ہوئی کوئی چیز یا زیور نظر آئے

تو ہم میں سے کسی نے بھی اسے قطعی چھونا نہیں ہے

اسے چھوتے ہیں ہم جادوگر کے چڑھاوے کا شکار ہو جائیں گے اور وہ ہمارے ساتھ کچھ بھی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب زروری باتیں طے کرنے کے بعد وہ سب اپنے اپنے گھروں کی طرف نکل پڑے

کیونکہ ان سب کو کافی تیاریاں کرنی تھی اور گھر سے اجازت بھی لینی تھی۔۔۔۔

گھر آتے ہی سویرا نے اپنی امی اور دادی کوکہا کہ پلیز آپ میرے کمرے میں آ جائے مجھے آپ دونوں سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔

اس کی امی اور دادی حیران و پریشان اس کے کمرے میں اس کے پاس آکر بیٹھ گئی

خیریت تو ہے بیٹا تم ایسی کونسی بات کرنی چاہتی ہوں جس کے لیے ہم دونوں کو یہاں پر بلانا پڑا

دادی اور امی میری بات کو دل تھام کر سنیے گا

ابو نے جو میرے لئے کتاب چھوڑی تھی مجھے اس کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوچکا ہے اور میں جو میں آپ دونوں کو بتا دینا ضروری سمجھتی ہوں

سویرا نے شروع سے لے کر آخر تک ساری داستان اپنی دادی اور ماں کے گوش گزار کر دی

اور پھر بولی کے ہم سب کالج کے ٹور کا بہانہ کر کے جادوگر کے خاتمے کے لیے نکلنے والے تھے

لیکن میرے ضمیر نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اتنے پر خطر سفر پر آپ دونوں سے جھوٹ بول کر جاؤں

مجھے اس بات کا بھی ڈرتا کہ آپ مجھے اس آفر کے لیے روک نہ لیں

لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو مطمئن کر لیا کہآپ دونوں سمجھیں گی کہ اگر ایک جان گنوا کر پوری دنیا کی جان بچائی جا سکے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے

اس کے علاوہ مجھے اپنے ابو کے بارے میں بھی حقیقت پتا کرنی ہے کہ آیا کہ وہ زندہ ہں یا اس جادوگر نے انہیں مار دیا ہے

سویرا کی آنکھوں سے آنسو اس کی امی نے پہنچے اور اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے بولی کے مجھے تم پر ناز ہے میری بیٹی

تمہارے ابو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میری بیٹی میرا نام ضرور روشن کرے گی

اس لئے میں تم باپ بیٹی کے بیچ میں آنے والی کون ہوتی ہوں تم بخوشی اپنے سفر پر نکلو میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں

سویرا نے نظریں چراتے ہوئے دادی کی طرف دیکھا تو وہ بھیگی آنکھوں سے بولیں

سویرا بیٹا تم نے بالکل صحیح فیصلہ لیا ہے

اور ہاں اگر میرا بیٹا زندہ نہ بھی ہوا توتمہیں اس کی لاش کو واپس یہاں پر لانا ہے تاکہ ہم اسے اسلامی طریقے کے مطابق دفن کر سکیں

یہ کہتے ہوئے دادی جان کی ہچکی بندھ گئی

سویرا کو دادی جان اور اس کی امی نے گلے سے لگا لیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب ضروری تیاری کرنے اور اپنے گھر سے اجازت لے کر شب دوست اکرم کے فام ہاؤس میں جمع ہوگی جو کہ اکرم کے جنگلی قبیلے اور شہری آبادی کے بیچوں بیچ تھا۔

فام ہاؤس تک پہنچتے ہوئے سب کا برا حال ہو چکا تھا اس لئے سب نہا دھو کر فریش ہو گئے

فریش ہونے کے بعد سب لوگ ڈرائنگ روم میں اکٹھے ہو گئے

اچھا تو اس سلسلے میں ہمارا سب سے پہلا قدم کیا ہونا چاہیے سویرا نے اکرم سے پوچھا

اکرم کچھ سوچتے ہوئے بولا کہ ہمیں سب سے پہلے اس خزانے کی اصل جگہ معلوم کرنی ہوگی

میں نے اور تم نے تو کتاب کے ذریعے وہ جگہ اچھی طرح دیکھی ہوئی ہے لیکن کتاب کے وہ سب مناظر ہزاروں سال پرانے ہیں

اتنے وقت میں زمین کے خدوخال اور راستوں میں یکسر تبدیلیاں رونما ہو چکی ہوگی

اس لئے ہمیں ایک نقشہ بنوانا پڑے گا

لیکن وہ نقشہ بنائے گا کون اس بات کو تو صدیاں بیت چکی ہیں

اور آج کے دور میں تو کوئی اس بات کو مانتا تک نہیں

تو پھر ایسا کون انسان ہے جو یہ نقشہ بنا سکے گا

اریبا حیران ہوتے ہوئے بولی

ایسا نقشہ کوئی انسان نہیں بنا سکتا اریبہ

وہ نقشہ ہمیں ایک چڑیل سے بنوانا پڑے گا

وہ بھی کوئی عام چڑیل نہیں

اس جنگل کی سب چڑیلوں کی رانی تین سروں والی شالا کہ چڑیل

یہ بات کہتے ہوئے اکرم کے چہرے پر پریشانی کی گہری لکیریں نمایاں ہو گئیں

چڑیل کا نام سن کر ہی اقبال اور منیر کے تو پسینے چھوٹ میں شروع ہوگئے

اریبہ کا بھی خوف برا حال ہوگیا

لیکن سویرا اپنی اسی حالت میں جو کی تو بیٹھی ہوئی تھی اکرم کو سویرا کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی

وہ بولا سویرا تم تو اپنے جدامجد اسلم جیسے ہی ہو

ڈر اور خوف کا تمہارے اندر شائبہ تک نہیں پایا جاتا

ایسی بات نہیں ہے اکرم

بات صرف اتنی ہے کہ جب ہم ایک مقدس مشن کے لئے نکل پڑے ہیں تو ہمیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھنی پڑے گی

اس لئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈر کر اپنا وقت برباد کرنا فضول ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم سب کو کچھ ضروری ہدایات دینے لگا

رات ہو چکی تھی اسلئے اکرم نے سب کو اپنے اپنے کمرے دکھا دیے

فارم ہاؤس ایک سنسان اور ویران سے علاقے میں تھا اس لیے رات کے وقت وہاں پر ایک عجیب طرح کا خوف سا محسوس ہوتا تھا

منیر اور اقبال کو روم شیئر کرنا پڑا تھا

جبکہ اریبا اور سویرا ایک کمرے میں تھی

اور اکرم حال میں سویا ہوا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منیر اور اقبال ایک عجیب سی دھند میں کھڑے تھے دور دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا اوپر سے پراسرار طرح کا سناٹا ماحول پر طاری تھا

ان دونوں دوستوں کا خوف کے مارے برا حال ہو رہا تھا

ایک دم ان کو اپنے پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دی

دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو نہ کچھ بھی نظر نہ آیا

کیونکہ دھند اتنی زیادہ تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ تک سجھائی نہیں دے رہا تھا

اس لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی کو دیکھ پاتے

اتنے میں فضا میں ایک زوردار دھماکہ ہوا۔

اور ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین پھٹنا شروع ہوگی

اور وہ زمین کے اندر گرتے ہی چلے گئے

اونچائی سے گرنے کی وجہ سے ان کی آنکھیں بند ہو گئی اور اپنے حواس گم ہوتے ہوئے محسوس ہوئے

جب دونوں ہوش میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے ہیں

اور ان دونوں کو ایک ہی سیدھ میں لٹایا گیا ہے

جب اقبال نے سامنے دیکھا تووہ کب کا پا کر رہ گیا اور اس نے منیر کو بھی اس طرف دیکھنے کو کہا۔

وہاں ایک سیاہ پوش بوڑھا کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی

تم دونوں مجھے ختم کرنے کے سفر پر نکلے ہو

تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ واپس لوٹ جاؤ ورنہ آگے تمہارے لیے صرف اور صرف موت ہے

دونوں ایک زبان ہو کر بولے کہ ہم کبھی بھی اس سفر سے واپسی کا راستہ اختیار نہیں کریں گے

اس بوڑھے کو غصہ آگیا اور اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور ان دونوں بھائیوں کے سروں کا نشانہ لے کر تلوار کا وار کر دیا

ڈر اور خوف کے مارے اقبال اور منیر کی ایک دہشتناک چیخ بلند ہوئی

اس کے ساتھ ہی ان دونوں کی آنکھ کھل گئی

منیر کیا ہم خواب دیکھ رہے تھے؟

لگتا تو ایسے ہی ہے یار اقبال۔

لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم دونوں کو ایک ہی خواب دکھائی دے

چیخ کی آواز سن کر اریبہ سویرا اور اکرم ان کے کمرے میں آگئے اور پوچھا کیا ہوا تم دونوں اس قدر بھیانک انداز سے چیخ کیوں رہے تھے

جواب میں اقبال اور منیر نے اپنے خواب کے بارے میں انہیں بتایا

اوہ تو یہ اس جادوگر شاہ کال کا پہلا حملہ تھا

وہ ہم سب کی نفسیات سے کھیلنا چاہ رہا ہے ۔۔

ہم سب کو اپنے اعصاب پر مکمل طور پر قابو رکھنا ہے

کیونکہ جادوگر شا کال کا پہلا حملہ ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر دینا ہے کیونکہ ابھی وہ جسمانی طور پر ہمارا کوئی نقصان نہیں کر سکتا

اکرم سب کو سمجھاتے ہوئے بولا۔۔۔

اچھا اب تم سب سو جاؤ صبح فجر کی نماز کے بعد ہمیں چڑیل کے ٹکانے پر جاکر اپنا مقصد حاصل کرنا ہے۔۔

اس کے بعد اکرم اور سویرا نے آپس میں مل کر ایک پلان بنایا اور باقی سب کو اس کے بارے میں سمجھا دیا

فجر کے وقت سب نے نماز ادا کی اور خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا کی کہ یا اللہ ہمیں اپنے مقصد کو پورا کرنے کی طاقت اور ہمت عطا فرما۔

جلدی جلدی ناشتہ کر کے وہ ضروری سامان لے کر فارم ہاؤس سے جنگل میں داخل ہوگئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم ان سب کے آگے آگے چل رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شالا کا چڑیل کس طرف رہتی ہے

باقی سب اکرم کی پیروی میں نہایت محتاط انداز سے چلے جارہے تھے۔۔

تھوڑی دیر چلنے کے بعد سب کو اچانک رکنا پڑا

کیونکہ اریبا جو کہ تھوڑی آہستہ روی سے چل رہی تھی اور باقی سب سے نسبتا پیچھے تھی

اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیکھی بلند ہونے لگیں

سب نے حیران ہو کر پلٹ کر دیکھا تو قریب اپنی جگہ پر بت بنی کھڑی تھی اور آہستہ آہستہ چیخ رہی تھی

سویرا نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ کردیا۔۔

اس کے کندھے پر دو بچھو بیٹھے آپس میں لڑ رہے تھے۔

اکرم جلدی سے آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی سے ان بچھوؤں کو زمین پر گرا دیا

اریب اگر تم پانچ منٹ اور یہاں کھڑی رہتی تو ان میں سے کوئی ایک بچھو ضرور تمہیں ڈنگ مار دیتا

یہ کوئی عام بچھو نہیں تھے جو کہ تمہارے ساکن کھڑے ہونے سے خود بخود نیچے اتر جاتے

یہ جو آپس میں لڑ رہے تھے ان میں سے جو بھی جیتا وہ تمہیں اپنے ڈنگ سے ڈس لیتا

اور کچھ ہی لمحوں میں تمہاری موت ہوجاتی۔۔۔

یہ بات سن کر اقبال اور منیر کو جھرجھری سی آگئی ۔۔

چلو جلدی سے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے

اکرم کی یہ کہنے پر میں دوبارہ جنگل میں آگے بڑھنا شروع ہوگئے

کافی آگے جانے کے بعد جنگل میں تاڑ کے درختوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ شروع ہوگیا۔۔

ان درختوں پر سونے پر سہاگا یہ کہ ایسی بیلیں لٹک رہی تھیں جن کے پتے بہت بڑے تھے اور انہوں نےسورج کی باقی ماندہ زمین پر آنے والی روشنی کا رابطہ بھی روکا ہوا تھا ۔۔

جہاں تک نگاہ جا رہی تھی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا

ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو تاکہ ہم ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں

سویرا ہانپتے ہوئے سب سے بولی

کیونکہ وہ کافی دیر سے پیدل چل رہے تھے اس لئے سب تھک چکے تھے

اکرم اور سویرا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ابھی کتنا اور چلنا پڑے گا۔

چلتے چلتے اریبہ اور منیر زمین پر بیٹھ گئے اور ہانپتے ہوئے بولی کہ ابھی ہمیں تھوڑا آرام کرنا چاہیے

ہم سے ابھی اور نہیں چلا جائے گا

اقبال نے بھی ان کی پیروی کی اور زمین پر پالتی مار کر بیٹھ گیا

سویرا اور اکرم کو بھی ان کا ساتھ دینا پڑا

ابھی وہ بیٹھ کر اپنا سانس بھی درست نہیں کر پائے تھے کہ ایک دم انکے اوپر ایک بہت بڑا ا جال آ کر گرا

سب بدحواس ہو گئے

اس اچانک افتاد سے ابھی وہ خود کو سنبھال بھی نہیں پائے تھے کہ سرمئی رنگ کے ایک عجیب سے نشیلے دھوئیں نے ان سب کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا

دیکھتے ہی دیکھتے سب ہوش حواس سے بیگانہ ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سویرا کی جب آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک درخت کے ساتھ مضبوطی سے بندھا ہوا پایا۔۔

اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو اس کے قریب ہی درختوں پر اس کے باقی دوست اسی حالت میں بندھے ہوئے تھے

تھوڑی دیر بعد باقی سب کو بھی ہوش آنا شروع ہوگیا۔

اکرم اور سوزانے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو کچھ اشارے کیے

سویرا کے چہرے پر پریسرار سے مسکراہٹ رقص کر رہی تھی

تھوڑی دیر کے بعد ان سب کے سامنے آگ کا ایک الاؤ خود بخود روشن ہونا شروع ہوگیا۔۔۔

پھر فضا میں سے چنگاریاں پھوٹنے شروع ہوئی اور ان چنگاریوں میں سے عجیب و غریب مخلوق نمودار ہونا شروع ہوگئی

اکرم سب دوستوں سے بولا کہ یہ جنگل کی چڑیلیں ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب چڑیلوں نے آگ کے گرد رقص کرنا شروع کر دیا

اور عجیب و غریب و بے ہنگم طریقے سے گانے گانے لگیں

اریبہ نے خوف کی وجہ سے اپنی آنکھیں زور سے بند کر لیں

کیونکہ اس نے ایسی مخلوق زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی

اس کے ڈراونے ڈرامے خواب میں بھی کبھی اس نے ایسی چڑیل نہیں دیکھی تھی

اقبال اور منیر کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا وہ کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کر رہے تھے

گویا وہ سکتے کی کیفیت میں تھے۔۔

کچھ دیر چڑیلوں کا یہ عجیب وغریب رقص اور گانا جاری رہا

پھر تھوڑی دیر بعد آہستہ آہستہ ان کے رقص کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی

رقص مکمل طور پر بند ہو جانے کے بعد وہ سب ایک دم سے دائیں طرف رخ کرکے سجدے میں جھک گئیں

جیسے ہی سویرا اور باقی سب نے دائیں طرف دیکھا تو ایک لمحے کے لیے سویرا بھی خوف سے کانپ گئی

کیونکہ وہاں ایک تین سر والی انتہائی خوفناک اور بلند قامت چڑیل کھڑی ہوئی تھی

اس کے بدن سے انتہائی کراہت آمیز بدبو اٹھ رہی تھی۔

سب سمجھ گئے کہ یہی جنگل کے چڑیلوں کی رانی شہلا کا چڑیل ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چڑیل کی غراہٹ جیسی آواز فضا میں کڑک کر گونچی

اٹھ جاؤ میری وفادار ساتھیو

سجدے سے سر اٹھا لو

تم نے آج میرا دل خوش کردیا ہے

کتنی مدت سے میں نے انسانی گوشت کا مزا نہیں چکھا

اور نہ ہی انسانی خون پی پائی ہو ں

مدت ہوگی جانوروں کے گوشت سے گزارہ کرتے ہوئے

آج تم نے میری من پسند خوراک کا بندوبست کیا

وہ بھی ایک نہیں پورے 5.5

اب ایک ہفتے تک مجھے شکار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی

نہ جانے یہ مسافر کیسے تمھارے ہاتھوں آگئے

ورنہ وہ خبیث جادوگر تو یہاں داخل ہونے والے انسانوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے

مجھے ان کا خون اور گوشت نصیب ہی نہیں ہوتا

خیر تم سب نے بہت اچھا کام کیا ہے اب جلدی سے تیز دھار کے خنجر کا بندوبست کرو

سویرا اور اکرم چڑیل کی یہ باتیں سن کر من ہی من مسکرا رہے تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک چڑیل جلدی سے گئی اور ایک کٹیا میں سے بڑا سا کھنجر اٹھا کر لے آئی

چلو اب جلدی سے ان سب مسافروں کو زمین پر لٹا دو

اور ایک بڑے برتن کا بندوبست کرو

تاکہ ان سب کی گردنوں کو ان کے دھڑ سے الگ کرکے ان کا سارا خون محفوظ کر سکوں

بعد میں ان کے گوشت کو اسی آگ میں ڈھونڈ کر محفوظ کر لوں گی

شالا کا چڑیل اپنی غلاموں کو حکم دینے لگی

اس کے منہ سے لال ٹپک رہی تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان کا کچا ہی کھا جاتی

ہمیں کھا کر کیا کروں گی ہمارے جسم میں صرف ہڈیاں ہی خون اور ماس نہیں ہے

منیر جو کب سے خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے تھا ڈر کی وجہ سے پھٹ پڑا

چپ کرو اوئے خبیث انسان تمہیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی

اس آواز کے ساتھ ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز گونجی جو کہ منیر کے منہ پر چڑیل نے مارا تھا

منیر کے منہ پر پر ہاتھ کا نشان چھپ چکا تھا

اس کے بعد باقی سب میں سے کسی نے بولنے کی جرات نہیں کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم اور سویرا جو کہ پاس پاس بندھے ہوئے تھے وہ دھیرے دھیرے سے آپس میں گفتگو کر رہے تھے

تھوڑی دیر میں چڑیل ایک برتن لے کر آگئی

اکرم سویرا سمیت سب دوستوں کو زمین پر چت لٹا دیا گیا

سب سے پہلے کون موت کو گلے لگانا چاہے گا

شالا کا چڑیل قہقہے لگاتے ہوئے بولی

سویرا جلدی سے بول پڑی کی سب سے پہلے مجھے مارا جائے کیونکہ میں یہ نہیں دیکھتی کہ میرے سامنے میرے دوستوں کو قتل کیا جائے

واہ واہ ۔۔ کافی حوصلے والی لڑکی ہو

لیکن کیا فائدہ ایسے حوصلے گا کیونکہ ابھی تم صرف چند لمحوں کی مہمان ہو

لیکن تمھارے حوصلے کا چھوٹا سا انعام میں تمہیں دے ہی سکتی ہوں

مرنے سے پہلے تمہاری re ایک آخری خواہش پوری کر دیتی ہوں

جلدی جلدی بتاؤ تمہاری آخری خواہش کیا ہے ۔

شالا کا سویرا سے مخاطب تھی

سویراکچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی جیسے کہ وہ کسی گہری سوچ میں غرق ہو

میری آخری خواہش یہ ہے کہ مجھے اپنے بیگ میں سے کھانا نکال کر کھانے کی اجازت دی جائے

میری امی جان نے بہت پیار سے میرے ساتھ کھانا بنا کر بھیجا تھا

میں مرنے سے پہلے اسے کھانا چاہتی ہوں

سویرا سوچنے والے انداز میں پراسرار سے لہجے میں چڑیل سے بولی

چڑیل نے اونچی آواز میں ہنسنا شروع کر دیا جس سے پورا جنگل لرز کر رہ گیا

ہاہاہاہا‌‌

لگتا ہے موت کے خوف کی وجہ سے تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے

خیر میں تمہاری کی خواہش پوری کرے دیتی ہوں

اوئے نارنگی چڑیل

جلدی سے ادھر اور اس لڑکے کی رسی کھول دو اور اس کا بیگ بھی میرے پاس لے کر آؤ

شالا کا چڑیل کے حکم دینے پر نارنگی رنگ کی ایک چھوٹی سی چڑیل آگے آئیں جو کہ بالکل بونوں کی طرح تھی اس کا قد مشکل تین سے چار فٹ تھا

اس نے فوراً سے بھی پہلے سویرہ کی رسیاں کھول دیں

ان سب میں سے تمہارا سمان کونسا ہے نارنگی چڑیل سویرا سے بولی

اور سامان سے بھرے ہوئے تین چار بستوں کی طرف اشارہ کیا

جو کہ ان سب دوستوں کے بے ہوش ہونے پر چڑیلوں نے ان سے الگ کرکے رکھ لیے تھے

یہ لال والا میرا ہے

سویرا ایک بڑے سے بستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی

چلو یہ بستہ میرے پاس لے آؤ

شالا کا چڑیل جلدی سے بولی

نارنگی چڑیل بستہ لے کر شالا کا چڑیل کے پاس چلی گئی اور اس کے ہاتھوں میں تھما دیا

سویرا کے لبوں پر مسکراہٹ جاری ہونے لگی تھی

وہ اور اکرم اچھی طرح جانتے تھے کہ چڑیل کبھی بھی کسی پر یقین نہیں کرتی

سب سے پہلے میں اس بستے کو کھول کر دیکھوں گی کہ اس میں آخر کیا ہے

کہیں اس میں ہمیں ختم کرنے کے لیے تم نے کوئی ہتھیار نہ رکھ دیا ہو

شالا کہ چڑیل نے یہ کہتے ہوئے بستے کو کھولنا شروع کر دیا

بستے کا پوری طرح سے کھلنا تھا کہ شالا کا چڑیل کی درد اور کرب سے بھری ہوئی چیخوں نے جنگل کی خاموشی کو توڑ دیا چڑیل کی چیخیں سن کر سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے

وہ بہت کربناک انداز سے چیخ رہی تھی

کیونکہ بستے کو کھولتے ہی اس کے اوپر سفید رنگ کا جال گرا تھا

جالے پر بہت ساری گانٹھیں بندھی ہوئی تھی

ان گانٹھوں میں سے روشنی کی کرنیں نکل نکل کر چڑیل کے سارے وجود کو بجلی کے جھٹکے لگائے جا رہی تھی۔

سب چڑیلیں مل کرشلاکہ کے اوپر سے جال ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی

لیکن جو بھی جال کو چھوتی ایک جھٹکے کے ساتھ پیچھے جا گرتی۔

کافی دیر کی مشقت کے بعد سب چوڑیلیں تھک ہار کر بیٹھ گئی

کیونکہ اس جال کو توڑنا ان کے بس کی بات نہیں تھی

تین سروں والی شالا کہ چڑیل تو بے ہوش ہونے کے قریب تھی

آہستہ آہستہ اس کی چیخیں معدوم پڑنا شروع ہوگی اور وہ بے بسی اور عاجزی کی مورت بنکر سویرا کی طرف دیکھنے لگی

سویرا اونچی آواز میں اکرم سے مخاطب ہوئی

اکرم چوڑیل خود کو بہت سمجھدار سمجھ رہی تھی

اس نے یہ تک نہیں سوچا کہ ہم سب جنگل کے اس علاقے میں کیا کر رہے ہیں جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ یہاں چڑیلوں کا راج ہے

اور اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ ہم اس کے اسی علاقے کے قریب آرام کرنے کیوں بیٹھ گئے جہاں سے یہ لوگوں کو اپنا شکار بنا کر اغوا کر لیتی ہے

کسی نے سچ ہی کہا تھا چڑیلیں بہت بے وقوف ہوتی ہیں

یہ کہتے ہوئے اریبہ نے اپنے روایتی طریقے سے قہقہے لگانا شروع کر دیئے

ہاں یار میں تو خوامخواہ ڈر رہا تھا کہ ہمارا پلان کامیاب ہوتا ہے یا نہیں

کہیں ان کو بچانے کے چکر میں ہم خود ہی موت کے منہ میں نہ چلے جائیں۔

لیکن شکر ہے تمہارا پلین کام کر گیا اکرم۔

منیر خوش ہوتے ہوئے بولا

تم کیسے پلان کی باتیں کر رہے ہو

چڑیل کی کرب سے ڈوبی ہوئی آواز گونجی

تمہیں پھنسانے کا پلان شملا کو چڑیل۔۔اقبال نے چڑیل کو جواب دیا

شملا کو نہیں خبیث میرا نام شالا کا چڑیل ہے

چڑیل کی اس بات پر اریبہ کی ہنسی چھوٹ گئی

جان پر بنی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اپنا نام درست کرنے کی پڑی ہے

خیر تمہاری معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ ہم سب یہاں تمہیں پکڑنے کی غرض سے ہی آئے تھے

جس کے لیے ہم نے مکمل تیاری کر رکھی تھی

ہم سب جان بوجھ کر جنگل کے اس گھنے حصے میں آرام کرنے بیٹھے تھے کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ تم اسی علاقے سے انسانوں کا شکار کرتی ہو

اس کے علاوہ ہم نے اپنے سب بیگوں میں اسی طرح کے جال فٹ کیے ہوئے تھے

ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ تم تجسس کی ماری ہمارے سامان کی تلاشی ضرور لوں گی

لیکن تم نے ہماری امیدوں کے برعکس ایسا نہیں کیا بلکہ ہمیں مارنے کا حکم دے دیا

وہ تو خدا کی ذات کا کرم تھا کہ تم نے سمیرا کو مارنے سے پہلے اس کی آخری خواہش پوچھ لیں

اور صغیرہ نے جلدی جلدی اپنے ذہن میں پلان کا بیک اپ ترتیب دے لیا

اور تمہیں ہنسا دیا

اکرم چڑیل کو بتاتے ہوے بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ اس جال پر جو گانٹھیں بندھی ہوئی ہیں ان سب پر خدا کے پاک کلام کو پڑھ کر دم کیا گیا ہے

اس لیے تمھاری کوئی کالی طاقت تمہیں اس جال سے آزاد نہیں کرا سکے گی

تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہمیں جلدی سے رسیوں سے آزاد کردے

اس بار سویرا گونجدار آواز میں چڑیل سے مخاطب تھی

اپنی رانی چڑیل کو قید میں دیکھ کر باقی چڑیلیں بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی تھی

اس لیے انہوں نے جھٹ سے سب کی رسی کھول دیں

تم مجھے قابو کرنا چاہ رہے ہو

آخر ایسی کیا وجہ ہے جو تم نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کے مجھ جیسی طاقتور چوڑیل کو اپنے بس میں کرنے کی کوشش کی

شالا کا چڑیل بےبسی سے کسمساتے ہوئے بولی

ہم تم سے جادوگر شکال کے خزانے

نہیں نہیں ۔ راجا کے اس خزانے کا موجودہ نقشہ بنوانا چاہتے ہیں

جس پر جادوگر شاہ کال قبضہ کرنا چاہتا ہے

اور اس کی تلاش میں نکلے لوگوں کو یا اس علاقے میں داخل ہو جانے والے لوگوں کو اپنے سونے کا لالچ دے کر جان سے مار دیتا ہے اکرم بولا۔

میں تمہیں ہرگز وہ نقشہ نہیں بنا کے دوگی ورنہ جادوگر شاہ کال میرے دونوں سر کاٹ دے گا

اور میری ساری جادوئی طاقتیں ختم ہو جائیگی

اپنےدو سروں کے بغیر ایک سر کے ساتھ جینا مجھے منظور نہیں ہے

چڑیل روانی میں کہتی چلی گئیں

جان سے ہاتھ دھونے سے اچھا ہے کہ تم ایک سر کے ساتھ جیتی رہو

اقبال نے کہا۔۔

چڑیل جو کافی دیر سے کچھ سوچنے کی کوشش کر رہی تھی اس کے شیطانی دماغ میں ایک آئیڈیا آیا

او میری غلام چڑیلو

تم سب مل کر اس جالے کی ایک ایک گانٹھ کھولتی چلی جاؤ

گانٹھ کھولنے پر تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا لیکن تم فکر نہ کرنامیں آزاد ہوتے ہی اپنی کالی طاقتوں کی مدد سے تمہیں دوبارہ زندہ کر دوں گی

شالا کا چوڑیل چلاتی ہوئی اپنی غلام چڑیلوں کو حکم دینے لگی۔

اس حکم کا اصل نہ تھا کہ سب چڑیلوں نے جا لے پر ہلہ بول دیا

ایک ایک چڑیل جالے کے قریب جاتی اور اس کی گانٹھ کھولتے ساتھ ہی اس کی دردناک چیخیں فضا میں بلند ہوتی اور وہ دھوئیں میں تحلیل ہو جاتی

اسی طرح سب چڑیلیں جالے کی گانٹھوں کو کھولتے کھولتی فنا ہوگئیں

اریبہ نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا

اوئے شیطان کی نانی چڑیل

ہم اس بارے میں بھی آگاہی رکھتے تھے کہ تم سو چڑیلوں کا ٹولہ ہو

تم سب کی رانی ہو اور باقی ننانوے تمہاری غلام ہیں

اس لئے ہم نے ہر جال پر 101 گانٹھیں باندھی تھی

تمہاری سب چڑیلیں تو جالے سے تمہیں آزاد کرنے کی کوشش میں ختم ہوگئیں

لیکن ابھی بھی دو گانٹھیں باقی ہیں

جن کو کھولے بنا تم کبھی بھی اس جال سے آزادی حاصل نہیں کر سکتی

اور یہ بات بھی ذہن نشین کر لو کہ اس جالے کی مقدس طاقتوں کے سامنے تم کیا دو وقت کا زندہ نہیں رہ پاؤگی

کیونکہ روشنی کی طاقتیں ہمیشہ اندھیرے کو فنا کر دیتی ہیں

سویرا نے چڑیل کو کہا

چڑیلوں کی رانی مکمل طور پر بے بس ہو چکی تھی

اسے آگے کنواں پیچھے کھائی نظر آ رہی تھی

مجبوراً اس نے اپنے سروں کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا

کیونکہ کم ازکم اس حالت میں زندہ رہ سکتی تھی

اس نے جالے کی دونوں کانٹوں پر اپنے دونوں سروں کی آنکھوں سے روشنی کی شعاعیں پھینکنا شروع کر دیں

تھوڑی ہی دیر کے بعد دونوں گانٹھیں کھل گئی اس کے ساتھ ہی چڑیل کے دونوں سر آگ کے شعلوں سے جلنے لگے

چڑیل کی کرب اور درد میں ڈوبی ہوئی چیخیں کان پھاڑ رہی تھیں

کچھ دیر کے بعدچڑیل کے دونوں سر جل کر ختم ہو چکے تھے اور چڑیل درد کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی اگر تم نے آگے بڑھ کر اس پر سے جالہ ہٹا دیا

تھوڑی دیر بعد سویرا کے پانی چھڑکنے پر چڑیل ہوش کی دنیا میں داخل ہوگئی

ان سب کو اپنے سامنے دیکھ کر چڑیل غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی

تم دونوں نے میری غلام چڑیلوں کو مروا دیا اور میری ساری طاقتیں بھی برباد کر دیں

ابن ان کو دوبارہ زندہ بھی نہیں کر پاؤ گی

ان کی زندگی کو چھوڑو تم اپنی زندگی کی خیر مناؤ

چپ چاپ ہمیں اس خزانے کا موجودہ نقشہ بنا دو

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہارے پاس یہ پیدائشی طاقت ہے کہ تم کسی بھی جگہ کو بھی نہ دیکھے اس کا نام سن کر اس کا نقشہ بنا سکتی ہو

اگر تم نقشہ نہیں بناؤں گی تو ہم ابھی تمہیں جان سے مار دیں گے

اگر تم ہمیں نقش بنا دیتی ہوں تو نہ صرف تمہیں زندہ چھوڑ دیں گے بلکہ ہر ممکن حد تک جادوگر شاکال سے تحفظ بھی فراہم کریں گے

سویرا چوڑیل کو سمجھاتے ہوئے بولی

چڑیل کی سمجھ میں بات آچکی تھی

اس لیے اس نے کہا کہ جلدی سے جاؤ اور کسی بھی درخت کے تین پتے اٹھا کر لے آؤ

اکرم جلدی سے گیا اور باپ ہیں ایک طرف سے تین پتے توڑ کر چڑیل کے حوالے کردیئے

شالا کا چڑیل نے پتے ہاتھ میں لے کراپنی آنکھوں کو بند کر دیا اور منہ میں کچھ منتر پڑھنے لگی

تھوڑی ہی دیر بعد وہ تینوں پتے ایک ساتھ جڑنا شروع ہوگئے

اور ان پر ایک نقشہ آہستہ آہستہ ابھرنے لگا

چند منٹ چڑیل کے منتر پڑھنے پر ہے وہ نقشہ بن کر تیار ہو چکا تھا

چڑیل نے نقشہ سویرا کے حوالے کیا اور کہا کہ میں نے تمہارا کام کر دیا ہے اب امید کرتی ہوں کہ تم بھی اپنے وعدے پر پورا اترو گی

سویرا بولی کے ہم مسلمان ہیں اور اپنا کیا ہوا وعدہ نہیں توڑتے

اور باقی ساتھیوں کو تھوڑی دیر بعد آنے کا کہہ کر وہ جنگل میں تھوڑا آگے کی طرف چلی گئی

کچھ دیر بعد وہ وہیں واپس آتی ہوئی نظر آئیں

واپس آتے ہیں وہ چڑیل سے بولی کے میں نے تمہارے علاقے کے ارد گرد الہامی کلمات کا ایک طاقتور حصار قائم کر دیا ہے

کوئی جادوگر یا بری طاقت اس حصار کو کبھی پار نہیں کر سکتی

تم بھی اس حصار سے باہر کبھی نہیں نکل پاؤں گی

ہاں اس حصار کے اندر رہتے ہوئے تم جانوروں کو اپنا شکار بنا کر زندہ رہ سکتی ہو

لیکن تمہیں بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ تم اس حد میں داخل ہونے والے انسانوں کو اپنا شکار کبھی نہیں بناؤ گی

چڑیل بولی کہ میری ساری بری طاقتوں کا دارومدار میرے باقی کے دو سروں پر تھا جو کہ اب بالکل ختم ہو چکے ہیں

اس لئے میں کسی بھی انسان کو شکار نہیں کر سکتی

اب جانور اور سبزیاں ہیں میری خوراک ہوں گے

میں تمہارا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھو گی کہ تم نے مجھے مارنے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی میری جان بخش دی

چڑیل سے اپنا وعدہ پورا کرنے کے بعد سویرا کرم سے بولی کیا آپ ہمیں فام ہاؤس واپس چلنا چاہیے

اکرم نے سویرہ کی ہاں میں ہاں ملائی اور وہ سب دوست چڑیل کے ٹکانے کو چھوڑ کر جنگل کے راستے واپس اکرم کے فارم ہاؤس کی طرف بڑھ گئے۔

خزانے کی اصل جگہ کا نقشہ اکرم کے ہاتھ میں تھا

اور اس کے ماتھے پر آڑھی ترچھی لکیریں نمایاں تھی

گو کہ وہ آنے والے وقت کو لے کر شاکال اور اسکی بری طاقتوں سے جنگ کے متعلق ذہن میں پلان ترتیب دے رہا تھا

جنگل سے واپس آتے وقت سویرا کے ذہن میں ہلچل مچی ہوئی تھی

لیکن وہ اس بات کے بارے میں اپنے دوستوں کو بتا کر انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی

وہ یہی سوچ رہی تھی کہ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا

مجھے اپنی جان کی قطعی پروا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

چڑیل کے پاس سے واپس آتے وقت سویرا کو چڑیل نے ایک بہت اہم بات بتا دی تھی

سویرا تھوڑی بہت پریشان تو تھی لیکن خوفزدہ بالکل نہیں تھی

خیر کافی دشوار گزار سفر کرنے کے بعد وہ سب اکرم کے فارم ہاؤس واپس آگئے۔

نقشہ اکرم نے سنبھال کر رکھ دیا

میرے خیال میں اب ہم میں سب کو آرام کرنا چاہیے

کیونکہ جنگل کا یہ پرخطر سفر کافی تھکا دینے والا اور ذہنی طور پر عصاب شکن تھا

سب لوگ نہا دھو کر فریش ہو گئے اور اپنے اپنے منتخب کردہ کمروں میں آرام کی غرض سے لیٹ گئے

سویرا ذہنی طور پر خود کو بہت تھکا ہوا محسوس کر رہی تھی

بالآخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بات کے بارے میں اکرم کو بتا دے گی

کیونکہ وہ اس کے سب دوستوں میں سب سے زیادہ قابل اور سمجھدار ہے

اچھی طرح سوچ سمجھ لینے کے بعد وہ بستر سے اٹھی اور اکرم کے کمرے کی طرف بڑھی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم کے کمرے کے دروازے کے پاس جاکر اس نے آہستہ سے دروازہ کھٹکٹایا۔

اندراجاو سویرا

سویرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔۔

تمہیں کیسے پتا چلا کہ دروازے کے باہر میں ہوں سویرا حیران ہوتے ہوئے بولی

یہ بات تو میں تمہیں بتا ہی چکا ہوں سویرا کے میں نے کافی سال محنت کر کے بہت سے روحانی علوم حاصل کیے ہیں

اس کے علاوہ میں یہ بھی جانتا تھا کہ تم ضرور میرے پاس مجھے کچھ بتانے کے لئے آؤ گی

کیونکہ تم میں چڑیل نے جو کچھ بتایا تھا وہ سب میں بھی سن رہا تھا

چڑیل نے تمہیں یہی بتایا تھا نا کہ وہ جادوگر تمہاری جان کی بلی دے کر تمہارے خون سے اس خزانے کی حفاظت کو توڑ کر وہ خزانہ حاصل کرنا چاہتا ہے

تم نے بہت اچھا کیا جو آپ نے باقی دوستوں کو اس بات کے بارے میں نہیں بتایا

ورنہ وہ تمہیں لے کر پریشان ہوجاتے اور ذہنی انتشار کی وجہ سے جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں اسے کرنے میں کافی مشکل پیش آتی

سویرا کی آنکھیں نم ہو گئیں

مجھے اپنی جان کا بالکل ڈر نہیں ہے اکرم

لیکن میں کسی بھی حال میں اپنے والد کو زندہ یا مردہ ڈھونڈنا چاہتی ہوں

اور اس خزانے کو جادوگر کی پہنچ سے ہمیشہ کے لئے دور کردینا چاہتی ہوں

اس کے لئے ایک تو کیا ہزاروں بار بھی مجھے اپنی جان دینی پڑے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں

ایسا کچھ نہیں ہوگا تو میرا تم فکر مت کرو ہم ایک نیک مقصد کے ساتھ نکلے ہے اسلئے خدا تعالی کی ذات ہر راہ پر ہماری مدد کرے گی

اکرم سویرا کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔

تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو کرم مجھے حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے بلکہ ان سب فرسودہ خیالات کو شیطان کا وسوسہ سمجھ کر ذہن سے نکال دینا چاہیے

نماز کا وقت ہو چلا ہے چلو سب نماز پڑھتے ہیں

یہ کہہ کر اکرم سورہ کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا باقی سب دوستوں کو اٹھایا اور پھر وہ سب نماز ادا کرکے خدا کے حضور دعا کرنے لگے

نماز سے فراغت کے بعد اکرم نے سب کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور بولا کہ اب ہمیں اگلا کام یہ کرنا ہے کہ حاضرات کا عمل کرکے سویرا کے جدامجد اسلم کی مقدس روح کو حاضر کرنا ہے اور اس سے معلومات لینی ہے کہ جادوگر کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے

اریبہ بولی ارے نہیں نہیں بابا

یہ عمل بڑے خطرناک ہوتے ہیں

وہ روح میں کوئی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے

منیر اور اقبال بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے

تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو کیا

ہم جس کی روح کو بلانے جارہے ہیں وہ تو خواب میں بھی کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے

اکرم غصے سے بولا

سویرا نے کہا ٹھیک ہے تم تیاری کرو

ہم سب تمہارا ساتھ ضرور دیں گے اکرم۔۔۔۔۔۔۔

میں تیاریاں کرتا ہوں تم سب کچھ دیر کے بعد میرے کمرے میں آ جانا

اور ہاں آپ نے اپنے کپڑوں پر تھوڑا عطر ضرور لگا کے آنا

یہ کہتے ہوئے اکرم اپنے کمرے کی طرف چلا گیا

تھوڑی دیر بعد باقی سب بھی اکرم کے پاس اسے کمرے میں صاف فرش پر بیٹھے ہوئے تھے

اکرم نے سب کے گرد حصار کھینچا جو کہ پانچ کونوں والے ستارے سے مشابہت رکھتا تھا

حصار کے پانچوں کونوں پر اس نے شمعیں روشن کر دیں

اکرم ان سب کے درمیان بیٹھ گیا اور ان سب کو پانچوں کونوں میں بٹھا دیا اور کہا کہ ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لو

عمل کے دوران چاہے کچھ بھی ہو جائے تم سب نے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑنا

یہ عمل چونکہ ہزاروں سال پرانی روح کو حاضر کرنے کے لیے کیا جائے گا

اس لیے اس میں خطرہ بھی اسی حساب سے عام عمل سے کئی گنا زیادہ ہے

اپنے دلوں کو مضبوط کر لینا اور کچھ بھی نظر آئے اپنے ہاتھ چھوڑ کر حصار سے باہر ہرگز نہیں نکلنا

سب لوگوں کو اکرم کی بات اچھی طرح سمجھ آگئی

اکرم نے اپنے سامنے چاندی کا ایک بہت بڑا اور کھلے منہ والا برتن رکھا ہوا تھا

جس میں اس نے شفاف پانی ڈالا ہوا تھا

اپنے کوٹ کی جیب میں سے اس نے ایک گلاب کا پھول نکالا

اور اس پھول پر مقدس آیات پڑھ کر اس کی سات پتیاں توڑ کر کر برتن کے پانی میں بکھیر دیں

اور ان پتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

یہ جو پتیاں پانی میں تیر رہی ہیں ان کے ایک لائن میں آجانے تک ہم نے عمل کو جاری رکھنا ہے

اس کے بعد اکرم نے سویرا اور باقی سب کو کچھ آیات بتائیں اور کہا کہ تم نے مسلسل انہی آیات کا ورد کرتے رہنا ہے

جبکہ میں وہ اسم پڑھوں گا جس سے روح کو حاضر کیا جاتا ہے

پھر اس نے ایک ریموٹ کی مدد سے کمرے میں موجود سب لائٹیں بند کر دیں

اب کمرے میں گھپ اندھیرا تھا صرف پانچ موم بتیوں کی روشنی تھی جو کمرے کے اندھیرے کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کرنے میں مصروف تھی

اب تم سب آیات کا ورد شروع کر دو

یہ کہنے کے بعد اگر ہم نے آنکھیں بند کرلیں اور منہ میں کچھ الفاظ کا ورد کرنے لگا

باقی سب نے بھی آیات پڑھنا شروع کردیں

تھوڑی دیر تو بہت آرام سکون کے ساتھ ہوں عمل میں مصروف رہے

پھر آہستہ آہستہ گرم لو جیسی ہوا نے کمرے میں چکر لگانا شروع کر دئیے

حالانکہ ساری کھڑکیاں اکرم نے بند کی ہوئی تھی اور دروازہ بھی بند تھا

کچھ دیر بعد ہوا شدت اختیار کرتی چلی گئی

سب دوستوں نے محسوس کیا تو آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھنا شروع ہوگئے

لیکن اپنے ہاتھوں کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور زبان سے آیات کے ورد کو بھی بند نہیں ہونے دیا

ہوائیں اب طوفان کی شکل اختیار کرتی جا رہی تھی

کمرے میں موجود کرسیاں میز اور دیگر سامان زور زور سے دیواروں پر جاکر ٹکرا رہے تھے

پھر کمرے کی کھڑکیاں دھڑام کی آواز سے کھلتی چلی گئی

اور باہر سے گرد اور پتوں نے کمرے کے صاف ستھرے ماحول کو جنگل جیسا بنانا شروع کر دیا

لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جس حصار میں وہ سب بیٹھے ہوئے تھے اس میں پتے یا گرد کا ایک ذرہ بھی نہیں گرا تھا

اور اس سے بھی زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ اتنی تیز آندھی چلنے کے باوجود موم بتیوںکی لو ایسے ساکن تھی جیسے وہ حقیقی نہ ہو بلکہ کے پتھر کی بنی ہوئی ہو

اقبال نے خوف سے کانپنا شروع کر دیا اس کی کپکپاہٹ کو محسوس کرکے منیر نے اس کے ہاتھ کو ہلکے سے دبایا

گو کہ وہ اسے ثابت قدم رہنے کا کہنا چاہتا تھا۔

تھوڑی دیر میں وہ وہ اس آندھی کے عادی ہوگئے اور اسے ذہن سے فراموش کرکے دوبارہ عمل میں مصروف ہوگئے

تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد اندھی میں تیز شوروغل شامل ہوگیا جیسے ہزاروں بدلو ہے مل کر آہ و زاری کر رہی ہوں

ان دہشت ناک آوازوں سے سب کے کان کے پردے پھٹنے کے قریب تھے کے اکرم نے آنکھیں کھول کر ایک پھونک باہر کی طرف ماریں تو سارا ماحول پرسکون ہوتا گیا

کچھ سیکنڈ میں ماحول ایسا ہو گیا جیسے وہاں آندھی کا وجود ہی نہ ہو

کمرے کا سارا فرنیچر بھی اپنی اصل جگہ پر موجود تھا اور سب کھڑکیاں دروازے بھی پہلے کی طرح ہی بند تھے

اسلم آہستہ سے آواز میں بولا کہ تم سب نے آیات کہ ورد کو ایک سیکنڈ کے لیے بھی زبان سے نہیں رکنے دینا

یہ جو کچھ بھی تمہیں نظر آیا ہے اور آگے آئے گا وہ سب تمہاری نظر کا دھوکا اور شیطان کا چھلاوا ہے تاکہ ہم اپنے عمل میں نہ کامیاب ہوکر موت کا شکار ہو جائیں

سب کی سمجھ میں اکرم کی بات اچھی طرح آ رہی تھی اس لیے وہ پوری توجہ کے ساتھ آیات کا ورد کرنے میں مصروف تھے

تھوڑی ہی دیر بعد سویرا کو اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی جو کہ اس کی امی کی تھی

وہ رو رہی تھی سویرا پریشان ہوگی کہ اس کی امی یہاں پر کیسے اور وہ رو کیوں رہی ہیں

مفتی ہوئے سویرا سے بولی سویرا بیٹا حصار سے باہر آجاؤ اور جلدی سے میرے ساتھ چلو تمہاری دادی کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ قریب المرگ ہیں

مرنے سے پہلے وہ تم سے آخری بار ملنا چاہ رہی ہیں

جلدی اٹھو میری بچی وقت بہت کم ہے

قریب تھا کہ سویرا اپنی ماں کی آواز سن کر حصار سے باہر نکل آتی کہ ایک دم اس کے ذہن میں خیال آیا کہ اگر میں حصار توڑ کر باہر نکلتی ہو تو میری جان کے علاوہ میرے سب دوستوں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوگا

یہ سوچ کر اس نے اپنی ماں کی آواز کو فراموش کرکے آیات کے رد کی طرف اپنا دھیان اور مضبوط کرلیا

ایسا کرنے کے کچھ ہی دیر بعد سے آواز آنا بند ہوگئی تو وہ سمجھ گئی کہ یہ شیطان کی ایک اور سازش تھی

غرض سبھی کو طرح طرح کے خوفناک اور بھیانک مناظر دکھا کر ڈرانے کی کوشش کی گئی

لیکن خدا پر یقین اور ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہونے کے حوصلے کی وجہ سے وہ سب دوست ڈٹ کر بیٹھے رہے اور آیات کا ورد زبان پر جاری رکھا

اکرم بھی مسلسل مقدس الفاظ کو زبان پر دہرایا جا رہا تھا

پانچ گھنٹے کے مسلسل عمل کے بعد اگر ہم نے دیکھا کہ برتن میں موجود پھول کی سات پتیاں آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہوگئی ہیں

اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں

لیکن وہ مجبور تھا کہاپنے دوستوں کو نہیں بتا سکتا تھا کیونکہ ایسا کرنے سے درد میں رکاوٹ آ جاتی جس سے عمل کے ضائع ہو جانے کا خدشہ تھا۔‌۔

اس لئے اکرم نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمل کو مسلسل جاری رکھا تو تھوڑی ہی دیر بعد گلاب کی ساری پتیاں ایک سیدھ میں آگئی

اس کے ساتھ ہی روشنی کا ایک بہت بڑا چھپا کا سا ہوا جس سے سب دوستوں نے اپنی آنکھیں کھول کر برتن کی طرف کردی

اس روشنی میں سے تھوڑی ہی دیر بعد ایک شبیہہ نمودار ہونا شروع ہوگئی

کچھ ہی دیر میں وہاں پر ایک سفید لباس میں ملبوس بزرگ موجود تھے جو کی روشنی میں نہائے ہوئے تھے

وہ اپنی میٹھی اور سریلی آواز میں بولے السلام علیکم

اکرم نے سلام کا جواب دیا اور باقی سب کو کہا کہ اب تم آیات کا ورد کرنا بند کر سکتے ہو

تو سب نے نے بیک وقت اس بزرگ کے سلام کا جواب دیا

وہ سب سمجھ چکے تھے کہ یہ سویرا کے جد امجد اسلم ہیں

اسلم کی روح سویرا سے مخاطب ہوئی

سویرا بیٹا باقی باتیں میں بعد میں کروں گا

سب سے پہلے تم مجھے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک کلمہ پڑھا دو

تاکہ اس دنیا میں کچھ وقت کے لئے واپس آنے کا جو سنہری موقع مجھے ملا ہے

اس سے فائدہ اٹھاکر میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہو جاؤں

کیونکہ ہمیں میں ہمارے پیغمبر نے یہی تعلیم دی تھی کہ تم میں سے کوئی بھی اگر اس زمانے کو پالے جس میں ہدایت کا نور طلوع ہوگا تو وہ اس آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) پر دل و جان سے ایمان لے آئے

سویرا کے ایمان کو اسلم کی روح کی یہ باتیں اور مضبوط کر دی گئی

اور اس کی زبان سے بے اختیار کلمہ طیبہ کا ورد شروع ہوگیا

اسلم کی روح نے بھی سویرا کے پیچھے پیچھے جے پاک کلمے کا ورد کیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی

اس کے بعد اسلم کی روح مخاطب ہوئی کہ اب بتاؤ تم سب نے مجھے عالم ارواح سے اپنے پاس کس مقصد کے لیے بلایا ہے تم مجھ سے کیا جاننا چاہتے ہو

سویرا بولی دادا جان

میں اپنے گم شدہ والد کو ڈھونڈنا چاہتی ہوں جو کہ جادوگر شاہ کال کی سرکوبی کے لیے گیارہ سال پہلے گھر سے نکلے تھے

لیکن اس کے بعد انکی کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی

اس کے علاوہ ہم سب جادوگر شاکال کی روح کے فتنے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردینا چاہتے ہیں۔

اور اس منہوس خزانے کو بھی ہمیشہ کے لئے تلف کر دینا چاہتے ہیں جسکی وجہ سے ہزاروں انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی

تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس خزانے کی حفاظت کی ذمہ داری سے ہمیشہ کے لیئے سبقدوش ہوجائے

اسلم کی روح مسکرانے لگی پر وہ بولے ‌ میں میرا تعلق اس دنیا سے چونکہ ختم ہوچکا ہےاس لئے میں مادی طور پر تمہاری کچھ مدد نہیں کر سکتا

ہاں تمہیں صرف اتنی سی بات بتا سکتا ہوں کہ

۔۔۔۔۔۔ جادوگر شاہ کال کی موت تب ہوگی جب سب خون ایک ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ میں تمہیں کچھ بتا بھی نہیں سکتا ہاں تمہارے حق میں خدا سے دعا کروں گا کہ تم اپنے اس نیک مقصد میں کامیاب ہو جاؤ میری بچی تمہارے باپ کے بارے میں بھی تمہیں خزانے کی اس غار میں ہی پتہ چلے گا

خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔

اتنی سی بات کہہ کر اسلم کی روح روشنی میں تحلیل ہوکر غائب ہوگئی

روح کے غائب ہوتے ہی تمام مومبتیا بھک کی آواز سے بجھ گئیں

اب تم سب حصار سے باہر نکل سکتے ہو اکرم نے سب کو کہا اور ریموٹ اٹھا کر کمرے کی روشنی جلا دیں

لگتا ہے ہمیں اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوا

اتنی محنت بھی کی اور کچھ معلوم بھی نہیں ہوسکا

منیر اور اقبا ل ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے

ایسی بات نہیں ہے ہم نے صرف اتنا سا اشارہ معلوم کرنے کے لئے یہ عمل کیا تھا

باقی جو بھی کرنا ہے ہم سب کو ہی کرنا ہے

اور خدا پر پورا بھروسہ رکھ کر کرنا ہے

اور ہاں میں تم سب کو یہ بتا دو کہ کل پورے چاند کی رات ہے

اگر جادوگر کو کل تک مارا نہیں گیا تو کل رات اسے اتنی طاقت حاصل ہوجائے گی کہ وہ ہمیں جسمانی نقصان پہنچا سکے گا

فی الحال اس کی طاقتیں صرف اتنی ہیں کہ اگر ہم اس کے چھلاوے میں آکر اس کی کسی چیز کو ہاتھ لگاۓ تو وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے

اس لیے جلدی جلدی تیاریاں مکمل کرو ہمیں جتنی جلدی ہو سکےخزانے کی تلاش اور جادوگر کے خاتمے کے لیے نکل جانا ہے

اکرم نے ہر بڑی میں سب کو کہا اور خود بھی اپنا بیگ پیک کرنے لگا

باقی سب بھی اپنے اپنے کمروں میں جاکر ضروری سامان اپنے بیگ میں اکٹھا کرنے لگے

تھوڑی ہی دیر بعد وہ اکرم کی نئی نویلی جیب میں بیٹھے ہوئے تھے

اور اپنے پرخطر پوراسرار سفر کے لیے روانگی اختیار کر چکے تھے

نکلنے سے پہلے سویرا سمیت سب نےاپنے اپنے گھر فون کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا

ک ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ واپس نہ لوٹیں

سب کے گھر والوں نے اس عظیم کام کی انجام دہی کیلئے بخوشی اجازت دے دی تھی

اب ان کے حوصلے مزید بلند ہوچکے تھے کیونکہ ان کے پیچھے ان کے گھر والوں کی دعائیں تھیں

سویرا کے دل میں ایک طوفان تھا برپا تھا وہ خدا سے یہ دعا کر رہی تھی کہ اس کے والد سے صحیح سلامت واپس مل جائں

کافی دیر جیپ پر سفر کرنے کے بعدگھنا جنگل شروع ہوگیا تو انہیں اپنا سامان اٹھا کر جیپ کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھنا پڑا

نقشہ اکرم کے ہاتھ میں تھا

وہ سب دیکھ بھال کر نقشے کے مطابق پھونک پھونک پر قدم رکھ رہے تھے

کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس پر خطر جنگل میں ان کا ایک غلط قدماء نہ موت سے ہمکنار کر سکتا ہے

خیر یوں ہی آگے بڑھتے بڑھتے شام کے سائے لہرانے لگے

اب ہمیں کہیں پر کیمپ لگا لینا چاہیے

رات کے وقت جنگل میں آگے بڑھنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

اریبہ نے مشورہ دیا

لیکن ہمیں کل رات ہونے سے پہلے پہلے جادوگر کے ٹھکانے اور خزانے کے جگہ کو ڈھونڈ کر اپنا کام مکمل بھی تو کرنا ہے

کل اگر جادوگر اور زیادہ طاقتور ہوگیا تو اس سے لڑنا مشکل ہو جائے گا اکرم بولا

ہم جادوگر سے تب لڑیں گے نہ جب ہم زندہ رہیں گے

اگر ہم زندہ ہیں نہ رہے تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری

اقبال اور منیر نے بھی اپنی رائے دیں

چلو پھر ہم ادھر کیمپنگ کر لیتے ہیں

صبح فجر کے وقت پو پھٹتے ہی آگے کا سفر کرلیں گے اس بار سویرا نے کہا۔۔

چنانچہ سب نے کیمپ لگانے کی تیاری کی سب کام آپس میں تقسیم کئے اور اپنے اپنے حصے کا کام کرنے میں جت گئے

اریبا اور سویرا کے تمہیں کیمپ کے ٹینٹ لگانا تھا جبکہ اقبال اور منیر کے ذمہ لکڑیاں اکٹھی کرکے آگ روشن کرنا تھا تاکہ کوئی جانور ان پر سوتے وقت حملہ نہ کر سکے

جبکہ اکرم کی ذمہ داری رات کو سب کے سوتے وقت پہرا دینے کی تھی۔

رات ڈھلتے ڈھلتے پینٹ سیٹ کر لے گئے

اقبال اور منیر سوکھی ہوئی کچھ لکڑیاں اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوگئے جس سے آپ کا چھوٹا سا الاؤ روشن کردیا گیا

اکرم سب سے بولا کہ اب تم سب اپنے اپنے ٹینٹ میں جاکر آرام کرو

جب مجھے نیند آنے لگے گی تو میں تم میں سے کسی کو جگا لوں گا

چنانچہ سب اپنے اپنے ٹینٹ میں گھس گئے

اور اکرم آگ کے الاؤ کے قریب بیٹھا پہرا دینے لگا

آدھی رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا کہ اکرم کی آنکھوں میں خماری چھانے لگی

اس نے اپنے حواس کو جھنجھوڑ کر خود کو بیدار رکھنے کی کوشش کی

لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکا اور نیند کی وادیوں میں اترتا چلا گیا

اس نے دیکھا کہ سویرا کا لاکٹ آگ کے قریب پڑا ہے

اور آگ آہستہ آہستہ لاکٹ کے قریب ہوتی جا رہی ہے

اکرم جلدی سے آگے بڑھا اس سے پہلے کہ لوکٹ آگ میں جھلس جاتا اکرم نے جلدی سے لاکٹ پر جھپٹا مار کر اسے اٹھا لیا

لاکٹ کے آدھا تے ہیں وہ درد اور تکلیف کی شدت سے نیند سے بیدار ہوگیا

اس چیخ کی آواز کو سن کر خیموں میں موجود باقی سب بدحواس ہو کر باہر کی طرف بھاگے

باہر کا منظر دیکھ کر وہ خوف سے سہم کر رہ گئے

کیونکہ ان کے دوست اکرم کا ہاتھ لال سرخ ہو رہا تھا اور اکرم درد کی شدت سے بلبلا رہا تھا

سویرا جلدی سے آگے بڑھیں اور خدا کا نام لے کر ایک خنجر ہاتھ میں پکڑا اور جلدی سے جاکر اکرم کے ہاتھ پر کاری ضرب کی

اکرم کا ہاتھ کاٹ کے دور جا پڑا اور اکرم بے ہوش ہوگیا

سویرا اور اریبہ نے ملکر اکرم کی مرہم پٹی کی

اقبال اور منیر حیران رہ گئے کہ سویرا نے اکرم کا ہاتھ کیوں کاٹ دیا

رات کے آخری پہر اکرم کو ہوش آگیا

درد کا احساس اب قدرے کم تھا

اس کے ہاتھ کی جگہ کو اچھی طرح سے پٹی سے کس کر باندھ دیا گیا تھا

اریبا جوکہ نرسنگ کے شعبے سے خاصی دلچسپی رکھتی تھی اس نے کچھ پین کلر ٹیبلٹ اکرم کو دیں جو اس نے کھا لی

معاف کرنا اکرم مجھے مجبوری میں تمہارا ہاتھ کاٹنا

لیکن یہ بات تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ تم نے نیم کی حالت میں جادوگر کے چھلاوے میں آکر اس کے کسی زیور یا چیز کو چھو لیا تھا

اگر میں تمہارا ہاتھ نہ کاٹتی تو اس جادوگر کی طاقت تمہارے پورے وجود کو جلا کر خاکستر کر دیتی

اکرم بولا میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم نے میرا ہاتھ پکڑ کر میری جان بچائی ہے دراصل مجھے نیند کی حالت میں میں تمہارا لوکٹ آگ میں جلتا نظر آیا تو میں نے بنا سوچے سمجھے اسے پکڑ لیا

خیر اس چیز کا مجھے ایک فائدہ ہوا ہے کہ جادوگر جوکہ ایک بری روح ہے اسے کوئی چھو نہیں سکتا

لیکن چونکہ میں نے اس کے دیور کو ہاتھ لگایا ہے اس لیے میں اسے اور وہ مجھے چھو سکتے ہیں

اور میں اس کو دیکھ بھی پاؤں گا

اکرم کا ہاتھ کاٹنے پر سب افسردہ تھے لیکن اب کیا بھی کیا جا سکتا تھا

اس لیے سب نے خیمے اکھاڑے ضروری سامان کو سمیٹنا شروع کر دیا اور آسمان پر سفید نمودار ہوتے ہیں جنگل میں آگے کا سفر شروع کر دیا

جنگل میں سفر کرتے کرتے دوپہر ہوگئی

تھکاوٹ اور بھوک پیاس سے سب کا برا حال ہو رہا تھا

منیر کے پاس آخری پانی کی بوتل تھی جسے سب نے مل بانٹ کے پی لیا

پیاس کیا بجھنی تھی حلف ہیں بڑی مشکل سے تر ہوا

خیر سب صبر شکر کرکے آگے بڑھے جا رہے تھے

آگے بڑھتے بڑھتے انہوں نے محسوس کیا کہ جنگل میں درختوں کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے یعنی کہ جنگل کم گھنا ہونا شروع ہوگیا

منیر بولا خدا کا شکر ہے کہ درخت پہلے سے کم ہو گئے ہیں اب چلنے میں کافی آسانی ہوگی

پریشانی کم نہیں ہوئی بلکہ اور زیادہ ہوگئی ہے

اکرم یہ بول ہی رہا تھا کہ ان کے چاروں طرف سے کچھ جنگلی نمودار ہوئے اور ان سب کو نیزوں کی زو میں لے لیا

ان سب کے پاس ہتھیار تو تھے نہیں کہ جنگلیوں کا مقابلہ کر لیتے اس لیے بنا مزاحمت کے خود کو ان کے سپرد کر دیا

اور باقی سب خدا پہ چھوڑ دیا

جنگلی قبیلے والے نے جانوروں کی طرح ہانکتے ہوئے اپنے قبیلے کی اور لے گئے

اریبہ اقبال اور منیر کو تو اپنی موت یقینی نظر آرہی تھی جبکہ سویرا اور اکرم قدرے مطمئن تھے

خیر تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ جھونپڑیوں کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پہنچ گئے جہاں جنگل کو قدر صاف کرکے کھلا میدان بنایا گیا تھا جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اکا دکا جھونپڑیاں بنی ہوئی تھی

علاقہ جنگل کے بیچوں بیچ بنا تھا

آس پاس چھوٹی موٹی پہاڑیاں بھی تھی

گوکہ جنگلی پہاڑیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا

قبیلے والے انہیں اپنے سردار کے پاس لے گئے اور اپنی قبائلی زبان میں سردار سے کہنے لگے کہ یہ لوگ ہمارے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے اس لئے ہم انہیں پکڑ لائے ہیں

سردار نے کہا کہ انہیں اسی غار میں بند کر دو جہاں پر ایک اور قیدی کو رکھا ہوا ہے

رات چاند کے جوبن پر ہم ان کے مقدر کا فیصلہ کریں گے

سردار کے یہ کہنے پر قبائلی ان کو گھسیٹتے ہوئے ایک طرف کو لے گئے

اور انہیں ایک غار کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا

جس کے سامنے ایک بہت بڑا پتھر رکھ کر اس کے دھانے کو بند کیا ہوا تھا

چار پانچ جنگلیوں نے آگے بڑھ کرپتھر کو وہاں سے سرکایا اور ان سب کو اندر کی طرف دھکیل کر پتھر دوبارہ اسی جگہ پر رکھ دیا۔

غار میں چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا

ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا

اریبہ اور اقبال تو دیوار کو ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اپنے مقدر کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے

جبکہ اکرم نے ادھر ادھر ٹٹول کر کچھ ایسا ڈھونڈنا شروع کردیا جس کی مدد سے وہ یہاں سے راہ فرار اختیار کر سکے

کیونکہ وہ بھی اختیار کے اتنے بڑے جنگلی قبیلے کے ساتھ لڑکے اپنی موت کو دعوت نہیں دے سکتے تھے

اس نے سویرہ کو بھی اپنا ساتھ دینے کو کہا

اندھیرے میں بو بھی اپنا ہاتھ ادھر مار کر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگی

وہ ایسے ہی تلاش کر رہی تھی کہ اس کا ہاتھ کسی نرم شہد سے ٹکرایا تو اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا

اور قلم سے بولیں گی یہاں پہ کوئی نہ کوئی انسان ہے میرا ہاتھ ابھی کسی انسانی وجود کے ساتھ ٹکرایا ہے

تو اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے سویرا وہ قبائلی آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہاں پہ ایک اور قیدی بھی ہے

چلو اس سے کچھ پوچھتے ہیں شاید ہمیں کچھ سراغ مل جائے

اکرم کے کہنے پر سویرا اور اکرم اس سمت آگے بڑھنے لگے

ابھی انہوں نے چار پانچ قدم ہی اٹھائے تھے کہ انہیں کچھ چمکتا ہوا نظر آیا

سویرا قدرے آگے بڑھیں اور پاس جا کر دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ چمکنے والی چیز آخر ہے کیا

جب اس نے تھوڑا قریب ہو کر دیکھا تو وہ اس کے اپنے لاکٹ جیسا ایک لاکٹ تھا جو چاند سورج کی طرح چمک دے رہا تھا

اس چمک کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ لوکٹ جس کے گلے میں ہے وہ اور کوئی نہیں اس کے اپنے ابو ہیں

حیرت اور خوشی سے بھرپور اس کی چیخ نکل گئی

سویرا کے اس رد عمل پر اس کے والد کی آنکھیں نیم وا ہوئی

گو کہ وہ اس حالت میں نہیں تھے کہ انہیں پہچانا جا سکے

بدن سوکھ کر کانٹا ہو چکا تھا تھا منہ پر داڑھی مونچھ اس قدر بڑی ہوئی تھی کہ چہرہ چھپا ہوا تھا

رنگت پیلی پر چکی تھی

لیکن سویرا اپنے باپ کو کیسے نہ پہچانتی

آخر وہ نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتی تھی

سویرا کے آواز اور لوکٹ کی روشنی دیکھ کر باقی سب بھی اسی طرف آ گئے

سویراشدت جذبات سے کپکپا رہی تھی وہ سب کو کہنے لگے گی یہ میرے ابّو ہیں

سب لوگ سویرا کے ابو کو اس جگہ پر مقید دیکھ کر حیران ہوگئے کہ آخر انا آدم خور قبیلوں نے انہیں یہاں پر قید کرکے کیوں رکھا ہے

جبکہ یہ تو انسانوں کا گوشت کھانے والا قبیلہ ہے

منیر کے پانی کی بوتل میں کچھ قطرے پانی موجود تھا

اس نے بوتل سویرا کے حوالے کی تو سویرا نے پانی کے چھینٹے اپنے ابو کے منہ پر مارے

تو وہ مکمل طور پر ہوش میں آگئے

سویرا کے گلے میں اپنے دئیے ہوئے لاکٹ کو پہنے ہوئے دیکھ کر انہیں یہ پہچاننے میں بالکل دیر نہ لگے کہ یہ ان کی بچی سویرا ہے

انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر سویرا کو گلے لگا لیا اور بلکنے لگے

سویرا کو ایسے محسوس ہوا جیسے کسی نے جہنم کے مستقل رہائشی کو جنت کے چشمے کے پانی سے سیراب کر دیا ہو۔

مجھے اللہ پر پورے یقین تھا کہ وہ اس جادو گر شاہکال کے خاتمے کا بندوبست ضرور کردے گا

تمھیں یہاں دیکھ کر میں بہت زیادہ خوش ہوں

پاپا آپ یہاں پر قید کیسے ہیں جبکہ یہ جنگلی قبیلے والے تو انسانوں کو مار کر کھا جاتے ہیں

سویرا نے اپنے ابو سے پوچھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سویرا کے ابو گویا ہوئے

بیٹا جب تم تقریبا سات سال کی تھی تو میں نے اس جادوگر کے چھلاوے اور شرانگیزیوں کے بارے میں کافی کچھ سنا

اس لئے میں تمہاری ساتویں سالگرہ پر جگر کی سرکوبی کیلئے نکل پڑا

مجھ سے صرف اتنی سی غلطی ہوئی کہ میں نے اس جنگ کے لئے یے اپنے جد امجد کے باقی ساتھیوں کی خاندان والوں کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی

جبکہ وہ جادوگر تو زندہ ہیں بہت زیادہ طاقتور تھا

مرنے کے بعد تو اس کی شیطانی طاقتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا

خیر جب میں خزانے والی جگہ پر پہنچا تو زمین پر مجھے اپنا لوکٹ پڑا ہوا نظر آیا یا

میں نے اپنی گردن میں دیکھے بنا اس لاکٹ کو جلدی سے پکڑ لیا

میرے ہاتھ میں جلن کا احساس ہوا تو میں نے اسے فوراً پھینک دیا اور اپنے گلے میں دیکھا تو میرا لاکٹ موجود تھا

میں سمجھ گیا کہ یہ جادوگر کی چال ہے لیکن اب ہو بھی کہہ سکتا تھا اس لئے میں خزانے والی غار میں آگے بڑھا تاکہ دیکھ سکوں کے خزانہ اپنی جگہ پر موجود ہے

اور اور اس کا ازالہ کو طرف کرکے جادوگر کو کیفر کردار تک پہنچا سکوں

لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ خبیث جادوگر کی روح میرے بالکل پیچھے ہی پیچھے چل رہی تھی

ابھی میں اس بار کے اندر خزانے والے کمرے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اس نے میری پیٹھ میں تلوار گھونٹ دی

میں فوراً بے ہوش ہوگیا اور جب ہوش میں آیا تو اس قید خانے میں تھا

میں سمجھ گیا کہ جادوگر مجھے مارنا نہیں چاہتا کیونکہ میں خزانے کے محافظوں کی نسل کا آخری وارث تھا

اور تم اس وقت بہت چھوٹی تھی اس لیے جادوگر نے مجھے ان کا پینے والوں کے حوالے کردیا تھا کہ مجھے تمہارے بڑا ہو جانے تک زندہ رکھا جائے اور بعد میں میرے ذریعے تمہیں بلیک میل کر کے خزانے کو حاصل کرسکے

اپنے باپ کے منہ سے یہ سن کر سویرا بولی اسی لئے مجھے خواب میں تقریبا ہر روز یہ منظر دکھایا جاتا تھا کہ جادوگر آپ کو تلوار سے مار رہا ہے

اور اپنی 18ویں سالگرہ پر مجھے اس جادوگر کا چہرہ مکمل طور پر دکھایا گیا تھا

ہاں میری بچی وہ جادوگر تمہاری جان کا دشمن ہے

یوں تمہارے خون کے ایک قطرے سے خزانے کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے

لیکن وہ شیطان کے آگے تمہاری قربانی دے کر خزانے کے ساتھ ساتھ اپنا مادی وجود بھی دوبارہ حاصل کرنا ہے

اسی لیے اس نے تمہاری کالج کے ساتھی سرمد کو مار دیا تھا

کیونکہ اسے تمہاری قربانی کے لئے تمہیں کنوارا رکھنا ضروری تھا

چاچا جان کیا آپ نے اتنی مدت تک یہاں سے نکل بھاگنے کی کوشش نہیں کی

اریبا سویرا کے ابو سے بولی

بیٹا یہ سارا علاقہ جادوگر شاہ کال کے قبضے میں ہے

اس لئے میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ مجھے کبھی بھی اس علاقے سے بھاگنے نہیں دے گا

اور جادوگر کے چھلاوے میں آکر جو غلطی میں نے کردی تھی اس کا خمیازہ بھی بھگتنا تھا

بلکہ اگر میں یہاں سے بھاگنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو اپنی بیٹی کو کبھی نہ دیکھ سکتا اور اس کی مدد بھی نہ کر پاتا

اس لیے یہ سوچ کر یہی پڑھا رہا کہ خدا کے اس کام میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی

تو کیا آپ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ جانتے ہیں اس بار اکرم نے پوچھا

ہاں بالکل جانتا ہوں سویرا کے ابو بولے

ان کے گلے میں موجود لوکٹ ابی بھی چمک رہا تھا جس کی روشنی سے پورا غار دن کی طرح روشن ہو بڑا تھا

انہوں نے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آؤ اور وہ غار میں پیچھے کی طرف چلنا شروع ہو گئے

کافی دور چلنے کے بعد ان کے پاؤں بھاگنا شروع ہوگئے

تھوڑا آگے جانے پر پانی اور گہرا ہوتا چلا گیا

میرے بچوں غار سے باہر جانے کے لئے ہمیں اس پانی میں سے تیر کر آگے بڑھا پڑے گا

پانی میں میں 50 سے 60 فٹ آگے جانے پر ہم اس غار سے باہر ہوں گے

اس لئے اپنے سانس روکو اور پانی میں غوطہ لگا کر ناک کی سیدھ میں آگے بڑھنا شروع کر دو

سب نے سویرا کے والد کی رائے پر عمل کیا اور۔ لمبی لمبی سانسیں لے کر پانی میں غوتا لگایا اور جلدی جلدی تیرنے لگے

ڈیڑھ منٹ کے بعد انہوں نے اپنا منہ پانی سے باہر نکالا تو ان کے پیچھے ایک بہت بڑا پہاڑ تھا

وہ سمجھ گئے کہ اسی پہاڑ کے اندر وہ کہتے تھے اور پانی کے اندر والے راستے سے باہر نکلے ہیں

اگر تم سب نقشے کے مطابق چلتے تو یہاں تک پہنچنے میں کم ازکم تمہیں دو دن لگتے

لیکن اس راستے سے ہم اپنا آدھے سے زیادہ سفر بچا پائے ہیں

سویرا کے ابو بولے اب ہم جس ندی میں ہے اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے

رات کا اندھیرا پھیلنے تک ہم خزانے والی جگہ پر پہنچ جائیں گے

چنانچہ سب لوگ ندی سے باہر نکل کر اس کے کنارے کنارے آگے بڑھنے لگے

سب تھک کر نڈھال ہوئے جا رہے تھے ایک تو دو دن سے سفر جاری رکھے ہوئے تھے اوپر سے کپڑے بھی گیلے ہو چکے تھے جس کی وجہ سے چلنا اور مشکل ہو رہا تھا

لیکن کسی نے ہمت ہارنا مناسب نہ سمجھا اور مستقل مزاجی سے چلتے ہیں رہے

اتنے میں سورج غروب ہونا شروع ہوگیا

اریبہ بولی اب تو سورج غروب ہونے والا ہے اور چاند نکلنے کے قریب ہے اب تو جادوگر کی طاقتیں بڑھ جائیں گی اور وہ ہمیں بنا کسی جال میں پھنسا یے بھی چھونے کے قابل ہو جائے گا

بیٹا برائے کی طاقتیں کتنی بھی کیوں نہ بڑھ جائے وہ اچھائی کیا گے کبھی بھی ٹک نہیں سکتی

سویرا کے ابو بولے وہ سامنے آگے کی طرف دیکھو غاروں کا پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا ہے

جنگل میں اسی مقام پر آنے کے لئے ہم سب نے اتنی محنت کی ہے

اب سب قرآنی آیات کا ورد کرنا شروع کر دو

تاکہ شیطانی طاقتیں تم سے دور رہے

سب کی زبان پر مقدس آیات کا ورد جاری ہوگیا

تھوڑا سا آگے جانے کے بعدسویرا کے ابو نے ایک غار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کردی کی یہی وہ غار ہے جس میں راجہ ابراہیم کا خزانہ محفوظ ہے

لیکن اس غار کے آگے تو کوئی رکاوٹ موجود ہی نہیں ہے

اکرم حیران ہوتے ہوئے بولا

دراصل بیٹا خزانہ اس غار کے اندر موجود ایک خفیہ کمرے میں ہے

اس غار کا منہ اس لئے بند نہیں کیا گیا تھا کہ کسی انسان کے ذہن میں یہ گمان ہے بھی نہیں گزرے کے یہاں پر خزانہ چھپایا گیا ہے

اب سب لوگ مکمل طور پر ہوشیار رہنا کیونکہ وہ جادوگر کبھی بھی حملہ آور ہو سکتا ہے کیونکہ کہ چودھویں کا چاند طلوع ہو چکا ہے

اور جادوگر کو کافی طاقت مل گئی ہے

یہ کہتے ہوئے انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا باقی سب نے بھی ان کی نظروں کے پیچھے آسمان کی طرف نظر بڑھائیں تو دیکھا کہ چودھویں کا پورا چاند اپنی آب و تاب کے ساتھ سارے جنگل اور پہاڑوں کو منور کر رہا تھا

میرے خیال میں جادوگر کا حملہ کرنے سے پہلے ہمیں خزانے تک پہنچ جانا چاہیے۔

یہ نہ ہو کے جادوگر ہمیں اپنے قابو میں کر کے سویرا کو مار کر خزانہ حاصل کرلے اریبہ کے اس مشورے پر وہ جلدی جلدی غار کے اندر داخل ہوگئے

اور سویرا کے ابو کی پیروی کرتے ہوئے ایک مخصوص سمت میں آگے بڑھنا شروع شروع ہوگئے

کچھ ہی لمحوں کے بعد نے اپنے پیچھے سے چنگھاڑنے کی زوردار آوازیں آنا شروع ہوگئیں

سب سمجھ گئے کے جادوگر کی روح ان کے پیچھے آ رہی ہے

سب دوستوں نے مل کر سویرا کو اپنے حصار میں لے لیا اور اس کے اردگرد پھیل گئے تاکہ جادوگر باآسانی سویرا تک نہ پہنچ سکے

سویرا کو حصار میں لیے انہوں نے آگے بڑھنا شروع کر دیا

سویرا کے ابو سب سے آگے تھے

غار میں آڑھے ترچھے پتھروں پر چلنے سے سب کے پاؤں خون آلود ہو چکے تھے ۔

تھوڑا اور آگے چلنے پر ان کے سامنے ایک بڑی سی دیوار آگئی

سویرا کے ابو نے اپنے انگوٹھے سے خون کا ایک قطرہ نکالا اور دیوار پر موجود ایک مخصوص جگہ پر لگا دیا

جس سے دیوار سرکنا شروع ہوگئی کچھ سیکنڈ میں دیوار مکمل طور پر پیچھے ہٹ گئیں اور ان سب کے سامنے آنکھوں کو چکا چوند کر دینے والا راجا ابراہیم کا عظیم الشان خزانہ موجود تھا

اکرم نےکہا کہ ہمیں جلدی جلدی کمرے میں داخل ہو کر کسی طریقے سے اس خزانے کو ہمیشہ کے لئے تلف کر دینا چاہیے تاکہ جادوگرکے مقصد کا ہی خاتمہ ہو جائے جس سے اس کی طاقت بہت کمزور ہو جائیں گی

ابھی انہوں نے اپنا قدم آگے بڑھایا ہی تھا کہ جادوگر کی بری روح ان کے سامنے آموجود ہوئی

شاکال جادوگر کو اپنے سامنے کھڑا پاکر اریبہ اور باقی سب کے اوسان خطا ہوگئے

سویرا اور اکرم بھی ایک لمحے کے لئے ڈر گئے

عقرب یہ سوچنے لگا کہ جادوگر کے رکاوٹ کو ہٹاکر خزانے تک کیسے پہنچا جائے

اتنے میں سویرہ کے ابو نے اپنے گلے میں موجود لاکٹ اتار کر جادوگر کے سامنے کیا جس میں سے چنگاریاں نکل کر جادوگر کی طرف بڑھنے لگی

جادوگر نے بھی اپنا ہاتھ سیدھا کر دیا جس میں سے آگ کی لپٹیں نکلنا شروع ہو گئی

روشنی اور بدی کی طاقت تھی جب آپس میں ٹکرائیں تو ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا

اکرم اور سویرا سمیت سبھی کے دل دہل گئے

کافی دیر جادوگر اور سویرا کے ابو اسی حالت میں اپنی طاقتوں کو آپس میں ٹکراتے رہے

پھر اس کے ابو کے ذہن میں خیال آیا کہ اس طرح تو ہمارا وقت ایسے ہی ضائع ہوتا رہے گا

دونوں نے جلدی سے اپنا لاکٹ سویرا کی طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ بیٹا پکڑو

اور سب دوست کمرے میں داخل ہو جاؤ

میں اس جادوگر کو روکتا ہوں

یہ کہہ کر انہوں نے منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا

جادوگر بھی مسلسل منتر پڑھ رہا تھا

لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی بھی دوسرے پر حاوی نہیں ہو پایا تھا

اتنے میں سویرا نے جلدی سے لاکٹ پکڑا اکرم رباقی ساتھیوں کو لے کر کمرے میں داخل ہوگئی

اکرم سوچنے لگا کہ اس عظیم الشان خزانے کو آخرکار کس طریقے سے تلف کیا جا سکے گا

سویرا نے کچھ سوچتے ہوئے اکرم سے کہا کہ اکرم تمہیں یاد ہے جب ہم غار میں قید تھے اور میرا لوکٹ ابو کے قریب ہوا تھا تو اس میں چمک پیدا ہو گئی تھی

کیوں نہ ہم تینوں لوکٹوں کو ایک ساتھ کرکے دیکھیں شاید ہمارا کام بن جائے

دوسری طرف جادوگر اپنی بے پناہ جادوئی قوتوں سے سویرا کے ابو کو ختم کرنے کی بارہا کوشش کرنے میں مصروف تھا

لیکن سویرا کے ابو خدا سبحانہ و تعالی کی آیات کے ورد کرنے میں مصروف تھے جس کی وجہ سے ان کے اردگرد ایک مضبوط حصار قائم ہوچکا تھا جو جادوگر کی بری طاقتوں کو ان تک پہنچنے سے روکے جا رہا تھا

قدرت بھی عجیب وغریب جنگ کا نظارہ لے رہی تھی

آسمان پر بادلوں کی گھن گرج ایسے تھی جیسے ابھی زمین پر ٹوٹ پڑیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکرم نے جلدی سے اپنے گلے سے لاکٹ کواتارا

سویرا نے بھی اپنا لوکٹ اتارا

پھر اکرم میں نقشے کو زمین پر رکھا

سویرا نے اپنا ابو کا اور اکرم کا لاکٹ ایک ساتھ رکھ دیا جس سے وہ تینوں روشن ہوگئے

اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے لگے

ساتھی ورکر سب لاکٹ پانچ کونوں والے ایک ستارے کی شکل اختیار کر گئے

بالکل ویسا ستارہ جیسی حاضرات کا عمل کرتے وقت اکرم نے حصار کے طور پر بنایا تھا

میرے خیال میں مجھے وحی مقدس لفظ پڑھنا چاہیے جو میں نے حاضرات کے وقت روح کو حاضر کرنے کے لیے پڑھا تھا یہ کہتے ہوئے اکرم نے اس مختصر سی مقدس آیت کا ورد کرنا شروع کردیا

جوں جوں وہ بڑھتا جا رہا تھا تو ں توں اس ستارے کا حجم بڑھتا جارہا تھا

آہستہ آہستہ اس سے تارے نے سارے خزانے کو اپنے نیچے لے لیا اور زمین میں نیچے کی طرف جانا شروع کر دیا

زمین کڑکڑاہٹ کی آواز سے اندر ہی اندر دھنس رہی تھی

تھوڑی دیر بعد وہ ستارہ خزانے کو لے کر زمین کے اتنے نیچے چلا گیا کہ نیچے دیکھنے پر کچھ نظر نہیں آرہا تھا

اکرم نے اطمینان کا سانس لیا کہ خزانہ اب مکمل طور پر محفوظ ہے

تھوڑی دیر کے بعد وہ ستارہ واپس اوپر کی طرف آ گیا

اور اس کا حجم کم ہونا شروع ہوگیا

پر وہ واپس اپنے اصلی حجم میں آگیا

اور زمین بھی اپنی جگہ پر صحیح سلامت موجود تھی جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو

خزانہ کو حفاظت سے ٹھکانے لگانے کے بعد ہوں کمرے سے واپس آئے تاکہ سویرا کے ابو کی جادوگر کو ہرانے میں مدد کر سکیں

وہ یہ بھول ہی گئے تھے کہ انہیں سویرا کی حفاظت کرنی ہے اور جادوگر کے سامنے اسے نہیں آنے دینا کیونکہ وہ اسے مار کر اپنی کالی طاقتوں میں اضافہ کرلے گا اور خزانے کو بھی دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا

شاکال کی روح نے جب دیکھا کہ سویرا اور اس کے ساتھی کھانے والے کمرے سے باہر آگئے ہیں تو اس نے سویرا کے ابو سے اپنا دھیان ہٹا کر اپنی تلوار نکالی اور سویرا کی طرف اچھال دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن تلوار کے سویرا تک پہنچنے سے پہلے ہی منیر راستے میں آگیا اور تلوار اس کا سینہ چیرتی ہوئی آر پار ہوگئی

منیر زمین پر گر کر تڑپنے لگا تو سب دوست اس کے اردگرد بیٹھ گئے سب کی آنکھیں اشکبار ہو رہی تھی اور وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ منیر کی جان کیسے بچائیں

اقبال تو دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا

منیر مسکراتے ہوئے سب کو سمجھانے لگا کہ ارے او پاگلو تم رو کیوں رہے ہو

ہم تو سر پہ کفن باندھ کے ہیں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے نکلے تھے

اور ویسے بھی میں تو خدا کی راہ میں شہید ہونے جارہا ہوں

تو اس میں رونے والی کوئی بات نہیں

اور ہاں اریبہ میرے دوست اقبال کا خیال رکھنا۔

اتنا کہتے ہیں منیر کی گردن ایک طرف کو لڑھک گئی

اس کے چہرے پر عجیب طرح کا اطمینان اور آسودگی تھی

لیکن اس کی موت نے اس کے ساتھیوں کو بے چین کر دیا تھا

اقبال تو سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔۔۔

اتنے میں سویرہ کے ابو چلا کر بولے کہ فلوقت جادوگر کو فنا کرنا زیادہ ضروری ہے

اگر تم میں سے کسی نے تھوڑی غفلت برتیں تو منیر کی موت ضائع ہوجائے گی

اور جادوگر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا

ان کے دھیان دلانے پر سب جادوگر کی طرف متوجہ ہوگئے

جس پر سویرا کے والد پے درپے وار کر رہے تھے

لیکن جادوگر کو رتی برابر نقصان نہیں پہنچ رہا تھا

سویرا کے والد صرف ا اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہو رہے تھے

جلدی کچھ کرو بیٹا اگر چاند کی یہ رات گزر گئی تو ہزاروں سال تک جادوگر کو کوئی ختم نہیں کر پائے گا

اریبہ کا دھیان اکرم کے ہاتھ میں موجود ستارے پر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس ستارے کا ایک کونہ چمک رہا تھا

اریبہ نے اکرم کا دھیان اس ستارے کی طرف متوجہ کیا

غور کرنے پر اکرم کو پتا چلا کہ ستارے کے جس کونے پر منیر کے خون کی ایک بوند گری تھی وہ جگمگا رہا تھا

اکرم کے ذہن میں یکایک چھپا کا ہوا

اسے یاد آیا کہ حاضرات کا عمل کرکے جب اس نے اسلم کی روح کو بلایا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ جادوگر کی موت تب ہوگی جب سب خون ایک ہو جائیں گے

اکرم نے سب کو اپنے پاس بلایا اور کہا جلدی جلدی اپنے اپنے انگوٹھے کاٹ کر خون نکالو

سب نے اپنے دانتوں سے اپنے انگوٹھے کاماس کاٹ لیا جس میں سے خون نکلنا شروع ہوگیا

اب آپ نے اپنے خون کی ایک بوند اس ستارے کے چاروں کونوں پر لگا دو

اکرم اریبہ اقبال اور سویرا نے اپنے اپنے خون کی بوند ستارےکے چاروں کونوں پر لگا دیں

ان سب کے خون کا ایک ہونا تھا کہ وہ ستارہ ایک تلوار میں تبدیل ہوگیا

جس کی چمک آنکھوں کو فضا کر رہی تھی

اکرم اور صغیرہ سمجھ گئے کہ ہمارے لوکٹ اسی مقصد کے لیے بنے ہوئے تھے

کیونکہ ان پر بھی تلوار کا ایک نشان تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جادوگر شاہ کال کی روح کی طاقت زور پکڑتی جا رہی تھی

اور وہ سویرا کے ابو پر حاوی ہونا شروع ہوگئی تھی

قریب تھا کہ سویرا کے ابو جادوگر کے ہاتھوں جانبحق ہو جاتے کہ اچانک جادوگر کو شدید تکلیف کا احساس ہوا

اس نے اپنے پیٹ کی طرف دھیان دیا تو اسے اپنے پیٹ میں سے تلوار کی نوک نکلی نظر آئی

کیونکہ سویرا نے اس کی پیٹھ میں سے تلوار گھومتی تھی جو کہ اس کا سینہ چیر کر اس کے پیٹ میں سے باہر آگئی تھی

جادوگر شاہکار کی روح نے چنگھاڑنا شروع کر دیا

اس کی دل دوست چیخیں غارکے درو دیوار کو ہلائیں دے رہی تھی

تھوڑی دیر اسی طرح چیخنے چلانے کے بعد اس کے وجود کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا

کچھ دیر بعد وہاں پر جادوگر کے ناپاک جسم کی ا راکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا

خس کم جہاں پاک

اکرم کے منہ سے یہ جملہ خارج ہوا

جبکہ سویرا نڈھال سی ہو کر زمین پے بیٹھ چکی تھی

وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ جادوگر کے خاتمے اور اپنے باپ کے ملنے کی خوشی منائے یا اپنے شرارتی دوست منیر کی موت کا غم۔۔

سویرا تم افسردہ نہ ہوں

ہمارا دوست شہید ہوا ہے اور شہید کبھی مرتے نہیں اقبال نے سویرا کوئی تسلی دی تو سویرا مسکرا دی

اتنے میں اچانک زمین ہلنا شروع ہوگی جیسے بہت شدید زلزلہ آ رہا ہو

جلدی سے باہر نکلو یہاں سے

سویرا کی ابو چلاتے ہوئے بولے

سب غار سے باہر کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے

جیسے ہی سب کے قدم غار سے باہر پڑے ایک دھماکے کے ساتھ غار پھٹتی چلی گئی

پہاڑ کے بڑے بڑے پتھروں نے غار کو منہدم کر دیا

اور یہ پہاڑی کار ہیں ان کے دوست منیر کی آخری آرام گاہ بن گئی

ابھی سب کے ہوا س مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے تھے کہ پہاڑ کے اندر سے تین سفید لباس میں ملبوس وجود اڑتے ہوئے ان کی طرف آنے لگے

سویرا کے ابو انہیں اپنی طرف آتا دیکھ کر مسکرا رہے تھے

تھوڑی ہی دیر وہ تینوں وجود ان کے سامنے کھڑے تھے

ان میں سے ایک جو عمر میں ان سب سے بڑا اور معزز لگ رہا تھا مسکراتے ہوئے بولا

گھبراؤ نہیں بچو

میں اسلم ہو ں سویرا اور اس کے ابو کا جد امجد

اور میرے ساتھ راجہ صاحب اور ان کے مشیر خاص ہارون ہیں

جوکہ اکرم کے بزرگ ہیں

جب سے جادوگر کی روح نے اپنا کہر لوگوں پر برسانا شروع کیا تھا ہم تینوں کی روحیں یہیں پہ پھنسی ہوئی تھی

عالم برزخ میں نہیں جا پائی تھی

آج تم سب کی ہمت کی بدولت جادوگر کے فتنے اور چھلاوے کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوچکا ہے

اس لئے آج ہماری روحیں بھی سکون حاصل کر سکیں گی

سویرا بیٹا یہ جو تلوار تمہارے ہاتھ میں ہے اسے پہاڑ کے دہانے کے سامنے گاڑھ دو

سویرا نے فورا ہدایت پر عمل کیا اور تلوار کو پہاڑ کے سامنے زمین کے اندر دھنسا دیا

تلوار کا زمین میں دس نہ تھا کہ تلوار سمیت پورے کا پورا پہاڑ سب کی نظروں سے اوجھل ہو گیا

اب کوئی بھی اس خزانے کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر سکے گا خواہ وہ کوئی لالچی انسان ہو یا شیطانی بدروح

یہ کہتے ہوئے اسلم راجا ابراہیم اور مشیر خاص ہارون کی روح آسمان کی طرف پرواز کرنے لگی کلمہ شہادت کا وردان کی زبانوں پر جاری تھا۔۔۔

چلو بچوں اب واپس لوٹتے ہیں

سویرا کے اب بولے

اریبہ نے اقبال کا ہاتھ تھام لیا کیونکہ اسے منیر سے کیا وعدہ یاد تھا

جبکہ سویرا نے اکرم کا ہاتھ تھام لیا گویا اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کی جگہ اب وہ اس کا داہنا ہاتھ تھی

اور وہ جنگل میں اپنے گھر کی طرف واپسی کا سفر کرنے کے لئے نکل پڑے

سویرا کا ایمان خدا پر اور مضبوط ہو چکا تھا کہ جو خواب اسے دکھایا گیا تھا اس نے اپنے ایمان اور خدا پر بھروسے کی مدد سے اسے بالکل الٹا کر دکھایا تھا

اس کی آنکھیں آنے والے اس منظر کے بارے میں سوچ کر ہی نہ ہو گئی تھی اور اس اس کے بارے میں وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتی تھی کہ جب اس کی امی اور دادی دی اس کے ابو کو زندہ سلامت دیکھیں گے تو وہ کس قدر خوش ہونگے۔

خوشی کے اس احساس نے سویرا کے پورے وجود کو سیراب کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔