پراسرار رات مکمل کہانی ____________________________ .


Urdu Horror Stories,Pursirar Raat,Urdu Horror Short Story,Real Horror Story,Horror Novel,Urdu Kahaniyan,thrilling story, dilchasp kahani, interesting novel
Pursirar Raat  | پراسرار رات |  مکمل کہانی 


رات کے اڑھائی بجے کا وقت تھا، سڑک بالکل سنسان تھی۔ سڑک کے پاس ایک فیکٹری سے آنے والا دھواں سڑک کے قریب لگی روشنیوں میں خوفناک حد تک خوبصورت نظر آ رہا تھا ۔میں سڑک کے بیچ میں تھا جب ایک بالکل کالی سیاہ بلی منہ میں سفید رنگ کا کبوتر دبوچے تیزی سے میرے سامنے سے گزر گئی۔ مجھے امی کی بات یاد آ گئی کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو کوئی مسئلہ ضرور ہوتا ہے ۔ ۔ میں اسی راستے کی طرف چل دیا جہاں بلی گئی تھی۔ یہ سڑک پہلے کی نسبت بہت زیادہ سنسان تھی۔ مجھے ایسی سنسان جگہوں سے شروع سے ایک عجیب قسم کی وحشت تھی۔ چلتے چلتے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن ابھی تک مجھے وہ بلی کہیں نظر نہ آئی۔۔۔۔ میں سستانے کے غرض سے تھوڑی دیر رکا تو میری نظر سڑک کے کنارے پر پڑی ۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہاں کچھ ہے ۔ میں نے اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے غور سے دیکھا تو وہ ایک بچہ تھا جو وہاں بیٹھا تھا۔ میں نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو رات کے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ میں بہت پریشان ہوا کہ یہ بچہ یہاں اس وقت آخر کر کیا رہا ہے۔ ضرور بیچارہ مصیبت میں ہوگا، یا راستہ بھٹک کر یہاں آگیا ہوگا مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے، یہ سوچ کر میں اس بچے کی طرف چل دیا۔ "بیٹا اس وقت یہاں پر اکیلے بیٹھ کر کیا کر رہے ہو، کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں"۔ میں نے اس بچے سے پوچھا۔ اس بچے نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا تو میں ایک جھٹکے کے ساتھ نیند سے اٹھ بیٹھا۔ سردیوں کے اندر بھی میں مکمل طور پر پسینے میں بھیگا ہوا تھا، لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے میں نے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے بیڈ کے قریب پڑے میز پر سے پانی کا گلاس اٹھایا اور غٹا غٹ پی گیا۔ لیمپ کی روشنی میں گھڑی پر وقت دیکھا تو ساڑھے تین بج رہے تھے۔۔۔۔

 آخر ہمیشہ مجھے ہی کیوں ایسے عجیب ڈراؤنے قسم کے خواب آتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا اور پھر وہ خواب دوبارہ میرے ذہن میں چلنا شروع ہو گیا۔ اس بچے نے جب پیچھے مڑ کر میری طرف دیکھا تو اس کا منہ خون سے بھرا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں وہی کالی بلی تھے جسے وہ آدھا کھا چکا تھا۔ "انکل یہ بلی مجھے بہت تنگ کرتی تھی" اس بچے نے یہ کہا اور اٹھ کر میرے پاس آنے لگا تھا کہ شکر ہے میری آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد پھر مجھے نیند نہیں آئی، ساری رات عجیب و غریب قسم کے خیالات میں گزری۔ صبح کے آٹھ بجے میں ناشتہ کئے بغیر ہی آفس کی طرف نکل پڑا۔ سارا راستہ میں کل رات والے خواب کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس حوالے سے کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر کو چیک کرانا چاہئے۔ آفس پہنچتے ہی میں نے خود کو مصروف رکھنے کے لئے گزشتہ ایک ہفتوں سے پینڈنگ پڑی تمام فائلز منگوا لیں۔ کافی کا مگ ہاتھ میں لئے میں غور سے ایک فائل پڑھ رہا تھا جب میری اسسٹنٹ عالیہ اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ "سر یہ مزید کچھ فائلز ہیں جو آپ نے منگوائیں تھیں"۔ چلیں ٹھیک ہے آپ انہیں ٹیبل پر رکھ دیں میں دیکھ لوں گا، عالیہ کی طرف دیکھے بغیر میں نے فائل کا صفحہ پلٹتے ہوئے جواب دیا۔ عالیہ نے فائلز ٹیبل پر رکھ دیا۔

 

اچھا عالیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ یاد آنے پر میں نے عالیہ کو بلایا تو میری نظر اس کے پاس کھڑے بچے پر ہوئی جو وہی بچہ تھا جسے کل رات میں نے خواب میں دیکھا تھا، میری بات اُدھوری رہ گئی اور کافی کا مگ میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچا۔ میں شدید خوف کے عالم میں اُس بچے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہو۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا عالیہ بول پڑی "سر یہ میرا بھتیجا مانی ہے اس کے پیرنٹس کی دو سال پہلے ایک ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی تھی تو یہ میرے ہی ساتھ رہتا ہے"۔ ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو، یا مسلسل اُس خواب کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے مجھے یہ بچہ اُس خواب والے بچے جیسا لگ رہا ہو۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے خود کو نارمل کیا۔ سر آپ نے کچھ کہنا تھا، عالیہ نے مجھ سے پوچھا۔ کون۔۔۔۔۔مم۔۔مم۔۔۔ میں نے۔۔۔۔ نہیں۔۔۔نہیں تو۔۔۔۔ آپ جا سکتی ہیں۔ میں مکمل طور پر کنفیوژ ہو چکا تھا۔ ان کے جاتے ہی میں نے ٹائی کو ڈھیلا کر کے لمبی لمبی سانسیں لینا شروع کر دیا۔ آخر یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے، یہ بچہ کیوں اس خواب والے بچے جیسا لگ رہا تھا، میں نے خود سے باتیں کرنا شروع کر دیا۔ ہو سکتا ہے مجھے وہم کی بیماری لگ گئی ہو۔۔۔۔

 

نہیں نہیں مجھے اچھے سے یاد ہے کہ وہ خواب والا بچہ بالکل ایسا ہی تھا۔ میرے آفس کا دروازہ کھلا اور ایک ملازم اندر داخل ہوا اور کہا "سر لنچ کا وقت ہو گیا ہے۔۔ آپ کا کھانا میں نے لگا دیا ہے"۔ نہیں یار میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا مجھے بس ایک کپ کافی کا لا دو۔ اس کے بعد مجھ سے کوشش کے باوجود آفس کا کوئی کام نہیں ہوا اور شام تک میں نے چار کپ کافی کے پی لئے۔ پانچ بجے گھر جانے کے لئے اپنے کمرے سے باہر نکلا تو عالیہ کے ساتھ وہی بچہ بیٹھا ہوا تھا۔ میں کچھ دن آفس نہیں آؤں گا آپ تمام فائلز شاکر کے ہاتھوں میرے فلیٹ پر بھجوا دیجیئے گا۔ میں نے اس بچے کی طرف دیکھتے ہوئے عالیہ سے کہا۔ اوہو مانی یہ کیا کر دیا تم نے۔۔۔۔۔ بچے نے ایک کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اچانک اسکی گردن توڑ ڈالی۔ "پھپھو یہ مجھے بہت تنگ کرتا تھا" اُس بچے نے میری طرف دیکھتے ہوئے عالیہ کو جواب دیا اور میں تھوک نگلتے ہوئے جلدی جلدی وہاں سے چل پڑا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے، ضرور اِس بچے کا میرے خواب سے کوئی تعلق ہے ، ورنہ ویسی شکل ، وہی جملہ۔۔۔ نہیں یہ میرا وہم نہیں ہے کچھ مسئلہ ضرور ہے۔ میں نے لفٹ سے باہر نکلتے ہوئے پریشانی کے عالم میں سوچا اور گھر جانے کی بجائے سیدھا ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا اور اسے تمام واقعہ مکمل تفصیل کے ساتھ سنایا۔ اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے، بعض دفعہ کام کی زیادتی ، نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے یا کھانا وقت پر نہ کھانے یا کم کھانے سے بھی ایسا ہوتا ہے اور آپ تو یہ سب کچھ کر رہے ہیں، میں کچھ دوائیاں لکھ کر دیتا ہوں یہ استعمال کریں انشاء اللہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری باتیں سننے کے بعد کہا اور دوائیاں لکھ دیں۔ میں دوائیاں لے کر گھر واپس آ گیا اور اچھے سے کھانا کھانے کے بعد دوائیاں کھا کر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق جلدی سو گیا۔ آج معمول سے ہٹ کر مجھے لیٹتے ہی فوراً نیند آ گئی ورنہ تو آرام سے ڈیڑھ دو گھنٹے لگ جاتے تھے۔ میں بہت گہری نیند میں تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کچھ شور ہو رہا ہے۔ میں گہری نیند سے اس وقت یکدم چھلانگ لگا کر اٹھ بیٹھا جب میرے کانوں میں زبردست قسم کا شور سنائی دیا۔ ابھی میں ویسے ہی نیند کی حالت میں تھا کہ میرے فلیٹ کا مین دروازہ دوبارہ زور زور سے بجنا شروع ہو گیا۔ میں نے لیمپ جلائی اور گھڑی پر وقت دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے سارے جسم میں دوڑ گئی کیونکہ گھڑی پر ساڑھے تین بج رہے تھے۔ مجھے فوراً میرا خواب یاد آ گیا۔ دروازہ ایک مرتبہ پھر مزید شدت سے بجنا شروع ہو گیا۔ نہیں نہیں یہ کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا ، ضرور کوئی مسئلہ ہے میں نے دل میں سوچا۔ لیکن ڈاکٹر نے تو مکمل تسلی دی تھی کہ یہ صرف روٹین کی گڑبڑی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میں ڈاکٹر کی بات پر تسلی کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازہ کھولنے باہر چلا گیا۔ دروازہ کھولا تو باہر عالیہ اور وہی بچہ مانی کھڑے ہوئے تھے، جنہیں یوں رات کے اس پہر اپنے فلیٹ پر دیکھ کر مجھے زبردست قسم کی حیرت ہوئی۔ مانی کے ہاتھ میں وہی کھلونا تھا جسکا سر اس نے شام کے وقت دفتر میں توڑ دیا تھا لیکن اب وہ کھولنا بالکل ٹھیک تھا سر بھی لگا ہوا تھا۔ باہر بہت تیز بارش ہو رہی تھی ، بار بار بجلی چمک رہی تھی اور بادل گرج رہے تھے۔ سر ہم بہت مجبوری میں آپ کے در پر آئے ہیں پلیز ہماری مدد کریں ہمیں آپ کے علاؤہ کسی کا سہارا نہیں ہے۔ عالیہ نے روتے ہوئے بولنا شروع کیا۔ اچھا آپ اندر آئیں پہلے ہی بارش کی وجہ سے بہت بھیگ چکی ہیں، میں نے انہیں اندر بٹھایا اور ان کے لئے ٹاول لینے چلا گیا کہ سردی کی وجہ سے بیمار نہ پڑ جائیں ۔ ٹاول دینے کے تھوڑی دیر بعد میری نظر مانی پر پڑی تو وہ مسلسل میری طرف دیکھ کر مسکرائے جا رہا تھا، مجھے اس کی مسکراہٹ سے عجیب بے چینی ہو رہی تھی۔ میں آپ لوگوں کے کھانے کے لیے کچھ لاتا ہوں، یہ کہہ کر میں کھڑا ہوا تو میری نظر اچانک عالیہ کی ٹانگوں پر پڑی تو میرے اپنی ٹانگوں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور میں مارے ڈر کے گرتے گرتے بچا۔ عالیہ کی ٹانگیں بالکل الٹی اور خوفناک تھیں جیسے چڑیلوں کی ہوتی ہیں۔ میں بڑی مشکل سے اپنے ڈر کو قابو کرتے ہوئے کچن کے بہانے اپنے کمرے میں گیا اور دروازے کو اندر سے لاک کر دیا۔ موبائل اٹھا کر پولیس کا نمبر ملایا۔ تیسری گھنٹی پر ہی میری کال اٹینڈ کی گئی اور میں نے تیزی سے چلتی اپنی دھڑکنوں کو قابو میں کیا اور بڑی مشکل سے آواز نکال کر کہا " میرے گھر میں کوئی بڑی عجیب و غریب قسم کی مخلوق آ چکی ہے۔۔۔۔۔۔جسکی۔۔۔۔جسکی۔۔ ٹانگیں الٹی اور خوفناک ہیں"۔ جب میں نے اپنی بات مکمل کر لی تو آگے سے جواب سن کر موبائل میرے ہاتھوں سے نیچے جا گرا اور میں ڈر کر بیڈ پر جا پڑا۔ فون پر پولیس کی بجائے عالیہ کی آواز تھی جو کہہ رہی تھی"میں چڑیل ہوں سر"۔ اُسی وقت مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے بالکل پیچھے ہے"۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خون سے بھری قینچی میرے ہاتھ میں تھی، بالکل اسی وقت ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے چڑیل کی طرف دیکھا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ اب وہاں چڑیل کی بجائے نرس کی خون سے لت پت لاش پڑی تھی۔ ڈاکٹر ۔۔۔۔ڈاکٹر۔۔۔ میں نے اسے نہیں مارا۔۔۔ یہ۔۔یہ۔۔ یہ چڑیل تھی نرس نہیں تھی۔۔۔ مجھے مارنے آئی تھی، میں نے ڈاکٹر کو دیکھتے ہی اسے وضاحت دی جو یقیناً بےسود تھی۔ ڈاکٹر نے سیکیورٹی کے اہلکاروں کو بلایا جنہوں نے مجھے پاگل سمجھتے ہوئے پکڑ کر قابو میں کیا اور ڈاکٹر نے جلدی جلدی مجھے انجیکشن لگا دیا جس کے ساتھ ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا گیا اور میں بےہوش ہو گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو پہلے کی بجائے کسی اور کمرے میں پایا۔ ابھی تک میں غنودگی کے عالم میں تھا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن مجھ سے ہلا نہ گیا۔ میں نے سمجھا شاید کمزوری کی وجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے لیکن جب میں نے غور کیا تو میرے دونوں ہاتھ اور پاؤں سٹریچر کے دونوں اطراف سے بہت مضبوطی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور اُسی ڈاکٹر کے ساتھ چند پولیس کے اہلکار بھی اندر داخل ہوئے۔ ڈاکٹر اور پولیس والوں کے ایک آفیسر نے آپس میں کوئی بات کی اور اس آفیسر کے علاؤہ باقی سب باہر چلے گئے۔ آفیسر میں نے اُس نرس کو نہیں مارا، آپ شاید مجھے پاگل سمجھیں گے لیکن وہ نرس نہیں تھی بلکہ چڑیل تھی جو مجھے مارنا چاہتی تھی، وہ میرے آفس میں بھی کام کرتی ہے آپ میرے آفس سے عالیہ نام کی لڑکی کو گرفتار کروائیں آپ پہ سب کچھ آشکار ہو جائے گا۔ میں نے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس والے کو ساری تفصیل بتائی لیکن اس کے باوجود میری ہڑبڑاہٹ واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ تقریباً دو گھنٹے تک پولیس والا مجھ سے مخلتف قسم کے سوالات کرتا رہا اور اس کے بعد چلا گیا۔ میری تھوڑی ڈھارس بندھی کہ اب عالیہ کے گرفتار ہوتے ہی ساری گتھی سلجھ جائے گی اور مجھے اِس ذہنی ، نفسیاتی اور جسمانی اذیت سے چھٹکارا ملے گا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد پولیس آفیسر دوبارہ آیا ۔ اچھا تو عالیہ کتنے عرصے سے دفتر میں بطور آپکی پرسنل اسسٹنٹ کے کام کر رہی تھی، پولیس آفیسر نے پوچھا۔ تقریباً چھ مہینے سے زیادہ عرصہ ہو گیا تھا اسے میرے دفتر میں کام کرتے ہوئے اور میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو آپ کو ساری تفصیل بتائی تھی آپ دوبارہ کیوں پوچھ رہے ہیں اور عالیہ کہاں ہے، میں نے پریشانی کے عالم میں پولیس آفیسر سے پوچھا۔ آپ خود پاگل ہیں یا ہمیں پاگل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، آفیسر مجھ پر چلایا، اب کی بار اس کے لہجے میں بہت کرختگی تھی۔ کیا۔۔۔ کیا مطلب آپ کا آفیسر۔ میرا یہ مطلب کہ آپ کے دفتر میں عالیہ نام کی کوئی بھی لڑکی کام نہیں کرتی اور آپ کے پرسنل اسسٹنٹ کی سیٹ بھی پچھلے چھ مہینے سے خالی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آپ کے آفس کے سٹاف کے مطابق آپ پچھلے کئی عرصے سے بہت عجیب و غریب قسم کی حرکتیں کر رہے ہیں، اپنے دفتر کے کمرے میں خود سے باتیں کرتے ہوئے پائے گئے ہیں، اسسٹنٹ کے ٹیبل پر روزانہ خود سے باتیں کرتے ہیں اور آپ کے دفتر اور گھر میں نشے کی گولیاں بھی پائی گئی ہیں۔ میں منہ کھولے سکتے کے عالم میں پولیس آفیسر کی باتیں سن رہا تھا اور میرے ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال پروان چڑھ رہا تھا کہ شاید یہ پولیس والا مجھ سے کوئی گھناؤنا قسم کا مذاق کر رہا ہے یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں لیکن اُس وقت مجھے شدید حیرانگی کا جھٹکا لگا جب پولیس والے نے مجھے CCTV کی ویڈیو دکھائی جس میں میں روزانہ عالیہ کے ٹیبل کے پاس کھڑا عالیہ سے باتیں کرتا تھا لیکن اب ویڈیو میں کہیں پہ بھی عالیہ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ اس کے بعد اگلے کئی منٹ تک پولیس والا مجھ سے پتا نہیں کیا کچھ کہتا رہا لیکن میرا دماغ مکمل طور پر ماؤف ہو چکا تھا ، مجھے پولیس والے کی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلاہٹ کا شکار ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں ہر طرف تاریکی چھا گئی۔ آج آپ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، ڈاکٹر نے میرے رپورٹس چیک کرتے ہوئے مجھے بتایا۔ سلطان صاحب میں نے ایسے کچھ کیس پہلے بھی دیکھے ہیں، میں آپکو ایک مخلصانہ مشورہ دے رہا ہوں کہ عدالت میں آپکا وکیل جو کچھ بھی آپ سے پوچھے آپ نے اسے یہی جوابات دینے ہیں۔ ڈاکٹر نے مجھے مکمل تفصیل سے ساری صورتحال سے نمٹنے کا طریقہ سمجھایا۔ تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں عدالت میں یہ قبول کروں کہ میں پاگل ہوں، میں نے لاچارگی سے ڈاکٹر سے پوچھا۔ آپ کے اوپر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے اگر آپ یہ سب کچھ نہیں کرتے تو آپ کو پچیس تیس سال کی قید ہو گی یا ہوسکتا ہے پھانسی دے دی جائے لیکن اس طریقے سے آپ کو عدالت کسی پاگل خانے بھیج دے گی جہاں پر کم از کم آپ جیل سے ہزار گنا بہتر زندگی گزار سکیں گے۔ لیکن ڈاکٹر میں پاگل ہرگز نہیں ہوں، یہ سب کچھ مجھے نظر آتا ہے ، مجھے ایسے ڈراؤنے قسم کے خواب آتے ہیں، مجھے عجیب عجیب چیزیں نظر آتی ہیں، میں نے روتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا۔ آپ کے عدالت جانے کا وقت ہو چکا ہے، چند پولیس کے اہلکار کمرے میں داخل ہوئے۔ سٹریچر سے بندھے ہوئے میرے دونوں ہاتھ اور پاؤں کھولے گئے، ہتھکڑیاں لگا کر مجھے ہسپتال کے کمرے سے باہر پولیس کی گاڑی تک لایا گیا۔ عدالت پہنچنے کے ایک گھنٹے بعد میرے کیس کی کاروائی شروع ہوئی۔ تمام جوابات میں نے اپنے وکیل کے کہنے کے مطابق دیئے۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے تک میرا کیس ایسے چلتا رہا اور بالآخر نفسیاتی مریض تصور کرتے ہوئے عدالت نے مجھے ایک پاگل خانے میں داخل کرانے کے احکامات جاری کر دیئے۔ یہاں پر جلد ہی میں نے خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا، اُسی ڈاکٹر کو میں نے اپنا ذاتی ڈاکٹر بنا لیا جو ہر ہفتے مجھے باقاعدگی سے چیک کرنے آتا ہے۔ اس کے مستقل علاج سے میری طبعیت اب پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہو چکی تھی۔ اب مجھے ڈراؤنے خواب بھی بالکل کم آتے تھے۔ میری روٹین بہت بہتر ہو گئی تھی۔ کھانا پینا وقت پر تھا اور چند اپنے جیسے سمجھدار قسم کے پاگلوں سے دوستی بھی ہو گئی تھی جو پاگل تو نہیں تھے لیکن حالات کی ستم ظریفی اور لوگوں کی خود غرضیوں کی وجہ سے اس وقت پاگل خانے میں موجود تھے۔ وقت اسی طرح گزرتا گیا اور پتہ بھی نہیں چلا پانچ سال گزر گئے اور باقی میرے علاج کے فقط دو ہفتے رہ گئے۔ عدالت پہلے ہی میرے قتل کو میرے پاگل پن کی وجہ قرار دے کر مجھے علاج مکمل ہونے کے بعد رہا کرنے کے احکامات جاری کر چکی تھی۔ اس پانچ سال کے عرصے کے دوران میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھا تھا، اپنے مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر اپنے جیسے لوگوں کو ایسی مشکلات سے بچانے کے لئے میں نے ایک کتاب بھی مکمل کر لی تھی جِسے اپنے رِہا ہونے کے ساتھ ہی شائع کروانا تھا ۔ آج اگر میں زندہ تھا تو اسکا سارا سہرا ڈاکٹر جمال کو جاتا تھا جن کی حوصلہ افزائی اور مسلسل رہنمائی کی بدولت میں نے یہ کڑا وقت بہت صبر کے ساتھ گزارا۔ آپ باہر جاتے ہی ہمیں بھول جائیں گے نا، میرے دوستوں نے مجھ سے الوداعی ملاقات کرتے ہوئے کہا۔ ہستپال سے آج میرے جانے کا دن تھا، جہاں مجھے جانے کی خوشی تھی وہیں ان چند دوستوں کی اِن حالات کا دکھ بھی تھا کیونکہ صرف میں ہی ان کے دکھ کو سمجھ سکتا تھا۔ میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ ہستپال سے نکلتے ہی میں ان تمام لوگوں کے حق کے لیے ان کی آزادی کے لئے لڑوں گا۔ ہسپتال کے پورے سٹاف سے ملنے کے بعد میں جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔ سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر میں نے ایک دفعہ پھر تمام لوگوں کو پیچھے مڑ کر دیکھا اور فرطِ جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے میرے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ میں جلدی جلدی سیڑھیوں کی طرف مڑا تو مجھے سامنے لگے شیشے سے باہر نیچے کی جانب کچھ شناسا سے چہرے نظر آئے۔ میں نے دوبارہ مڑ کر شیشے کی طرف دیکھا۔ گو کہ میں چوتھی منزل پر موجود تھا لیکن اس کے باجود باہر کھڑے چہرے پہچاننے میں مجھے دو سیکنڈ بھی نہیں لگے۔ یکدم میرے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور غصے سے میرا چہرہ لال ہو گیا اور میرا خون کھولنا شروع ہو گیا۔ باہر عالیہ اور اسکا وہی بھتیجا مانی کھڑے تھے۔ جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی وہ مجھے ہی دیکھ رہے تھے جیسے میرا انتظار کر رہے ہوں۔ اِنہیں دیکھتے ہی میرے سامنے میری زندگی کے پچھلے پانچ سال کی بربادی کے سارے مناظر چلنا شروع ہو گئے ۔ مجھے میری خوشیوں سے بھرپور زندگی سے عذابوں کے دلدل میں دھکیلنے والی ملزمہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ میں اپنے غصے پر قابو نہ پاتے ہوئے فوراً سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ مجھے یوں اچانک بھاگتے ہوئے دیکھ کر ہسپتال کا عملہ بھی پریشان ہو کر میرے پیچھے آنے لگا۔ عالیہ کو دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر چکا تھا ، میں بہت تیزی سے نیچے کی جانب بھاگا جا رہا تھا۔ دوسری منزل کی سیڑھیوں پر سے اترتے ہوئے اچانک میرا پیر پھسلا اور میں بہت بری طرح پھسلتے ہوئے سیڑھیوں کے سامنے لگے شیشے کو توڑتے ہوئے نیچے جا گرا۔ میں سہی سلامت کھڑا تھا لیکن نیچے ذیر تعمیر عمارت کی بنیادوں میں پڑے سَریُوں کے اندر ایک لاش دھنسی پڑی تھی۔ ایک سریا اسکی آنکھوں میں گُھس چکا تھا، ایک کھوپڑی کے اندر اور پانچ سرئیے اس کے جسم کے باقی حصوں میں شامل ہو چکے تھے۔ یہ لاش میری ہی پڑی ہوئی تھی ، اور زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزادی حاصل کر کے پاس میری روح کھڑی تھی جس کے اندر اب انسانیت نہیں تھی ۔ وقت و جگہ کی قید سے آزاد ہو کر اب میری بھٹکتی ہوئی روح کا مقصد صرف و صرف بربادی تھا۔ اب میں ہر جگہ ہر وقت موجود ہوں۔ جب آپ میری زندگی کا یہ اذیتوں بھرا واقعہ پڑھ رہے ہونگے میں اُس وقت آپ ہی کے پاس آپ کے اردگرد کہیں پہ موجود ہوں گا۔ ختم شد!!!