عاشق چڑیل

Urdu Horror Stories, Real Horror Story,  Urdu Kahaniyan, Khoufnak Kahani, Ashiq Churail
تحریر۔۔ پہاڑوں کا شہزادہ

یہ کہانی جو میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں یہ میرے دوست کے ساتھ پیش آیا سچا واقعہ ہے۔۔

میرے دوست کا نام عرفان ہے۔اسکے والد صاحب کا شمار اپنے علاقے کے جانے مانے کاروباری افراد میں ہوتا ہے۔۔۔ بس یوں سمجھ لیں کہ عرفان  موں میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا ۔۔۔گھر میں پیسوں کی۔ ریل پیل تھی اور کسی نعمت کی۔ کمی نہی تھی ۔۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں۔ کہانی کی طرف ۔۔۔

 یہ آج سے  تقریباً دس سال پہلے کی  بات  ہے جب عرفان ایک بورڈنگ اسکول  میں پڑھا کرتا تھا ۔

عرفان انتہائی خوبصورت لڑکا تھا ۔اسے بچپن سے  ہی  گھر  سے  باہر کسی ہوسٹل وغیرہ میں رہ کر  تعلیم  حاصل  کرنے  کا شوق تھا ۔

چنانچہ ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے 2011 میں اس کے والد صاحب نے عرفان  کا داخلہ ملتان کے ایک اقامتی ادارے میں کروا دیا ۔۔

اقامتی  ادارہ ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے ۔۔جہاں تعلیم ہوسٹل  کھانا وغیرہ اور دوسری ضروریات ایک ہی چار دیواری کے اندر فراہم کی جاتی ہیں ۔۔۔۔

اقامتی ادارے میں پڑھنے والا سٹوڈنٹ پورا مہینہ اسی چار دیواری کے اندر رہتا ہے اور مہینے کے آخر والے  پانچ دن چھٹیاں ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔اس پورے مہینہ میں سٹوڈنٹ کو اس ادارے سے باہر جانے کی اجازت بلکل نہیں دی جاتی ۔۔۔۔

 جب عرفان  کا داخلہ  ہوا تو وہ بہت خوش ہوا ۔۔ عرفان نے اگلے دن سے ہی ہوسٹل جانے کی  تیار ی سٹارٹ کر دی ۔۔۔وہ بہت ایکسائٹڈ تھا ۔۔۔۔چند دنوں کے اندر اندر اس نے اپنی تیاری مکمل کرلی اور ہاسٹل روانہ ہو گیا ۔۔۔

اب اسے اپنا پورا مہینہ اسی سکول میں گزارنا تھا ۔۔۔اس طرح کے اداروں میں سٹوڈنٹس کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ۔۔۔تقریبا پاکستان کے سبھی شہروں کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔۔۔۔

اس وقت عرفان کی عمر 15 سال ہوگی ۔۔۔جب پہلے دن عرفان اکیڈمی پہنچا تو وہاں کے سب  لڑکے اس کو  گھور گھور کر دیکھنے لگے ۔

دیکھنا تو بنتا تھا

سفید رنگ دوبلا پتلا موتیوں جیسی أنکھیں لمبا قد انتہا کا  خوبصورت اور ہنس مکھ اوپر سے زہین فتین اور بے پناہ پیسے کا مالک ۔۔۔ ۔۔

عرفان کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھنے والے  کو اپنے سحر میں مبتلا کردیا کرتا تھا ۔۔۔

اس طرح کے اقامتی  اداروں میں صرف لڑکے ہی پڑھتے ہیں ۔۔۔اور پھر آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی مرد کو لڑکی دیکھنا تک نصیب نہ ہو تو اس نے پھر لڑکوں پر ہی ٹرک مارنی ہے ۔۔۔۔بس یہی حال وہاں کے  لڑکوں کا تھا ۔۔۔۔

وہاں  کے لڑکے عشق بھی لڑکوں سے ہی کیا کرتے تھے ۔۔۔کیونکہ لڑکی تو انہیں دیکھنے تک کو نصیب نہیں ہوتی تھی ملنا تو دور کی بات تھی ۔۔۔۔۔

اسی لئے ہر لڑکے کی یہی خواہش تھی کہ عرفان اس سے دوستی کر لے ۔۔۔۔

لیکن عرفان ایک شریف بچہ تھا اور پڑھنے لکھنے میں بھی بہت ذہین تھا ۔۔۔۔اسی لئے اس کی دوستی بھی پڑھنے لکھنے والے بچوں سے ہوگی ۔۔۔۔وہ لوفر قسم کے لڑکوں سے دور ہی رہتا تھا ۔۔۔

اسی طرح وقت گزرتا گیا عرفان نے میٹرک کے پیپر دیے ۔۔جب رزلٹ آیا تو   اس  نے اپنے سیکشن میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے ۔۔۔۔ 

عرفان کے  گھروالے اور استاد سب اس سے  بہت خوش تھے ۔۔۔

جیسے میں نے  اپ کو بتاتا کہ وہاں ایک ماہ بعد صرف 5 دن کی چھٹیاں ملتی ہیں۔

اس ماہ   رزلٹ کی خوشی میں پورے سکول کو 7 چھٹیاں دی  گئیں تھیں ۔۔۔۔

اتنی چھٹیاں ملنے پر سب  بچے بہت خوش تھے ۔۔۔

سب نے اپنا سامان پیک کیا ۔۔اگلی صبح 9 بجے سکول کا گیٹ  کھول دیا گیا اور سب خوشی خوشی اپنے گھروں کی  طرف چل دئیے ۔۔۔

جب عرفان  گیٹ سے باہر نکلا تو   اپنے ابو کی گاڑی کی طرف جاتے ہوے  اس کی نظر سڑک کی  دوسری طرف اکیلی کھڑی  ایک   لڑکی پر پڑی ۔۔۔۔،

وہ لڑکیاں عرفان  کو بڑے ہی غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔لڑکی کو یوں اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر عرفان سٹپٹا گیا ۔۔۔

وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھنے لگا اور اس لڑکی سے نظر ہٹا لی۔۔۔۔

اپنا سامان وغیرہ گی میں رکھنے کے بعد جب عرفان گاڑی میں بیٹھ گیا تو ۔۔۔اس نے ایک نظر اس لڑکی پر ڈالی جو کہ ابھی تک بنا پلکیں جھپکاے  اسی کو  دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

وہ لڑکی بلا کی خوبصورت تھی ۔۔اس کا لباس بھی بہت شاندار تھا ۔۔۔۔وہ لڑکی سرخ جوڑے میں ملبوس تھی اور سر پر  دوپٹہ لیا ہوا تھا ۔۔۔۔

 عرفان نے اس کی طرف دیکھنا مناسب نہ سمجھا ۔۔جلدی سے گاڑی کا شیشہ  اوپر کیا  اور ابو کو گاڑی چلانے کا کہہ دیا ۔۔۔۔

 جس جگہ یہ لڑکی موجود تھی یہاں اس کے موجودگی کا کوئی تک نہیں بنتا تھا ۔۔۔اگر وہ کس  فیملی کے ساتھ ہوتی تو چلو سمجھ بھی  آتی کہ شاید اپنے کسی رشتہ دار کو لینے کے لئے آئی ہو۔۔۔۔لیکن وہ   لڑکی بالکل اکیلی تھی ۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد ازاں نے اپنے ابو سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کا ذکر کیا ۔۔۔ابو ابھی سکول کے باہر سڑک کی دوسری جانب کھڑی اکیلی لڑکی کو اپنے دیکھا جس نے سرخ لباس پہنا ہوا تھا ۔۔۔

ابو ۔۔نہیں بیٹا میں نے تو نہیں دیکھا 

عرفان ۔۔۔۔۔اب وہ ہماری گاڑی کی دوسری جانب ہی تو وہ موجود تھی ۔۔۔۔عجیب  بات ہے وہ آپ کو نظر نہیں آئی ۔۔۔

نہیں بیٹا تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میں کافی دیر سے وہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں تھا اس جانب تو ایسی  کوئی لڑکی موجود نہیں تھی ۔۔۔اگر ہوتی  تو مجھے بھی نظر آ جاتی ۔۔۔۔

اس معاملے پر مزید بات کرنا عرفان کو بھی مناسب نہیں لگا ۔۔چناچہ وہ بھی خاموش ہو گیا ۔۔۔۔

عرفان گھر آیا تو اپنے دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ اسے  وقت  کا پتہ ہی نہ چلا ہتاکہ  چھٹیاں  ختم ہوگیں ۔۔۔

 اگلے  دن عرفان عرفان کے والد ہی اسے سکول چھوڑنے کے لئے گئے تھے۔۔جب  وہ اسکول کے  گیٹ پر پہنچے تو وہ وہی لڑکی  وہاں پہلے سے  موجود تھی۔ جب عرفان کی نظر اس لڑکی پر پڑی تو وہ لڑکی عرفان  کی  طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔

عرفان نے جلدی سے اپنے ابو کو بتایا کہ وہ دیکھیں ابو اس دن والی لڑکی ۔۔۔۔

 عرفان کے والد نے اس جانب دیکھا اور پھر دوبارہ ان کی طرف گھور کر دیکھتے ہوے بولے  ۔۔۔

عرفان تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔کہاں ہے لڑکی ۔۔۔۔

ارے اب وہ دیکھیں وہ جو گیٹ کی دائیں جانب سرخ کپڑوں میں کھڑی ہے ۔۔۔۔۔

عرفان کے ابو نے ایک بار پھر گیٹ کی طرف دیکھا اور اس بار عرفان  کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ۔۔عرفان وہاں کوئی لڑکی نہیں ہے ۔۔۔تم اپنی پڑھائی پر توجہ دو ۔۔یہ تم کن چکروں میں پڑ گئے ہو ۔۔لگتا ہے ہوسٹل میں  بھی تمہیں  ہر وقت لڑکیوں کے خیال آتے رہتے ہیں ۔۔۔۔

عرفان بہت شرمندہ ہوا ۔۔۔

گاڑی سے اپنا سامان نکالنے کے بعد سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوتے وقت اس نے جو آخری چیز دیکھی وہ وہی لڑکی تھی ۔۔۔عرفان دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ،، یہ لڑکی تو یہی موجود ہے لگتا ہے اب وہ میرے ساتھ مذاق کر رہے تھے ۔۔۔

کچھ دن تک تو عرفان اسی لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔کہ آخر وہ کون تھی اور مجھے یوں کیوں دیکھ رہی تھی ۔۔لیکن پھر عرفان  اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگیا اور اس لڑکی کا خیال اپنے ذہن سے جھٹک دیا ۔۔۔

اس بچارے کو کیا پتہ تھا کہ  ۔۔۔اس پر کیا قیامت گزرنے والی ہے ۔۔۔۔

خیر اگلے ماہ جب عرفان پھر سے  چھٹیاں گزرنے کے لیے سکول سے باہر نکلا   تو اسے دوبارہ وہی لڑکی نظر آئی

اس مرتبہ تو عرفان پریشان ہوگیا کہ آخر یہ لڑکی کون ہے اور مجھے ہی نظر کیوں ہوتی ہے کسی اور کو نظر کیوں نہیں آتی ۔۔

خیر اس مرتبہ عرفان نے بھی اپنے ابو کو کوئی بات نہیں کی ۔۔۔۔۔عرفان گھر آگیا اور اپنی مصروفیات میں لگ گیا ۔۔۔

لیکن اس رات سے اسے عجیب و غریب خواب آنے لگے ۔۔۔۔

خواب میں سے وہی حسین و جمیل لڑکی نظر آتی ۔۔۔وہ لڑکی عرفان  سے اظہار محبت کر رہی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔

عرفان کو یہ خواب ہر رات آنے لگا ۔۔شروع میں تو وہ اسے اپنا وہم سمجھا ۔۔۔۔لیکن یہ خواب حقیقت سے اتنا قریب تر ہوا کرتا تھا کہ ۔۔اسے اس لڑکی سے کی گئی ایک ایک بات یاد رہنے لگی ۔۔۔وہ حیران تھا کہ اگر یہ خواب ہوتا ہے تو پھر مجھے اتنا تفصیلا کیسے  یاد ره جاتا ہے ۔۔۔۔۔

کچھ دن بعد عرفان دوبارہ اکیڈمی واپس چلا گیا لیکن اس مرتبہ وہ لڑکی وہاں موجود نہیں تھی ۔۔۔شاید وہ لڑکی اب یہ دنیا چھوڑ کر  عرفان کے خوابوں میں بس چکی تھی ۔۔۔۔اس لیے اس نے آج یہاں آنے کی زحمت نہیں کی ۔۔۔۔۔

اکیڈمی جانے کے بعد بھی خوابوں کا یہی سلسلہ جاری رہا۔۔۔اب  عرفان ذہنی طور پر بھی پریشان رہنے لگا تھا   ۔۔۔

عرفان کو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ خواب نہیں دیکھتا بلکہ اس لڑکی سے حقیقی ملاقات کرتا ہے ۔۔۔۔آخر ایک رات عرفان  اس سے پوچھ ہی  بیٹھا ۔۔۔۔۔۔

 تم کون ہو ،، روز میرے خواب میں کیوں آتی ہو ،، اور مہینے کے آخر پر  گیٹ پر کیوں موجود ہوا کرتی تھی ۔۔۔اور مجھے یہ خواب حقیقت کیوں لگتا ہے ۔۔۔اور آخری بار تم گیٹ پر کیوں موجود نہیں تھی ۔۔۔۔

اس لڑکی نے عرفان   کو بتانا شروع کیا ۔۔۔۔

میرا نام زلیخا ہے ۔۔۔۔میں ایک جن زادی ہوں ۔۔۔۔۔۔ہمارا خاندان تمہارے سکول سے کچھ ہی فاصلے پر ایک کھنڈر میں رہتا ہے ۔۔۔۔ایک دن میں یہی تمہارے اسکول کے درخت پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔میری نظر تم پر پڑی ۔۔۔۔۔۔تم شاید اپنی پڑھائی میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔۔میں کافی دیر تک بیٹھی تمہیں دیکھتی رہی ۔۔۔۔۔تمہاری خوبصورتی نے مجھے  پاگل کر دیا تھا ۔۔میں حیران تھی کہ کوئی آدم زاد اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے بھلا ۔۔۔۔

بس میں نے اسی دن فیصلہ کیا کیا تمہیں اپنا بنا لوں گی ۔۔۔۔اب تم صرف میرے ہو میں تمہیں کسی سے شادی نہیں کرنے دوں گی ۔۔۔اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچا تو میں تم دونوں کو تباہ و برباد کر دوں گی ۔۔۔۔

اور ہاں آخری بات میں گیٹ پر اس لیے موجود نہیں تھی کیونکہ آب  میںنے  تمہارے خوابوں میں آنے کا ارادہ کر لیا تھا  ۔۔۔۔۔تمہارے لئے یہ صرف ایک خواب ہی ہے ۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ۔۔میں تمہارے پورے وجود پر قابض ہو چکی ہوں ۔۔۔۔۔اب تمہیں میں جو بھی دکھانا چاہوں تم صرف وہی  دیکھ سکو گے ۔۔۔۔اگر تم نے میری مرضی کے خلاف جانے کی کوشش کی  تو انجام  کے ذمہ دار تم خود ہو گے ۔۔۔۔

تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ ۔۔۔تم بھی مجھ سے اتنا ہی پیار کرو جتنا کہ میں تم سے کرتی ہوں ۔۔۔۔تم بھی میرے لئے اتنا ہی تڑپو جتنا میں تمہارے لیے تڑپ رہی ہوں  ۔۔۔،

میں  یھاں سب کے  سامنے اپنا آپ ظاہر نہیں کر سکتی ۔۔صرف خوابوں میں ہی ملاقات کر سکتی ہوں  ۔۔۔۔لیکن میرا وعدہ ہے ۔۔۔جس رات تم گھر واپس چلے  جاؤ گے ۔۔۔میں  جسمانی شکل میں تمہارے سامنے حاضر ہو جاؤں گی ۔۔۔۔اب یہ تم پر منحصر ہے چاہو تو آج ہی گھر واپس جا سکتے ہو ۔۔۔

اتنا سنتے ہی عرفان کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔اس نے نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھا تو سب لڑکے سو رہے تھے ۔۔۔یہ شاید آدھی رات کا وقت تھا ۔۔۔اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھی ۔۔۔اسے اپنا سر منوں وزنی لگ رہا تھا  ۔۔۔۔

عرفان نے پھر سے آنکھیں بند کیں اور سو گیا۔۔۔۔۔

اس کے بعد خوابوں میں ہی  باتوں کا سلسلہ چل پڑا ۔۔اب  تو عرفان بھی شدت سے رات ہونے  کا انتظار کرنے لگاتھا ۔۔۔۔

۔۔،زلیخا اور عرفان کئی  کئی گھنٹوں تک خوابوں میں باتیں کیا کرتے تھے ۔۔۔اس دوران عرفان کو ایسے لگتا جیسے وہ حقیقت میں زلیخا سے مل کر آ رہا ہوں ،۔۔۔زلیخا تو پہلے ہی عرفان کو دل دے بیٹھی تھی ۔۔۔لیکن اب تو عرفان بھی زلیخا کے نام پر مر مٹنے کو تیار تھا ۔۔۔۔اسے اس بات کا ذرا احساس نہ ہوا کہ وہ ایک  جن زادی  کے عشق میں مبتلا ہو چکا ہے ۔۔۔۔اکیڈمی میں رہتے ہوئے زلیخا کھل کر  تو  عرفان  کے سامنے نہیں آ سکتی تھی ۔۔۔۔ہاں لیکن کبھی کبھار وہ اسے اپنی ہلکی سی جھلک ضرور دکھا دیا کرتی تھی ۔۔۔۔۔کسی ایسی جگہ جہاں لڑکوں کا زیادہ آنا جانا نہ ہو یا جس وقت تمام لڑکے کھانا کھانے میں مصروف ہوں اور پورشن  بالکل خالی ہو تو اس وقت عرفان اور زولیخہ کی سرسری ملاقات ہو جایا کرتے تھی ۔۔۔۔۔۔۔ابھی بات صرف گلے لگنے اور بوس و  کنار تک ہی پہنچی  تھی ۔۔۔۔۔عرفان تو  بس  زلیخا کی ایک جھلک دیکھنے کو ترسنے لگا تھا ۔۔۔نوٹ ۔۔۔دوستو اگر آپ اس کہانی کی تمام اقساط پڑھنا چاہتے ہیں تو مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیج دے ۔۔تاکہ میں جب بھی پوسٹ کروں تو آپ لوگوں کو نوٹیفیکیشن مل جایے ۔۔۔میری آئی ڈی پر بھی اس طرح کی  بہت سی  خوفناک کہانیاں موجود ہیں ۔۔آپ چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔۔

ان چند ایک سرسری سی ملاقاتوں کے بعد تو  عرفان تو جیسے  پاگل ہو چکا تھا ۔۔۔۔وہ ہر وقت زلیخا  کے خیالوں میں ڈوبا  رہتا  تھا ۔اس کی حالت دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے کوئی مد ہوش  شرابی چلا  آ رہا ہو۔۔۔۔

عرفان میں  آنے والی ان تبدیلیوں کو اس کے دوستوں اور اساتذہ نے  بھی  نوٹ کیا تھا ۔۔۔۔اب وہ پہلے کی طرح پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا ۔۔۔۔۔اور نہ ہی اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ بس اکیڈمی کے کسی الگ تھلگ کونے میں چھپ  کر بیٹھا رہتا تھا ۔۔۔۔۔اسے نہ اپنے کھانے کا ہوش تھا نہ نہانے کا ۔. ۔

اس کے دوست اس کی ان حرکتوں سے پریشان ہو چکے تھے ۔۔وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید عرفان بیمار ہے ۔۔۔کی ایک بار اس کے دوستوں نے اس سے  دریافت کرنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔لیکن عرفان نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے انھیں  خاموش کرا دیا ۔۔۔۔۔

اب تو عرفان  کو بس گھر پہونچنے  کی جلدی لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ اڑ کر گھر  پہنچ جاتا ۔۔۔

آخرکار مہینہ کے اختتام  پر وہ دن آ ہی گیا جب عرفان اپنا بیگ اٹھائے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔اس نے گاڑی میں اپنا بیگ رکھا اور گھر کے لئے روانہ ہوگیا ۔۔۔۔راستے میں اسے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا جیسے زلیخا کار  کی پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد عرفان اپنے گھر پہنچ چکا تھا ۔۔

گھر پہنچ کر اس کے ذہن میں زلیخا ہی سوار تھیں ۔۔

عرفان گھر والوں سے بھی زیادہ بات چیت  نہیں کر رہا تھا ۔۔انہیں لگا شاید  سفر کی تھکان کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے ۔۔۔

اندھیرا ہوتے ہی عرفان اپنے روم میں چلا گیا ۔۔جب  سب گھر والے سو چکے  تو زلیخا انسانی شکل میں عرفان کے سامنے آگئی ۔۔۔۔کافی دیر تک تو راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہیں ۔۔۔۔پھر آخر وہ ہو ہی گیا جس کا دونوں کو شدت سے انتظار تھا ۔۔۔۔

دوستو میں آپ لوگوں کے لئے اتنی محنت کرتا ہوں آپ لوگ نہیں کرتے مہربانی کرکے پوسٹ کو شیئر کیا کریں 🌹

زلیخا تو پہلے ہی حوس  کی ماری تھی ۔۔۔اس نے عرفان کو بھی ہو حوس پرست  بنا دیا ۔۔۔انسان ہونے کے باوجود عرفان ایک جن زادی سے  بستری کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا ۔۔بھلا ایک۔ جن زادی کی حوس کے آگے انسان کہاں ٹک سکتا ہے ۔۔۔۔عرفان کو لگا کہ بس اب تو اسکے مزے ہی مزے ہیں ۔۔۔۔

لیکن اسے معلوم نہی تھا کہ زلیخا تو آگ ہے آگ ۔۔۔۔۔

جنات تو بنے ہی آگ سے ہوتے ہیں اور انسان مٹی سے ۔۔۔۔بھلا آگ اور مٹی کا  ملن کیسے  ممکن ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔

خیر جسے تیسے دن گزرتے رہے ۔۔۔۔جن زادی اسی طرح  عرفان کی ہر رات کو رنگین بناتی رہی ۔۔۔۔

عرفان تو اب گھر سے باہر ہی نہی نکلتا تھا ۔۔۔۔اسکے گھر والے اس رویہ سے بہت پریشان تھے ۔۔۔وہ ہر وقت بس اپنے کمرے میں خود کو بند کے رکھتا تھا ۔۔۔۔گھر والوں کو بھلا کیا معلوم۔ تھا کہ اس بند دروازے کے پیچھے عرفان کس غیر فطری کام میں مصروف ہے ۔۔۔۔۔

گھر والوں نے اس سے باز پرس کرنے کی کوشش کی تو اسنے سختی سے منع کر دیا ۔۔۔۔۔۔وہ لڑکا جو ماں باپ کا فرمابردار تھا اب کچھ ہی دنوں میں۔ نا فرمان بن چکا تھا ۔۔۔۔ اسکے گھر والے شدید اذیت سے گزر رہے تھے ۔۔

اصل قیامت تو تب ٹوٹی جب عرفان نے واپس سکول جاننے سے ہی انکار کر دیا ۔۔۔۔۔اور دھمکی دی کہ اگر اسکے ساتھ زبر دستی کی گئی تو وہ خود کشی کر لے گا ۔۔۔ گھر والے یہ دھمکی سن کر خاموش ہوگے ۔۔۔۔انھیں لگا شاید عرفان کی طبیت ٹھیک نہی رہتی یا اسکے ساتھ کوئی اور مسلہ ہے اس لئے وہ ہمیں ابھی بتانا نہی چاہ رہا ۔۔کچھ دنوں میں  اسے احساس ہو جاۓ گا تو ہمیں سب بتا دے گا ۔۔۔۔

لیکن دنوں پر دن گزرتے رہے ۔۔عرفان کی وہی روش برقرار رہی ۔۔۔۔

عرفان کا رویہ اور بھی سیدہ گھمبیر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔اسے نہ کھانے کا ہوش تھا اور نہ کسی اور حاجت کا ۔۔۔وہ خود کو سارا دن کمرے میں بند رکھتا تھا ۔۔۔۔۔

آخر کار گھر والوں نے بھی ہار مان لی اور اسے اسکے حال پر چھوڑ دیا کہ کہیں زیادہ سختی کرنے پر کچھ کر ہی نہ بیٹھے ۔۔آخر  عرفان انکی جوان اولاد تھا ۔۔۔۔۔۔کہیں جوش میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھے ۔۔۔۔۔۔

گھر والوں کا  ماتھا تب ٹھنکا جب عرفان کی جسمانی حالت بگڑنے لگی ۔۔۔۔عرفان کی آنکھوں کے گرد حلقے چھا گے ۔۔۔۔اسکا چہرہ مرجھایا ہوا لگنے لگا ۔۔۔۔۔گھر والے اسکی یہ حالات دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے عرفان تو کسی سے بات تک کرنا گوارا نہی کرتا تھا ۔۔۔ جو لوگ اس کہانی کی تمام اقساط پڑھنا چاہتے ہیں مجھے فالو کر لیں یا پھر فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیں تاکہ ہر پوسٹ آپ تک  ٹائم پر پہنچتی رہے ۔۔۔

چونکہ ابھی عرفان کی نئی نئی جوانی تھی تو اسکے والد کا یہی   خیال تھا کہ شاید عرفان کسی غلط فیل یعنی خود لزتی میں مبتلا ہو چکا ہے ۔۔۔۔لیکن حقیقت اس سے زیادہ بهيانک تھی ۔۔۔۔۔

ایک رات آدھی رات کے وقت سب گھر والے سو رہے تھے کہ عرفان کے کمرے سے اچانک چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔۔۔سب لوگ اٹھ کر  کمرے کے  پاس چلے گئے اور آوازیں دے کر عرفان سے پوچھنے لگے کہ کیا ہوا ہے ۔۔لیکن عرفان تو  چیخ و پکار کے علاوہ کوئی جواب نہیں دے رہا تھا ۔۔۔

چوںکہ اسکے کمرے کو اندر سے کونڈی لگی ہوئی تھی اس لئے گھر والوں کو مجبورا دروازہ توڑ کر اسکے کمرے میں داخل ہونا پڑا ۔۔۔۔آگے جو منظر تھا اسے دیکھ کر سب گھر والوں کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔۔۔

جیسے ہی دروازہ توڑ کر گھر کے افراد کمرے میں داخل ہوئے ۔۔۔عرفان کی حالت دیکھ کر سب لوگ ششدر  رہ گئے۔۔

عرفان برہنہ حالت میں کمرے کے فرش پر اوندھے موں بے ہوش  پڑا ہوا تھا ۔۔۔عرفان کے ابو نے جلدی سے کپڑے پہنائے ۔۔۔عرفان کا جسم  ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا ۔۔اس کے گال اندر کو دھنس چکے تھے ۔۔۔۔۔آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں  ۔۔۔۔ایسے لگتا تھا جیسے عرفان سالوں سے بیمار ہو۔۔۔۔۔۔

اس کے پورے جسم پر مار کے نشان تھے ۔۔ایسے لگتا تھا جیسے کسی نے بے دردی سے پیٹا ہو ۔۔۔۔۔

عرفان کو جلدی جلدی ہسپتال پہنچایا گیا ۔۔۔۔ڈاکٹر بھی اس کی حالت دیکھ کر پریشان تھے ۔۔۔۔ایک ڈاکٹر  عرفان کے  ابو سے بولا کہ یہ لڑکا کتنے عرصہ سے بیمار ہے آپ اسے پہلے ہوسپیٹل کیوں نہیں رہے ۔۔۔

عرفان کے ابو نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ۔۔۔عرفان  بالکل بیمار نہیں تھا ۔۔۔۔کچھ مہینوں سے اس کا رویہ توڑا مشکوک تھا ۔۔ہم نے اس سے پوچھنے کی کوشش بھی کی ۔۔۔مگر اس نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔زیادہ سختی کرنے پر یہ ہمیں خودکشی کی دھمکیاں دیتا تھا ۔۔۔۔اس لئے مجبورا ہم نے کچھ نہیں پوچھا کہ کہیں کوئی الٹا سیدھا قدم نہ اٹھا بیٹھے ۔۔۔۔۔لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ اس حالت تک پہنچ جائے گا ۔۔۔

ڈاکٹر صاحب نے عرفان کے ابو کو بتایا کہ ۔۔۔ظاہری حالت سے تو یہ لگتا ہے کسی نے اس پر تشدد کیا ہے ۔۔۔اور کافی عرصے سے بھوکا پیاسا بھی رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔یہ ہمیں پولیس کیس لگتا ہے ۔۔۔۔۔مجبورا ہمیں پولیس کو بلانا پڑے گا ۔۔۔۔ہم نے اسے ابتدائی طبی امداد تو دے دی ہے ۔۔۔لیکن آگے کا علاج پولیس کے ریکارڈ میں آنے کے بعد ہی ہو سکے گا ۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ ہاسپٹل میں پولیس پہنچ چکی تھی ۔۔۔عرفان کے ابو چونکہ علاقے کے جانے والے بزنس مین تھے ۔۔۔اس لیے پولیس بھی انہیں اچھے سے جانتی تھی ۔۔۔۔عرفان کے ابو یعنی احمد صاحب کے ضروری بیانات لینے کے بعد پولیس واپس چلی گئی ۔۔۔۔۔۔عرفان اگلے دو دن تک ہاسپٹل میں بے ہوش پڑا رہا ۔۔۔۔جب تیسرے دن اسے ہوش آیا تو ۔۔۔پولیس دوبارہ اس کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے پہنچ گئی ۔۔۔۔لیکن عرفان نے پولیس والوں کو بتایا کہ اسے کچھ معلوم نہیں اور وہ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔۔۔پولیس والا یہ بات سن کر چلے گئے ۔۔۔۔

عرفان مزید کچھ دن ہاسپٹل میں ہی رہا ۔۔۔۔۔

اس کے بعد گھر آ گیا ۔۔۔۔۔

لیکن اب اسے روم میں اکیلے سونے کی اجازت نہیں تھی ۔۔۔اس کے ابو ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے ۔۔۔۔۔

کچھ دن تک تو سب کچھ ٹھیک رہا ۔۔۔۔لیکن پھر عرفان کو اچانک دورہ ہونا سٹارٹ ہو گئے ۔۔۔۔عرفان اپنے گلے کو خود دبانے لگتا تھا ۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ پاؤں مڑ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔زور زور سے چیخیں مارنے لگتا تھا ۔۔۔۔عرفان کی چیخیں سن کر ہمسایے بھی دہل جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔عرفان کے ابو نے اسکا بڑے سے بڑے ہوسپٹل میں چیک اپ کرایا ۔۔۔۔لیکن ان کی حالت نہیں سنبھل  رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کے تمام ٹیسٹ بھی کلیئر تھے ۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹروں کے مطابق سے شدید ذہنی صدمہ پہنچا تھا ۔۔۔۔۔۔لیکن اصل بات تو کچھ الگ ہی تھی ۔۔جو کہ صرف عرفان کو پتہ تھی لیکن   وہ تو کسی کو بتانا نہیں چاہ رہا تھا ۔۔۔۔

عرفان کے ابو بھی شدید ذہنی اذیت میں مبتلا تھے ۔۔ان کا جواں سال بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا ۔۔۔ڈاکٹروں کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی اوپر سے عرفان بھی کچھ نہیں بتاتا تھا ۔۔۔۔۔۔

ایک دن عرفان  کے ابو کا  دوست ان سے ملنے آیا ۔۔۔جب اسے عرفان  کی حالت کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے احمد صاحب کو مشورہ دیا کہ ۔۔۔۔آپ عرفان کو کسی بزرگ کے پاس لے جائيں ۔۔۔۔۔مجھے تو یہ کوئی روحانی مسئلہ لگتا ہے ۔۔۔۔اکثر جنات وغیرہ کے کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔اور بچے ڈر کے مارے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔۔

دوست کی بات سن کر احمد صاحب کا ماتھا ٹھنکا ۔۔۔۔احمد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ میرا بیٹا ایسا تو بالکل نہیں تھا ۔۔۔وہ تو مجھ سے اپنی ہر بات شیئر کیا کرتا تھا ۔۔۔۔پھر انہیں اچانک وہ لڑکی والی بات یاد آگئی ۔۔۔۔۔احمد صاحب نے اپنے دوست کو بتایا کہ ۔۔کچھ ماہ پہلے عرفان کو لال کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکی نظر آتی تھی ۔۔۔ایک دو مرتبہ عرفان نے اس لڑکی کا مجھ سے بھی ذکر کیا تھا ۔۔۔اور مجھے دکھایا بھی تھا ۔۔۔لیکن جس طرف عرفان اشارہ کر رہا تھا وہاں تو کوئی موجود نہیں تھا ۔۔۔۔۔

پتا نہیں مجھے یہ خیال پہلے کیوں نہیں آیا ۔۔۔۔اس کا روحانی علاج کی مجھے بہت پہلے ہی کروا لینا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔یقینا یہ جنات کا ہی معاملہ ہے ۔۔۔۔

پھر دوستوں اور رشتہ داروں سے سوچ بچار کے بعد احمد صاحب عرفان کو ایک بزرگ کے پاس لے گئے ۔۔۔۔۔۔۔کافی دیر تک وہ بزرگ عرفان پر پڑھائی کرتے رہے ۔۔۔اور آخرکار اس جن زادی   کی حاضری ہو ہی گئی ۔۔۔۔۔۔

بزرگ نے بتایا کہ ۔۔۔۔۔آپ کے بیٹے عرفان پر ایک جن زادی  عاشق ہو گئی تھی ۔۔۔۔وہ چڑیل اس کے ساتھ کافی عرصہ تک ہمبستری بھی  کرتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر آپ کا بیٹا ایک انسان ہی ہے اور انسان تو ویسے بھی خطا کا پتلا ہے ۔۔۔آپ کا بیٹا بھی اس جن زادی  کے جال میں پھنس گیا ۔۔۔۔۔

آپ کے بیٹے کی کچی جوانی بھلا اس جن زادی  کی حوس  کہاں مٹا سکتی ہے ۔۔۔۔۔شاید کچھ دن تک تو یہ جوانی کے جوش میں یہ سب کرتا رہا ہو گا ۔۔۔اور پھر کچھ دن مجبورا کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس زندگی کی ہوس کہانی ختم ہونے والی تھی ۔۔۔۔۔جب عرفان  کے جسم میں مزید برائی کرنے کی طاقت نہ رہی اور اس نے چڑیل کے ساتھ سیکس کرنے سے انکار کر دیا تو وہ چڑیل تیش میں آگئی اور اس پر تشدد کرنے لگے ۔۔۔۔۔

چونکہ عرفان نوجوان ہے ۔۔۔۔اور نوجوان لڑکے اپنے والدین کو اس طرح کی باتیں بتاتے ہوئے کتراتے ہیں ۔۔۔۔اسی لئے آپ کا بیٹا بھی  شرم کے مارے آپ کو کچھ نہیں بتا رہا تھا ۔۔۔۔۔آئندہ آپ اس سے تھوڑے دوستانہ  تعلقات  قائم کریں تاکہ آپ کے بچے آپ کو اس طرح کے مسائل  بتاتے  ہوئے نہ کترايں ۔۔۔۔

فی الحال تو میں نے اس چڑیل کو بهگا  دیا ہے ۔۔۔لیکن آپ لوگوں کو سات ہفتوں تک ہر جمعرات کو  مجھ سے علاج کروانے کے لئے  یہاں آنا پڑے گا ۔۔۔۔اس کے بعد انشاءاللہ آپ کے بیٹے کی اس حرام زادی  سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔

ہاں ایک اور بات ۔۔۔۔۔عرفان اس جنزادی سے ہمبستری کرنے کے بعد جنسی طور پر کافی کمزور ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔آپ اس کا علاج کسی اچھے حکیم یا ڈاکٹر سے ضرور کر آئے گا ۔۔۔۔تاکہ مستقبل میں اسے کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔۔۔۔۔

بے شک اگر کچی جوانی میں مرد بے تحاشا جنسی عمل میں مبتلا ہو جائے تو اس کے ٹھیک ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔۔۔لیکن آپ کو ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔آپ اس کا بہتر سے بہتر علاج کریں ۔۔۔۔انشاءاللہ اللہ کے حکم سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔

بزرگ نے اس کے گلے میں باندھنے کے لئے ایک تعویز دیا ۔۔۔پڑھا ہوا پانی اسے پینے کے لیے دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور اس بات کی تائید کی گئی کہ بچے کو کسی صورت اکیلا نہ چھوڑا جائے ۔۔۔۔۔اس کے علاوہ گھر میں خیرات اور پڑھائی وغیرہ کرنے کی بھی تائید کی ۔۔۔۔۔

 عرفان اور باقی لوگ بزرگ سے اجازت  لے کر  گھرواپس  آ گئے ۔۔۔اگلے دن ہی اس کے ابو نے بہت بڑی خیرات کی ۔۔۔۔بڑے بڑے علماء کرام کو بلایا اور قرآن پاک کے ختم کرائے ۔۔۔۔عرفان کے ابو نے عرفان کے صدقے میں  سیاہ رنگ کے 7  بکرے بھی قربان کیے اور ان کا گوشت غریبوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔۔۔۔۔

عرفان کو نماز کا پابند بھی کردیا گیا ۔۔۔۔اس کی صحت کا بہت خیال رکھا جانے لگا ۔۔۔۔ساتھ میں اچھے ڈاکٹر سے اس کا جنسی علاج بھی چلتا رہا ۔۔۔۔

بزرگ  کے پاس سات ہفتوں تک حاضری کے بعد وہ چڑیل عرفان  کی جان چھوڑ کر دفع  ہو چکی تھی ۔۔۔۔

اس کے بعد عرفان کے ساتھ اس طرح کے کوئی واقعات تو نہیں ہوئے تھے  لیکن وہ شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے کبھی نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکا ۔۔۔۔

عرفان جسمانی طور پر کبھی بہتر نہی  ہو سکا تھا ۔۔۔۔اس کے گھر والوں نے اسے ذہنی طور پر مطمئن رکھنے  کی کافی کوشش کی لیکن اس پر گزرے واقعات نے شاید اسے ذہنی طور پر  شدید توڑ دیا  تھا ۔۔۔ عرفان  نے اپنی پڑھائی کو بھی مکمل طور پر خیر آباد کہہ دیا تھا ۔۔۔۔

عرفان کی دبلی پتلی حالت دیکھ کر لوگ بھی اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔۔۔۔ان باتوں کی وجہ سے بھی وہ بہت پریشان رہتا تھا اور احساس کمتری کا شکار تھا ۔۔۔۔۔لوگوں کی باتوں سے تنگ آ کر اس نے گھر سے باہر نکلنا تک چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔

عرفان اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں ۔۔۔۔

تقریبا دو سال تک اس کے والدین نے عرفان کو ہر طرح سے مطمئن رکھنے کی بہت کوشش کی تاکہ وہ خوشحال زندگی کی طرف واپس لوٹ سکے ۔۔۔۔۔لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔۔

دو سال بعد شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے  عرفان ذہنی مریض بن چکا تھا ۔۔۔اسے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کو دکھایا گیا ۔۔اور مہنگے سے مہنگا علاج کیا گیا ۔۔۔یقین وہ ٹھیک نہ ہو سکا ۔۔۔۔۔۔اور اسی حالت میں ایک دن اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ماں باپ آج بھی اسے یاد کر کے بہت روتے ہیں ۔۔۔۔۔۔آپ لوگوں سے میرے دوست کی مغفرت کے لیے دعا کی اپیل ہے ۔۔۔اللہ تعالی اسے جنت میں جگہ دے آمین ۔۔۔۔

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔عرفان آخری دم تک اس جن زادی  کے عشق میں مبتلا رہا ۔۔۔۔۔۔اسے اس جن زادی سے شدید محبت تھی ۔۔۔۔عرفان بھلا اپنی محبت کے بغیر کہاں زندہ رہ سکتا تھا ۔۔۔

اب اس واقعی کو 10   سال بیت چکے ہیں ۔۔۔۔

دوستو یہ کہانی بالکل سچی تھی ۔۔۔۔۔کمنٹ میں ضرور بتائیں آپ لوگوں کو یہ سچی کہانی کیسی لگی ۔۔۔میں نے پہلی مرتبہ کوئی کہانی لکھی ہے میری حوصلہ افزائی ضرور کریں ۔۔۔۔

اگر آپ لوگوں نے اس پر اچھا رسپانس دیا تو میں آپ لوگوں کو جلد ہی ایک نئی کہانی سناؤں گا ۔۔۔۔تو کمنٹ میں ضرور بتائیں کون کون میری اگلی کہانی پڑھنا چاہتا ہے ۔۔۔۔

تحریر۔۔ پہاڑوں کا شہزادہ