خونی چُڑیل

  خونی چڑیل-     Bloody Witch

ازقلم :- فرحین دیوداس
یہ کہانی ایک ایسی چڑیل کی ہے جو کہ ہر وقت خون کی پیاسی رہتی ہے چاہے وہ جانوروں کا ہو یا انسانوں کا
تو آئیے چلتے ہے کہانی کی طرف۔۔۔۔۔
آج سے تقریبا 200 سال پہلے ایک جھیل کے کنارے اکثر ایک چڑیل نظر آتی تھی جسے اجکل بنجوسہ جھیل کہا جاتا ہے جو آذاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ میں واقع ہے جھیل کے ارد گرد کئی گاؤں  آباد تھے چڑیل کی خوف سے یہاں لوگ کم آیا کرتے تھے ایک دن بگل کے گاؤں  منڈال خیل سے کچھ دوست چڑیل کو دیکھنے کی خواہش سے آئے ۔اور جھیل کے ارد گرد جھاڑیوں میں چھپ گئے اور دور سے جھیل پر نظریں جمائے رکھیں ہے ۔شام ہونے کو آئی سب کا بھوک سے برا حال ہوا لیکن چڑیل کیا ایک پرندہ تک نہیں آیا سب نے واپسی کا سوچا اور اپنے اپنے گھروں روانہ ہوگئے اور راستے میں چڑیل پر بات چیت ہوتی رہی عدنان نے کہا کوئی چڑیل نہیں یہ سب افواہیں ہے اور کچھ نہیں اتنے میں قیصر بولے نہیں میرے داداجی نے خود دیکھا ہے اتنے میں عدنان بولے داداجی نے شاید اپ کو ڈرانے کے لیے بولا ہو جیسے ماں اپنے بچوں کو ڈراتی ہے کہ دودھ پیو یا کھانا کھاو یا باہر مت جاو ورنہ بھوت اجاۓ گا خیر سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے رات گئی بات گئی وقت گزرتا گیا گرمی کا سیزن چل رہا تھا اتنے میں شکار کا پروگرام بن گیا سب دوست پھر سے اکھٹے ہوگئے اور اسی جھیل کی طرف شکار پر گئے جھیل کے قریب پہاڑ اور ایک جنگل بھی تھا سب نے اپنے ساتھ ضرورت کا سامان لیا ہر ایک نے گھر سے دو دو روٹی اور ایک ایک پیاز لیا ساتھ میں کچھ غلیل اور مچھلی پکڑنے کی ہوک وغیرہ بھی تھے دوپہر ہونے کو آئی گرمیوں میں دوپہر کے وقت بھی لوگ سویا کرتے تھے چاروں طرف خاموشی تقریباً 7 سے 8 مچھلی پکڑی اور کچھ پرندوں کا شکار کیا سب دوست جنگل کے بیچ میں ہے کھانا کھانے کا سوچا اور ایک مناسب جگہ بیٹھ گئے قیصر نے شکار والی مچھلی اور پرندے ایک درخت کے ساتھ لٹکادی اور اپنے دوستوں کے ہمراہ اکے بیٹھ گئے عدنان نے کہا مچھلی پرندے کہا ہے زمین پر مت رکھنا ورنہ چیونٹی کھاجائنگے قیصر بولے آپ جیسے بیوقوف نہیں پیچھے ایک درخت کے ساتھ لٹکادی ہے عدنان سہی کیا کچھ پرندوں سے خون بہہ رہا تھا اور نیچھے زمین پر ایک پتے پر خون کی بوند گرتے ہی ٹپ ٹپ کرتا تھا خون کی بوُ چڑیل کی ناک تک گئی اور چڑیل خون کے پیچھے پیچھے آگئی جیسے ہی سب نے کھانا کھایا بات چیت میں مصروف ہوگئے اور جانے کا سوچ رہے ہے لیکن عدنان کہتے ہے نہیں دو تین گھنٹہ اور بھی دیکھتے ہیں شاید کوئی بڑا شکار ہاتھ لگ جائے سب مان جاتے ہے اور قیصر کو بولتے ہے جاکے سامان لاو کہاں رکھا ہے قیصر جیسے ہی درخت کی قریب جاکے دیکھتا ہے وہاں زمین پر پروندوں کے پر اور مچھلیوں کے کانٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور اپنے دوستوں کو آواز دیں کے بلاتے ہے جب سب دوست آکے دیکھتے ہے تو پریشان ہوتے ہے کہ کسی جانور نے کھایا ہوگا اتنے میں قیصر بولتا ہے یار میں نے تو کافی اوپر لٹکایا تھا اتنے اسانی سے کیسے کھاسکتا ہے نہ ہمیں کوئی اواز آئی عدنان بولتے ہے شاید سانپ ہو اس پر سب نے اتفاق کیا اور کہا ساری محنت برباد ہوگئی اتنے میں ایک پرندہ سامنے درخت کی شاخ پر بیٹھ جاتا ہے جیسے ہی عدنان اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے وہ اڑ کے دوسری درخت پر بیٹھ جاتا عدنان جیسے ہی نشانہ لگا لیتے ہے عدنان کی ہاتھ کانپنے لگتا ہے وہ چڑیل اوپر ایک درخت پر بیٹھی ہوئی تھی بہت ہی ڈراونی لمبے لمبے ناخن بڑے بڑے دانت اور ڈراونی آنکھیں اور وہ غصے سے عدنان کی طرف دیکھ رہی ہے اتنے میں عدنان کی ہاتھ سے غلیل چل جاتا ہے اور پتھر سیدھا چڑیل کو لگ جاتی ہے اور چڑیل کی ماتھے سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے اتنے میں عدنان زور سے ایک اواز لگاتا ہے بھاگو اور سب دوڑنے لگتے ہے چڑیل ایک درخت سے دوسری دوسری سے تیسری اور سب کے سامنے اکے کھڑی ہوجاتی ہے اور ماتھے سے گرتے خون کو پی جاتی ہے سب دوست انتہائی ڈرے ہوئے ہوتے ہیں ۔اتنے میں ایک جنگلی کتا اکے چڑیل پر بھونکنے لگتا ہے دور دراز سے بھی کتے کی بھونکنے کی آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہے چڑیل اپنے ہاتھ زمین پر رکھتی ہے اور کتے کی طرف غصے سے دیکھتی ہے اتنے میں کتا چڑیل پر حملہ کرتا ہے اور چڑیل بہت تیزی سے سامنے والے درخت پر چڑھ جاتی ہے اور اس درخت سے دوسرا تیسرا ایسے ہی اور بہت تیزی سے نیچھے اکے کتے کے گردن پر منہ رکھتی ہے اور اپنے ہاتھ کتے کی جسم میں گھسالیتی ہے اور تب تک منہ نہیں ہٹاتی جب تک کتے کی سانس نہیں رکتی یہ سب دیکھ کے سارے دوستوں کی پینٹ گیلی ہوجاتی ہے اور سب دوڑنے لگتے ہے کافی دور تک گئے پیچھے دیکھا تو کوئی پیچھا نہیں کررہا ہوتا سب نے کہا کوئی نہیں ہے چلو جلدی سے اس جنگل سے نکلتے ہے تھوڑا آگے جاتے ہے تو ایک دوست کے دونوں پاوں کے بیچ ایک سانپ اس کے پاوں سے گول گول گھوم کے اوپر اجاتا ہے جیسے اس کی ساری جسم کو کسی نے رسی سے باندھا ہو باقی دوست ڈنڈا لکڑی اٹھا کے سانپ کو مارنے کی کوشش کررہا ہے لیکن سانپ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ کوئی بھی قریب نہیں جاتا اور سانپ اس کے گردن پر منہ رکھتا ہے اور چڑیل کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے پیٹ میں گھسادیتی ہےاور اس کے جسم سے سارا خون نچوڑ کے پی جاتی ہے تب تک جب تک اس کی سانسیں بند نہ ہوتی اور وہ تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے یہ سب دیکھ کے سارے دوست حوصلہ ہار جاتے ہیں اور ڈر سے زمین پر گر جاتے ہے اور چڑیل کے منہ خون میں لت پت اور ان سب کی طرف مسکراتی ہے اور اپنے زبان سے ہونٹوں کو چاٹتی ہے اور کہتی ہے بہت میٹھا خون ہے اب تم سب کی بھاری اج تو مزہ اگیا سب دوست دوڑنے لگتے ہیں اور جنگل سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہے تھوڑی دیر بھاگنے کے بعد ایک دوست کا پاوں آٹک جاتا ہے اور گرنے لگتا ہے سب دوست اسے اٹھانے کی کوشش کررہے ہے لیکن وہ کافی تھک چکا ہے اور پاوں میں موچ بھی آئی جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کرتا ہے واپس گرجاتا ہے اتنے میں ایک بڑے درخت سے چڑیل الٹے پاوں نیچھے کی طرف اتی رہی اور اس کی اوپر اکے بیٹھ گئی اور اس کے چھاتی پر دونوں ہاتھ رکھے اور کچھ گنگناتی رہی اور ڈراونی مسکراہٹ سے اس کے دوستوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے اور سارے دوست رو روکے دوست کی جان کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن چڑیل کو انکی رونا دھونا سن کے مزہ اتا ہے اور زور زور قہقہے لگاتی ہے اور ایک ڈراونی آواز میں کہتی ہے تم سب مروگے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑونگی اور اپنی ایک انگلی اس کی چھاتی میں گھساتی ہے اور باہر نکال کے اپنی انگلی کو چاٹتی ہے اور کہتی ہے واہ مزہ اگیا اس کی خون بھی بہت ٹیسٹی ہے اور وہ بیچارہ بچاو بچاو کی نارے لگائے بیٹھا ہے چڑیل نے جیسی ہی اپنی منہ اس کی گردن پر رکھا اور خون چوسنا شروع کیا اتنے میں عدنان نے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور چڑیل کی سر پر مارا اور چڑیل کی سر سے کالا خون بہنا شروع ہوگیا چڑیل نے زور سے ایک چیخ مارا جو پورے جنگل میں گونج اٹھا اور ہر طرف سے پرندوں کی آوازیں انا شروع ہوگئی اور چڑیل زمین پر گر گئی سب دوست کے پاس گئے اور اسے دلاسہ دیتے رہے کہ تمھیں کچھ نہیں ہوگا دیکھو چڑیل بھی مرگئی لیکن اس کا کافی خون چڑیل نے پیا تھا اور گردن پر چڑیل کی دانتوں کا کافی گہرا زخم اسے پتہ تھا میں نہیں بچ سکتا تو اس نے اپنے دوستوں کو جانے کا بولا کہ تم لوگ یہاں سے جلدی نکلو اور اسی وقت تڑپ تڑپ کے مرگیا سب لوگ رو رہے تھے کہ قیصر کی نظر چڑیل پر پڑی چڑیل جیسے ہی اٹھ رہی تھی قیصر نے ایک لکڑی اٹھائی اور چڑیل کی سر پر ماری اتنے میں عدنان نے بھی اور باقی تین دوستوں نے بھی لکڑی اٹھائی اور چڑیل کو لگاتار مارتی رہی اور چڑیل کی زبان سے ایک ہی اواز نکلتی ہے تم سب مروگے میں کسی کو نہیں چھوڑونگی شام ہونے کو قریب تھا سب نے کہا چلو اندھیرا ہونے سے پہلے ہم یہاں سے نکلتے ہیں ۔جیسے ہی بھاگنے لگے تھے چڑیل بیٹھ گئی پانچوں دوست چڑیل سے کچھ فاصلے پر تھے چڑیل نے اپنا ہاتھ لمبا کیا اور جیسے ہی قیصر کی پیٹ میں گھسانے کی کوشش کی عدنان کی نظر چڑیل کی ہاتھ پر پڑی اور زور سے اس نے چڑیل کی ہاتھ کو لکڑی سے دے مارا لیکن چڑیل کی ہاتھ سے قیصر کی جسم پر خروش آئے اور خون بہنا شروع ہوگیا اتنے میں چڑیل نے پھر حملہ کیا لیکن سب نے لکڑی سے وار کیا اور چڑیل نیچھے گرگئی اور دوڑنے لگے اپنے بچاو کے لیے لکڑیاں ساتھ لی اور اندھیرا ہونے سے پہلے جنگل سے نکل گئے اور شام کو اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئے سب ڈرے ہوئے تھے ۔لیکن قیصر کی جسم سے خون بہنا بند نہیں ہوا گھر والوں نے پوچھا تو قیصر نے سارا واقعہ سنادیا قیصر کی ماں بولی افف اللہ رحم اور پھر قیصر پر غصہ ہوگئی کہ تمھیں منع کیا تھا نہ باقی دو دوستوں کی فیملی سب دوستوں کے گھر ائی جب وہ اپنے بیٹوں کے موت کا سنا تو رونے لگ گئے قیصر کو مرہم پٹی کردی رات ہوگئی سب سونے لگے ادھی رات ہوگئی جنگل سے لیکر قیصر کی گھر تک قیصر کی جسم سے جو خون کی بوندیں زمین پر گری تھی چڑیل اسے چاٹتے چاٹتے قیصر کی گھر تک اگئی ۔ گاؤں  میں بہت سارے گھروں میں کتے موجود تھے کچھ گاؤں  کے گلیوں میں بھی تھے ۔۔ادھی رات کو کتوں کی بھونکنے کی اوازیں کافی دیر تک سب گاؤں  والے جاگ گئے کہ گاؤں  میں شاید چور آگئے ہیں اس لیے کتے بھونک رہے قیصر عدنان اور باقی تین دوست بھی جاگ گئے کچھ بزرگ بندوق کے ساتھ باہر نکل گئے کافی بزرگ نکلے تھے ہر گھر گلی سے کوئی نہ کوئی باہر حالات کا جائزہ لینے نکلے تھے سب بات چیت میں مشغول ہوگئے کہ گاؤں  میں چور گھس آیا ہے ورنہ کتے ایسے کبھی نہیں بھونکتے سب نے کہا ھاں ھاں ایسا ہی ہے لیکن اب پتہ نہیں کس کے گھر میں گھسے ہے کچھ بزرگوں نے اواز لگادی کہ سب خیر ہے اگر کوئی پرابلم ہے تو بتاو کوئی اواز نہیں آئی اور کتوں کا بھونکنا بند نہیں ہورہا تھا گاؤں  میں ایک چھوٹا سا خالی میدان تھا جہاں گاؤں  کے بچے کھیلتے تھے اس میدان میں ایک بہت بڑا درخت بھی تھا سارے کتے اس درخت کیطرف دیکھ کے بھونک رہے تھے اور جو کتے باہر تھے وہ سب وہاں درخت کے ارد گرد چکر لگا کے اوپر دیکھ کے بھونک رہے تھے کچھ بزرگوں نے کہاں چلو آگے دیکھتے ہے کہ کیا ماجرا ہے جیسے ہی میدان کے قریب پہنچ گئے تو دیکھا گاؤں  کے سارے کتے اس درخت پہ بھونک رہے تھے ۔کچھ بزرگوں نے اوازیں لگانا شروع کردی کون ہے وہاں ٹارچ بھی مارا لیکن کوئی آواز نہیں آئی سب خیران ہوگئے ان کتوں نے ایسا کیا دیکھا کہ بھونک رہے چپ ہی نہیں ہورہے سب لوگ درخت کے قریب پہنچ گئے اور ٹارچ مارا وہاں کوئی نہیں سب نے کہا شاید سانپ یا کسی جانور کو دیکھا ہو کمبختوں نے نیند خراب کردی ۔اتنے میں درخت کی شاخ ہلنے لگے سب گاؤں  والوں نے اوپر درخت کیطرف دیکھا ۔اور ٹارچ مارا تو ایک خوفناک چڑیل درخت پر بیٹھی تھی کچھ لوگ تو دیکھ کے بھاگ گئے کچھ لوگ وہی کھڑے ہوکے دیکھتے رہے اور سب یا اللہ خیر یا اللہ مدد کہنے لگے چڑیل زور زور ہنستی رہی اتنا ڈراونا ہنسنا کہ اس کی ہنسنے کی اواز پورے گاؤں  میں گونج رہی تھی قیصر عدنان اور باقی دوستوں نے جب ہنسنے کی آواز سنی تو اسے معلوم ہوا کہ یہ تو وہی چڑیل ہے اور خوف میں مبتلا ہوگئے اتنے میں چڑیل بے حد ڈراونی اواز میں بولی کسی کو نہیں چھوڑونگی سب کو مار ڈالونگی اور اپنی بدصورت اواز میں گنگنانے لگی اور اس درخت سے قیصر کی گھر کی چھت پر گئی جیسے ہی چڑیل درخت سے قیصر کے چھت پر گئی تو سب گاؤں  میں ہلچل مچ گئی اور چڑیل چڑیل پکارنے لگے قیصر کی ماں نے نے گاؤں  والوں کا شور سنا اور کمرے سے باہر آگئی کہ لوگ کیوں شور مچارہے ہے اتنے میں اس کی نظر چڑیل پر پڑی اور زور زور سے چیخنے لگی اور یکدم بیہوش ہوکے زمین پر گرگئی اندر سے بچوں نے ماں کی چیخنے کی آواز سنی اور کمرے سے دوڑ کے آگئے اور مــاں کو زمین پر دیکھ جلدی اٹھایا اور چارپائی میں ارام سے لٹایا قیصر بھی کمرے سے باہر آیا اور چڑیل کی نظر قیصر پر پڑی اور چھت سے نیچھے اکے ایک گائے کے اوپر بیٹھ گئی قیصر نے جب چڑیل کو دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کوئی ایسی چیز جس سے وہ چڑیل پر حملہ کریں چڑیل نے اپنی پانچوں انگلیاں گائے کی کمر میں گھسادی گائے درد کی شدت سے شور کرنے لگی اور درد کی وجہ اپنے جگہ پر گھوم رہی تھی اتنے میں گاؤں  والے قیصر کے گھر آپہنچے اور دیکھا تو چڑیل گائے کی اوپر تھی اور قیصر کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنی انگلیاں چاٹ رہی تھی اور زور زور سے قہقہے لگاتی رہی اور اپنی انگلیاں گائے پر صاف کرتی رہی اور قیصر کی طرف دیکھ کے اپنی بدصورت آواز میں کہنے لگی کہ جانوروں کی خون میں وہ لذت کہاں جو انسانوں کی خون میں ہو اور قیصر پر حملہ کردیا لیکن گاؤں  والوں نے کافی فائرنگ کی جس کی وجہ سے چڑیل اپنے حملے میں کامیاب نہ ہوسکی اور فوراً غائب ہوگئی سب گاؤں  والے قیصر کے گھر میں تھے اور یہی باتیں ہورہی تھی کہ چڑیل سے کیسے چھٹکارا پائے اور سب مطمئن ہوگئے کہ چڑیل چلی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے سارے گاؤں  میں خوف کا عالم تھا جیسے ہی سب لوگ قیصر کے گھر سے نکلے اور سب الگ الگ ہوگئے اتنے میں ایک چیخ سب کو سنائی گئی اور سب دوڑ کے وہی گلی میں گئے ایک نوجواں زمین پر مرا ہوا پڑا تھا اور اس کی گردن پر چڑیل کے دانتوں کے نشانات تھے گاؤں  میں خوف اور بھی بڑھ گئی اور فکر ہونے لگ گئی وقت گزرتا گیا لیکن خون کا کھیل یونہی چلتا رہا لوگ شام تو دور دوپہر کو بھی گھروں سے نہیں نکلتے سب گاؤں  والوں نے جرگہ بلایا اور چڑیل کو گاؤں  سے بگھانے کی ترکیب سوچی کچھ گاؤں  والے شہر میں چلے گئے انسانوں کے ساتھ ساتھ گاؤں  میں مویشی بھی کم ہونے لگے سب گاؤں  والوں نے ایک فیصلہ لیا کہ چڑیل کو کسی بھی طریقہ سے گاؤں سے بگھائنگے یا ماردینگے سب نے چندہ اکٹھا کیا اور جب تک چڑیل کو نہیں مار دیتے تب تک ہر ایک گھر سے روز بکرا بکری کوئی بھی مویشی ہم شام سے پہلے بڑے درخت کے ساتھ باندھے گے تاکہ چڑیل ہم میں سے کسی پر حملہ نہ کریں یونہی سلسلہ جاری رہا روز کوئی نہ کوئی بڑے درخت کے ساتھ بکرا گائے چھوڑ آتے ہے اور صبح جب دیکھتے ہے تو اس کی لاش پڑی رہتی ہے وقت گزرتا گیا سب لوگ تنگ آگئے اتنے میں عدنان نے سب گاؤں  والوں کو کہا کہ کیوں نہ ہم اس چڑیل کو پکڑے اور ماردیں میں پہلے بھی مارچکا ہوں اسے بس تھوڑی ہمت کی ضرورت ہے سب گاؤں  والوں نے عدنان سے کہا کہ کیسے مارینگے عدنان کے پاس ایک ترکیب تھا اور گاؤں  والوں کو سنایا سب کو بہت پسند آیا لیکن پھر بھی پوچھنے لگے یہ کام تو کرے گا نہ ایسا نہ ہو کہ چڑیل اور بھی غضب ناک ہوجائے جو چندا گاؤں  والوں نے اکٹھا کیا تھا اس پر عدنان نے ایک بڑا پنجرہ بنایا جو کافی مضبوط تھا اور بڑی درخت کے ساتھ ایک بڑا کھڈا کھودا اور اس میں پنجرہ رکھا چڑیل رات کو کھانے کے لیے اتی تھی اور دن کو جھیل جنگل میں گھومتی تھی لیکن گاؤں  والوں نے یہ سب کام دن کو کیا اور پنجرے کو چھپایا جیسے ہی شام ہونے آئی پنجرے میں ایسا سسٹم بنایا تھا کہ اس کے اوپر گھاس پتے رکھے تھے اور ایک طرف پر وہاں بکری کو باندھا تھا دوسری طرف گھاس پتوں سے چھپایا تھا رات ہوگئی سب گاؤں  والے چھپ گئے تھے چڑیل کی انتظار میں کافی رات ہوگئی چڑیل نہیں آئی سب گاؤں  والے مایوس ہوگئے کہ کہی چڑیل کو ہماری سازش کا پتہ تو نہیں اب ہمارا کیا ہوگا وہ ہم سب کو مارڈالے گا اب سب گاؤں  والے اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ اچانک کتوں کے بھونکنے کی اوازیں شروع ہوگئی اتنے میں ایک بزرگ نے کہا خاموش ہوجاو سب شاید چڑیل اگئی سب نے پوچھا تمھیں کیسے پتہ اس نے بولا کہ کتے بھونکنے لگے اور ایسی مخلوق جانوروں کو نظر آتی ہے اس لیے بھونکتے ہیں تمھیں یاد نہیں جس دن چڑیل پہلی بار آئی تھی تو کتے درخت کے ساتھ اکٹھے ہوگئے تھے اور بھونک رہے تھے سب نے کہا ھاں ھاں لیکن اللہ کرے ایسا ہی ہوں تھوڑی دیر بعد چڑیل درخت پر اگئی سب گاؤں  والے اتنے خاموش ہوگئے کہ اپنی سانسیں تک بند کی کہ چڑیل کو ہمارے موجود ہونے کا علم نہ ہوں چڑیل درخت سے کبھی ایک شاخ پر کبھی دوسری شاخ پر اور جیسے ہی درخت کی آخری شاخ پر آگئی تو بکری کو دیکھ کے خوش ہوگئی اور اپنی آپ سے باتیں کرنے لگی کہ میں اس گاؤں کی ملکہ ہوں یہ جنگل گاؤں  سب میرے اختیار میں ہے اور زور سے ہنسنے لگی اور درخت سے نیچھے کی طرف بکری پر حملہ کرنے لگی چڑیل جب بھی شکار کرتی تھی ہمیشہ اپنے دانت جانور انسان کی گردن پر رکھتی اور تب تک نہیں چھوڑتی جب تک سارا خون نہیں پیتی خیر جیسے ہی چڑیل حملہ کرنے لگی بکری کی گردن پنجرے کی طرف تھا چڑیل نے بکری کی گردن پر جیسے ہی منہ رکھا بکری سمیت دونوں پنجرے والے کھڈے میں گرگئی اور اوپر سے پنجرہ مضبوطی سے بند ہوگیا چڑیل نے جب یہ سب دیکھا تو غصہ سے اگ بگولہ ہوگئی اور سب گاؤں  والے کو کہاں کہ چھوڑدوں مجھے ورنہ سب کو مارڈالونگی اور بار بار اپنی منہ کھولتی دانت چھباتے اور پنجرے سے حملہ کرنے کی کوشش کررہی تھی لیکن پنجرہ بےحد مضبوط تھا ۔۔سب گاؤں  والوں نے پنجرہ باہر نکالا اور جیسے ہی گاؤں  میں چڑیل کی پکڑنے کی افوہ پھیل گئی سب لوگ کافی خوش ہوئے اور ایک خوشی کا ماحول بن گئی سارے گاؤں  والے شدید غصے میں تھے اور جو چیز بھی ہاتھ لگتا چڑیل پر وار کردیتے کوئی پتھروں سے تو کوئی لکڑیوں سے اور چڑیل درد سے چیختی رہی چلاتی رہی کافی مارنے کے بعد چڑیل یکدم خاموش ہوگئی سب کو لگا کہ شاید مرگئی ابھی سب ابھی اسی بحث میں لگے ہے کوئی کہتا ہے کہ مار کے دفناتے ہیں تو کوئی کہتے ہے کہ نہیں نہیں اسے جلادیتے ہے خیــر کافی رات ہوگئی تھی گاؤں  کے بزرگوں نے کہاں کہ ابھی سوتے ہے صبح اس کا فیصلہ کرلینگے اور چڑیل کو ایک حویلی میں رکھنے کو بولا کچھ نوجوان پنجرہ اٹھانے لگے اور حویلی لیکے گئے صبح ہوگئی اور سب گاؤں  والے اکٹھا ہوگئے اور سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ چڑیل کو مار کے پنجرہ سمیت دفنادینگے اب پھر سب بھاری بھاری چڑیل کو مارنے لگے اور چڑیل کی بری حالت ہوگئی لیکن سب یہی سوچ رہے کہ چڑیل کو کہاں دفنائے گے اس پر عدنان نے کہا کہ جھیل کے ساتھ والی جنگل میں دفناتے ہے سب کو عدنان کی یہ بات پسند آئی اور سب عدنان کی تعریفیں کرنے لگے کہ یہ چڑیل عدنان کی وجہ سے ہم نے پکڑلی خیر چڑیل کو جنگل کیطرف روانہ کیا اور اپنے ساتھ کچھ کھدائی کا سامان بھی لیا جنگل پہنچ گئے اور پنجرے کو ایک جگہ رکھ کے کھدائی شروع کی کافی حد تک کھدائی کردی آسمان پر کالے بادل چاگئے گاؤں  کے بزرگوں نے کہا جلدی کرو بارش کا امکان ہے پنجرے کو کھڈے میں رکھا اور اوپر سے مٹی ڈالدی اور کچھ مٹی رہ گئی اسے بھی ڈالدی اتنے میں تیز ہوا چلنے لگی اور سب گاؤں  کیطرف روانہ ہوگئے جیسے ہی جنگل سے نکل گئے جنگل سے چیخنے کی آوازیں آرہی ہے جیسے کوئی تکلیف میں ہو اور اتنی تیز ہوا کی درختوں جکھنے پر مجبور کیا سب اپنے اپنے گھروں پہنچ گئے اور سکون کے نیند سوگئے اور ہوا کافی تیز کھڈے سے اوپر اوپر مٹی ہوا لے گئی اور جنگل سے مسلسل چیخنے کی آوازیں آرہی ہے گاؤں  تک تو نہیں آتی لیکن جنگل کے قریب سنائی دیتی ہے اتنے میں شدید بارش شروع ہوگئی اور کھڈے سے کچھ مٹی ہٹایا اور پنجرہ نظر آنے لگا کچھ دیر بعد بارش رک گئی گاؤں  میں پھر سے خوشیاں ہی خوشیاں پھر لوگ دیر تک باہر بیٹھنے لگے گھومنے لگے سب لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ چڑیل مرگئی اور اب کبھی واپس نہیں ائے گی لیکن سب نے بڑی غلطی کی جنگل سے واپسی پر چڑیل کی چیخیں سب کو سنائی دی لیکن کسی نے غور نہیں کیا کافی دن گزرگئے چڑیل کی زخم بھی بھرنے لگے اور چڑیل نے خود کو زندہ رکھنے کے لیے سانپ بچھو چیونٹی وغیرہ وغیرہ جو بھی پنجرے کی طرف آتا چڑیل اسے اپنا شکار بناتا اور کئی بار تو اتنے بڑے بڑے سانپ پنجرے میں گھس گئے کہ چڑیل کو کئی دنوں تک بھوک کی کمی نہیں آئی چڑیل واپس اپنے حالت میں اگئی بس اسے انتظار ہے تو صرف پنجرہ سے باہر آنے کا یہاں گاؤں  ترقی کیطرف جارہا ہے تو وہاں چڑیل بدلے کی آگ میں جل رہی ہے لیکن بدقسمتی سے اس جھیل اور جنگل کیطرف کوئی نہیں آتا کیونکہ چڑیل کے قصے دور دور تک مشہور تھے کہ جھیل کے پاس چڑیل رہتی ہے اور جب سے گاؤں  میں یہ واقع ہوا تب تو بلکل کوئی اس جھیل یا جنگل کے پاس نہیں جاتا اور یہاں تک کے اس گاؤں  میں میں دوسرے گاؤں  کے لوگ نہیں آتے سب اسے چڑیل کا گاؤں  کہتے تھے وقت گزرتا گیا گ گاؤں والے چڑیل کو بلکل بھول گئے ایک دن اسی گاؤں کے کچھ لوگ لکڑی اکھٹا کرنے جنگل کی طرف گئے جیسے ہی جنگل کے قریب پہنچ گئے جنگل سے چیخوں کی آوازیں انکی کانوں پر پڑی اور وہ لوگ ڈر گئے اور جمع کی ہوئی لکڑیاں اٹھاکے گاؤں  کی طرف دوڑ کے گئے اور سب کو کہاں کے جنگل سے چیخنے کی آوازیں آرہی ہے کہی چڑیل واپس تو نہیں آئی سب نے کہا اسے تو ہم نے مار دیا اور دفنایا اگر وہ اس وقت نہیں مری تو اب تک تو بھوک سے مری ہوگی کتنے مہینے ہوگئے خیر گاؤں  والوں نے اس بات کو اتنا غور نہیں کیا اور کہا شاید کوئی جانور ہو خیر اپ لوگ جنگل کیطرف نہیں جانا کچھ دنوں کے بعد کچھ انگریز آگئے چڑیل کی بات انکی کانوں تک بھی گئی تھی انگریزوں کو جنگل کی طرف جاتے ہوئے گاؤں  کے کچھ لوگوں نے دیکھا اور اس کے پیچھے پیچھے گیا انگریز جیسے ہی جنگل کی قریب پہنچے جنگل سے لگاتار آوازیں ان کی کانوں میں پڑگئی گاؤں  والے دوڑ کے اپنے گاؤں  پہنچ گئے اور سب کو کہا کہ کچھ لوگ جنگل کا درخت کاٹنے ائے ہیں اتنے میں گاؤں  سے کافی لوگ جنگل کیطرف آگئے اوراتنے میں گاؤں  کے کافی لوگ جنگل کیطرف آگئے اور جنگل میں گھس گئے سب نے ارد گرد دیکھا لیکن لیکن کوئی کٹی درخت نہیں ملی ایک گاؤں  والا بولا کہ کہاں ہے یہاں تو کوئی نہیں ہے فضول میں سب کو تکلیف دیا دوسرے نے جواب دیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا سب کو جنگل کیطرف آتے ہوئے جیسے ہی سب گاؤں  والے واپسی کررہے تھے اتنے میں سب کی کانوں میں بچاو بچاو کی آواز پڑی سب نے حیرانی سے مڑکے دیکھا اور آواز کی طرف چلنے لگے تھوڑی دور تک گئے تو کچھ لوگ نظر آنے لگے اور سب اس طرف چلنے لگے جیسے ہی قریب پہنچ گئے تو کچھ لوگوں نے ایک دائرہ بنایا ہے سب حیران ہوگئے کہ یہ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں خیر سب نے وہاں پہنچ کے دیکھا تو سب کے ہوش اڑگئے اور تمام گاؤں  والے ایک دوسرے کے منہ کو دیکھ رہے انگریز لوگوں نے چڑیل کا مزاق بنایا تھا اور آپس میں ہنسی مزاق کرہے تھے گاؤں  والوں نے جیسے ہی چڑیل کو دیکھا تو سب خوف میں مبتلا ہوگئے اورتمام انگریزوں کو وہاں سے ہٹانے کا بولا لیکن وہ لوگ نہیں مان رہے تھے اور اپنی من مانی میں مگن تھے اور چڑیل کی پنجرے کو توڑنے کی کوشش کررہے تھے چڑیل یہ دیکھ کے دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی لیکن گاؤں  والے کبھی بھی ایسا نہیں چاہتے کہ چڑیل واپس آئے اسکی نظر میں تو چڑیل مرگئی تھی خیر چڑیل بلکل خاموش تھی بس پنجرے کے توڑنے کا انتظار کررہی تھی چڑیل کی خاموشی انگریزوں کو اور بھی ہمت دیتی رہی جیسے ہی پنجرے کے اوپر حصے سے کچھ کیل نکل گئے اور ایک دو لکڑیاں بھی ٹوٹ گئی یہ سب دیکھ کے گاؤں والے انگریزوں پر غصہ ہوگئے اور مارنے کو آگئے چڑیل یہ سب دیکھ غصہ ہوگئی اور پنجرے کے قریب ایک گاؤں  والے پر حملہ کردیا اور اس کا ہاتھ پنجرے کی جانب کھینچ دی اور ہاتھ پر منہ رکھا یہ سب دیکھ کے انگریز بھی کانپنے لگے اور پیچھے ہٹ گئے اور کچھ گاؤں  والوں نے اس شحص کو پکڑ کر اپنے طرف کھینچا اس کو چڑیل کی شکنجے سے اذاد تو کردیا لیکن اس کی ہاتھ کی دو انگلیاں چڑیل کی منہ میں رہ گئی اور ہاتھ سے خون رکنے کا نام نہیں لے رہا انگریز یہ سب دیکھ کے ایک منٹ بھی وہاں نہیں رکے اور اسی وقت روانہ ہوئے کچھ گاؤں  والوں نے زخمی کو اٹھایا اور حکیم کے پاس لے گئے اور کچھ گاؤں  والے جنگل میں رک گئے اور اسی بات پر بحث کررہے تھے کہ ابھی اس چڑیل کے ساتھ کیا کریں ہم سب نے سوچا تھا یہ مرگئی لیکن اگر ایسا نہیں تھا اب اسے ایسا نہیں چھوڑ سکتے کل اگر کسی نے اسے آذاد کردیا تو گاؤں  میں پھر سے تباہی مچ جائے گی سب نے اپنا اپنا مشورہ پیش کیا کسی نے کہا پنجرے کو نکل کر ماردیتے ہے تو کسی نے کہا کہ پنجرے سمیت جلادیتے ہے لیکن کوئی بھی مشورہ کام نہیں آیا اور ایک بزرگ نے کہا کہ اگر جلانے لگے گے تو کہی ایسا نہ ہو پنجرہ جل جائے اور چڑیل بچ کے باہر نکلے پھر کیا کرینگے اس بیڑ میں عدنان بھی موجود تھا سب نے عدنان کیطرف دیکھا اور پوچھا کہ عدنان بیٹا اپ کی مشورے پر ہم نے اسے پکڑا تھا اپ کیا کہتے ہو اس کے ساتھ کیا کریں عدنان نے کچھ لکڑیاں اٹھائی اور دو تین گاؤں  والوں کو دیا اور ایک پتھر اٹھاکے پنجرے کے پاس رکھا سب نے پوچھا ہمیں بھی تو بتاو کیا کررہے ہو کیا ارادہ ہے عدنان نے پتھر اٹھایا اور سب کو بولو کچھ کیل نکل آئے ہے میں واپس ٹھیک کرتا ہوں لیکن جیسے ہی میں پنجرے کے قریب جاوں اور چڑیل مجھ پر حملہ کریں تو آپ سب ان لکڑیوں سے چڑیل کو روکنا تاکہ مجھ تک نہ پہنچے سب نے کہا ٹھیک ہے عدنان نے کیل تو لگالیے لیکن کچھ لکڑیاں بھی ٹوٹ گئی تھی لیکن اس سے صرف ہاتھ نکل سکتا تھا پھر عدنان نے دو تین گاؤں  والوں کو گاؤں  بیجا اور گینتی بیلچہ اور کچھ ضرورت کی اشیاء لانے کو کہا وہ لوگ روانہ ہوگئے اور گینتی بیلچہ اور باقی سامان لاکے عدنان کو کہا اب کیا کرنا ہے کچھ گاؤں  والوں کو لکڑیاں کاٹنے اور کچھ کو کھڈا نکالنے کا بولا پنجرے سے کافی دور کھودائی شروع کی اور کچھ نے کافی لکڑیاں اکھٹے کی اور عدنان کو بولا اب کیا کرنا ہے عدنان نے چڑیل کو مارنے کو کہا سب گاؤں  والے چڑیل کو مارنے لگے چڑیل کافی زخمی اور ہر جگہ سے خون نکلنا شروع ہوگیا اور بار بار ایک ہی اواز لگاتی ہے کسی کو نہیں چھوڑونگی اور کچھ منتر پڑھنے لگی چڑیل کو اتنا مارا کہ بیٹھتے ہی لیٹ گئی اور منہ سے کچھ پڑھ رہی تھی اور گاؤں  والوں کی طرف دیکھ کے مسکرارہی ہی تھی یہ سب دیکھ کے عدنان کو علم ہوا کہ چڑیل کچھ منتر پڑھ رہی ہے اس نے گاؤں  والوں کو کہا سر پہ مارو چڑیل کی آنکھیں بند ہونے والے تھے لیکن پھر بھی مسکرارہی تھی اور کچھ منتر باقی تھے سب نے دیکھا تو چڑیل کی آنکھیں بند خون میں لت پت سب نے کہا مرگئی لیکن وہ دل میں منتر پڑھ رہی تھی اتنے میں عدنان نے کہا اب اس کے اوپر مٹی ڈالو سب نے مٹی ڈالنا شروع کیا اور پنجرہ مٹی سے بھر گیا اور پنجرے کے اوپر بھی مٹی ڈالی تاکہ کسی کو نظر نہ آئے اور وہاں سے روانہ ہوگئے جیسے ہی گاؤں  والے جنگل سے نکل گئے کافی بڑی تعداد میں چوہے پنجرہ کی طرف آگئے اور مٹی کو ہٹانے میں لگے ہے کچھ وقت کے بعد ایک بڑا سوراخ بنایا جو سیدھا چڑیل کی منہ تک گیا تھا چڑیل نے سانس لینا شروع کیا کافی جنگلی کتے خرگوش پنجرے کی طرف آئے اور ساری مٹی ہٹائی پنجرہ بلکل مٹی سے صاف ہوگیا اب چڑیل نے آپنی آنکھیں بند کی اور منتر پڑھنا شروع کیا رات ہوگئی لیکن چڑیل منتر پڑھنے میں لگی تھی ساری رات چڑیل منتر پڑھنے لگی صبح ہوئی جنگل میں ہلچل مچ گئی ہر طرف سے پرندے اڑنے لگے ایک بڑا سانپ پنجرے کی طرف تیزی سے آرہا تھا اور سیدھا پنجرے میں گھس گیا سانپ کا تھوڑا حصہ پنجرے میں باقی پنجرے سے باہر تھا چڑیل نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہے اور ایک ہاتھ سانپ کی طرف پھیلایا سانپ کی منہ میں ایک لاکٹ لٹکا ہوا تھا اور وہ لاکٹ چڑیل کے ہاتھ میں رکھ دیا جیسے ہی لاکٹ چڑیل کے ہاتھ آیا چڑیل نے اپنی آنکھیں کھول دی اور اپنی زبان نکال کے سانپ کے منہ پر مارنے لگی سانپ پنجرے سے نکل گیا اور پنجرے کے ساتھ ایک بڑی درخت پر چڑھ گیا اور ایک مضبوط شاخ کو جکڑ لیا اور نیچھے اکے پنجرے کے ایک سوراخ سے دوسرے دوسرے سے تیسرے ایسے سب سوراخ میں خود کو پھنسا کے اوپر کی طرف کھنچنے لگا اور کچھ دیر بعد پنجرے کی اوپر والی طرف کی لکڑیاں پوری طرح سے ٹوٹ گئی یہ سب دیکھ کے چڑیل بہت خوش ہوئی اور پنجرے سے باہر نکلی اور ایک درخت پر چڑھ گئی اور درخت سے سیدھا گاؤں  کی طرف گئی گاؤں  کے کچھ لوگ کھیتوں میں کام کرنے گئے تھے چڑیل گاؤں  کے اسی درخت پر بیٹھ گئی جہاں پر اسے پکڑا تھا اور وہ لاکٹ اپنے گلے میں ڈال دیا لاکٹ سے چڑیل اور بھی حطرناک اور طاقتور ہوگئی درخت سے چڑیل سارے گاؤں  کا نظارہ کررہی تھی کچھ دیر درخت پر رک کے عدنان کی گھر کے چھت پر بیٹھ گئی اور عدنان کی ماں پر حملہ کیا عدنان کی ماں باہر تھی اور باقی سب کمرے میں تھے اپنی دانت عدنان کی ماں کی گلے پر رکھ کر ساری خون نچوڑ دی اور پھر چھت پر چلی گئی جیسے ہی سب کمرے سے نکل گئے اور اپنی ماں کو زمین پر پڑی دیکھ کے سب دوڑ کے ماں کے پاس آئے لیکن وہ اس دنیا سے جا چکی تھی اور گردن پر دانتوں کے گہرے نشان عدنان سمجھ گیا کہ یہ اسی چڑیل کا کام ہے اتنے میں اوپر چھت سے ہنسنے کی آواز آئی اور عدنان کی طرف دیکھ کے کہا کہ کسی کو نہیں چھوڑونگی اور چھت سے دوسری جانب چلی گئی گاؤں  میں ہر طرف شور شرابا بچاو بچاو کی آوازیں آنا شروع ہوگئی چڑیل نے چار پانج لوگوں کو مارا اور درخت پر چڑھ گئی اتنے میں کچھ لوگ کام سے گھر آرہے تھے گاؤں  میں خاموشی سارے گلی کوچے ویران سب نے گھروں کے دروازے بند کردیے ہے سارے گاؤں  والوں کو چڑیل کا پتہ چلا تو خوف میں مبتلا ہوگئے اور کمروں سے باہر نہیں نکل رہے کچھ دنوں تک اپنے کمروں میں رہے اور اگر کمرے سے باہر کسی کام سے نکلتے بھی تھے تو سب ایک ساتھ نکلتے ہاتھ میں کوئی لکڑی ڈنڈا یا بندوق لے کے گاؤں  میں عجیب سی بدبو پھیل گئی سب حیران تھے سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا جتنے بھی مویشی تھے سب کو چڑیل نے ماردیا یہاں تک کہ جو کتے چڑیل پر بھونکتے تھے وہ سب بھی چڑیل کی خوراک بنے گاؤں  والوں کا جینا مشکل ہوگیا اناج بھی ختم ہوگیا نہ ذبح کرنے کو مویشی رہے اور درخت سے کبھی ہنسنے کی اوازیں تو کبھی یہی کہ کسی کو نہیں چھوڑونگی کچھ گاؤں  والوں نے اپنے گھر سے اوازیں لگانا شروع کیے کہ سب باہر نکلو ایسا گھر میں چپھنے سے ہم بھوک سے مرجائنگے کافی گاؤں  والے باہر نکل گئے زنانہ بچوں سمیت اور جو لوگ نہیں نکلے تھے سب ایک ساتھ ایک ایک گھر گئے اور بلایا جب سب گاؤں  والے باہر نکلے تو سب نے ایک فیصلہ لیا کہ خواتین اور بچوں کو ساتھ والے گاؤں  چھوڑ آتے ہیں اور ہم سب مرد حضرات واپس آکے اس چڑیل کا بندوبست کرتے ہے سب کو بات مناسب لگی اور سب نے اتفاق کی اسی فیصلے سے سب گاؤں  والے دوسرے گاؤں  کی جانب روانہ ہوگئے اور جیسے ہی دوسرے گاؤں  پہنچ گئے وہاں کے گاؤں  والوں کو سب واقع سنادیا وہ سب لوگ بہت ہی افسردہ ہوئے اور سب نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور تمام خواتین اور بچوں کو پورے گاؤں  پر تقسیم کیا حیثیت کے مطابق ہر گھر میں بچے خواتین بیجھے اور تمام گھروں سے مرد حضرات کے لیے کھانا بھی آیا وہ سب یہ سوچ رہے تھے کہ کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے خیر کافی عزت افزائی ہوئی چڑیل کی نظر گاؤں  کے کچھ دروازوں پر پڑی سب دروازے کھلی ہے جس گھر میں میں جاتی ہے وہ گھر خالی ہوتا ہے یہ سب دیکھ کے چڑیل سوچنے لگی کہ یہ گاؤں  والوں کا کوئی چال ہے مجھے پکڑنے کے لیے اور واپس درخت پر چڑھ گئی اور ارد گرد دیکھ رہی ہے گاؤں  کے مرد حضرات واپسی کا سوچ رہے ہے اور سب نے دوسرے گاؤں والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں بھولینگے ان سب نے کہا یہ تو ہمارا فرض تھا ہم سب بھائی بھائی ہے انسان انسان کی مدد نہ کریں تو کون کریگا اور رکنے کو بولا کہ ابھی رات ہے سب کل صبح چلے جانا ابھی سب یہاں پر رکو خیر سب رک گئے اور چڑیل کو مارنے کی ترکیب سوچ رہے ہیں اتنے میں دوسرے گاؤں  کے ایک بزرگ نے بولا میں ایک ایسے عامل کو جانتا ہوں جو جنات چڑیل کو قابو میں کرسکتے ہے سب گاؤں  والوں نے پوچھا کہاں ہے ہمیں پتہ دیدو بزرگ نے کہا اپ سب ارام کرو صبح میں ساتھ چلا جائے گا اس کے گھر یہ سب سن کے گاؤں  والوں کی ہمت اور بھی بڑھ گئی خیر صبح ہوگئی ہر گھر سے چائے روٹی نکلی اور سب نے ناشتہ کیا اور بزرگ نے کہا کہ ایک یا دو لوگ میرے ساتھ آوں باقی یہاں انتظار کرو گاؤں  کے دو بزرگ اور عدنان کو بھی ساتھ لے کے روانہ ہوئے اور سواری کے لیے ایک بیل گاڑی بھی لی کافی دور تک سفر کیا دو تین گھنٹے بعد تھوڑا ارام کرکے بیل کو گھاس پانی ڈال کے پھر روانہ ہوجاتے ہے شام ہونے کو آئی آخر کار عامل کے گھر تک پہنچ گئے اور دروازہ کٹکٹایا لیکن عامل گھر نہیں تھا گھروالوں نے سب کو عامل کے شاگرد کے پاس بیجا کہ شاید وہاں ہو لیکن وہاں بھی نہیں تھا شاگرد پہلے تو بتا نہیں رہا تھا لیکن جب سارا واقعہ سنا تو ترس کھاکے سب کو عامل کے پاس لائے اور انتظار کرنے کو کہا عامل ایک چھوٹے سے پہاڑ کے اوپر کچھ بیٹھا تھا شاید کچھ جادو کررہا تھا جیسے ہی عامل فارغ ہوئے تو شاگرد نے سب کچھ بتایا عامل نے فوراً ساتھ جانے کا ارادہ کیا کیونکہ عامل کو اس چڑیل کا پہلے سے پتہ تھا کہ وہ کتنی حطرناک ہے یہاں گاؤں  والے انتظار میں تھے کہ عامل کب آۓ گا خیر عامل ان لوگوں کے ساتھ رات کو ہی روانہ ہوگئے اور ساتھ میں شاگرد بھی تھے صبح ہوگئی عامل گاؤں  پہنچ گئے گاؤں  والوں نے عامل کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور عامل کو کہا جتنا جلدی ہوسکے اس چڑیل کو ماردو تاکہ ہم سب اپنے اپنے گھر جاسکے عامل نے کہا تم سب لوگ یہاں رکو میرے ساتھ بس دو تین لوگ جاو باقی یہاں رکو اور کچھ لوگ عامل کے ساتھ گاؤں  کی طرف روانہ ہوگئے اور جیسے ہی عامل نے گاؤں  میں قدم رکھاتو اپنے شاگرد اور کچھ ساتھ کچھ گاؤں  والوں کو رکنے کو بولا اور کچھ پڑھنے لگا اور پھر روانہ ہوۓ گاؤں  والوں نے عامل کو وہ درخت دکھایا جہاں چڑیل بیٹھتی تھی عامل درخت کے قریب گیا لیکن چڑیل وہاں کہی نظر نہیں آئی ۔اور گاؤں  کی ایسی حالت تھی جیسے کئی سالوں سے ویران پڑھا ہو عامل نے گاؤں  والوں سے پوچھا کہ کتنے دنوں مہینوں سے گاؤں  میں کوئی نہیں اتا تو گاؤں  والوں نے سارا قصہ سنادیا اور پھر گاؤں  کا جائزہ لیا لیکن چڑیل کا کہی پتہ نہیں چڑیل نے جب گاؤں  کو ویران دیکھا تو وہ سمجھ گئی تھی کہ گاؤں  والوں کے دماغ میں پھر سے کوئی ترکیب نے جنم لیا ہے خیر عامل کو چڑیل کا پہلے سے پتہ تھا تو عامل نے کہا کہ چڑیل لازم جھیل یا جنگل میں ہوگی اور وہ رات کو آئے گی تو تب تک ہم ساری تیاری مکمل کرلیتے ہیں اور سب کو کام دیا اور جس درخت پر چڑیل بیٹھتی تھی اس درخت کے نیچھے ایک بڑا دائرہ بنایا سب تیاری مکمل ہوگئی شام ہونے کو آیا سب چڑیل کے انتظار میں ہے کہ چڑیل جلد اجائے اور عامل چڑیل کو پکڑ کر لے جائے خیر اندھیرا ہوگیا اور عامل نے منتر پڑھنا شروع کیے لیکن چڑیل کا کوئی پتہ نہیں کافی دیر تک عامل عمل میں مصروف لیکن ارد گرد خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا گاؤں  والے بھی حیران ہوۓ کہ چڑیل کہاں گئی صبح سے نظر نہیں آرہی صبح ہوگئی لیکن چڑیل گاؤں  میں نہیں آئی تو عامل نے گاؤں  والوں کو کہا کہ مجھے وہ جھیل وہ جنگل دکھاو جہاں پر چڑیل رہتی تھی شاید وہاں ہو ڈر کے مارے نہیں آتی بہت ہی چالاک ہے گاؤں  والے عامل کے ساتھ جھیل کی طرف بڑھنے لگے جیسے ہی جھیل کے قریب پہنچے تو جنگل سے آوازیں آنا شروع ہوگئی کہ واپس چلے جاو ورنہ تجھے بھی ماردونگی خیر عامل پر یہ دھمکیاں کوئی اثر نہیں کررہا عامل جنگل کی طرف چلنے لگا اور جنگل میں گھس گیا اور گاؤں  والوں کو جنگل کے باہر رکنے کو بولا کہ آپ لوگ یہاں پر انتظار کرو میں اکیلا ہی اندر جاتا ہوں اور اپنے شاگرد کو بھی گاؤں  والوں کا حیال رکھنے کو بولا عامل جنگل کے اندر چلے گئے اور باقی سب باہر انتظار کررہے تھے جیسے ہی عامل نے جنگل میں کچھ فاصلہ طے کیا تو ہنسنے کی اواز آئی اور عامل کو کہا کہ خوش آمدید اور اچانک اواز بہت ڈراونی سی ہوگئی اور عامل کے نزدیک سے اواز آئی یہ میرا جنگل ہے تم یہاں سے بچ کے نہیں جاسکتےعامل نے اواز دیا کہ جہاں بھی ہو سامنے اوں اگر پیار سے سامنے آئی تو میں تمھیں کچھ نہیں کہونگا اس پر چڑیل نے زور زور سے قہقہے لگائے اور کہا تم اپنی خیر مناو یہ میرا جنگل ہے عامل نے چلو سامنے او تب پتہ چل جائے گا چڑیل کبھی ایک درخت پر کبھی دوسری درخت پر اور عامل اواز کے پیچھے کافی دور تک گیا اواز کی جگہ پر عامل پہنچ گیا اور ارد گرد دیکھ رہا تھا کہ اواز یہی سے ارہا تھا چڑیل یہی کہی ہوگی عامل کے پیچھے درخت پر چڑیل بیٹھی تھی اور عامل پر حملہ کردیا لیکن عامل نے پیچھے دیکھا اور خود کو چڑیل کے حملے سے بچایا اور چڑیل سامنے کی درخت پر چڑھ گئی اور ہنسنے لگی اور عامل کو بولا اج تم نہیں بچوگے عامل کے ساتھ ایک تیلی تھی اس میں سے کچھ پوڈر نکالا اور اس پر دم کرکے چڑیل پر پیھنک دیا چڑیل چیخنے لگی اور اپنی انکھوں پر ہاتھ رکھا پاوڈر صاف کررہی تھی اتنے میں عامل نے اور پاوڈر چڑیل کی جانب پھینک دی اور چڑیل درخت سے نیچھے گرگئی عامل نے اپنی لاٹھی چڑیل کے گردن پر رکھا اور چڑیل گڑگڑانے لگی مجھے معاف کردو پلیز مجھے چھوڑدو عامل نے پاوڈر چڑیل کی منہ پر پھینکا اور لاٹھی چڑیل کی ارد گرد گھمایا چڑیل بیہوش ہوگئی عامل نے چڑیل کے ہاتھ باندھے اور اٹھا کے جنگل کے باہر لے آئے گاؤں  والوں نے جب چڑیل کو دیکھا کہ ہاتھ باندھے ہوئے ہے تو بہت خوش ہوئے اور عامل کو کہا کہ اسے مارو عامل نے کہا صبر کرو اسے میں منتروں سے بے جان گڑیا بنادیگا عامل چڑیل کو بڑی والی درخت کے پاس لے گئے اور دائرے میں بیٹھ گئے اور منتر پڑھنا شروع کیا اور جیسے ہی چڑیل پر دم کیا چڑیل ہوش میں آئی اور رونے لگی عامل کے سامنے کہ پلیز مجھے چھوڑدو میں ان گاؤں  والوں کو کچھ نہیں کہونگا گاؤں  والوں نے کہا ماردو اس کو اس نے ہم پر بہت ظلم کیا ہےہمارے سارے مویشی کھاگئے کئی جانیں اس نے لی چڑیل نے عامل کو بولا میں کئی سالوں سے جھیل جنگل میں رہتی ہوں کبھی گاؤں  کیطرف نہیں آیا ان لوگوں نے مجھ پر بہت ظلم کیا جنگل میں اکے مجھے کافی زخمی کیا میں تو پہلے کبھی گاؤں  میں نہیں آئی تھی اس پر عامل نے پوچھا کیا یہ سچ ہے عدنان نے بولا ہم شکار کرنے گئے تھے ہمارے دو دوستوں کو اس نے بے رحمی سے مارڈالا اور پھر گاؤں  میں اکے کافی لوگوں کو مارا چڑیل اپنی جان کی بھیک مانگنے لگی لیکن عامل نے ایک نہیں سنی اور شاگر کو بولا کہ جیسے ہی میں اشارہ کردوں آپ چڑیل کے ہاتھ کھولوگے اس سے پہلے کوئی چڑیل کے نزدیک نہیں جاوگے اور جب میں عمل شروع کروں تو چاہے کتنی بھی ضروری بات کیوں نہ ہو کوئی بات نہیں کریگا ورنہ سب کچھ خراب ہوجائے گا شاگرد نے کہا ٹھیک ہے سرکار گاؤں  والے ایک طرف بیٹھ گئے اور عامل نے عمل شروع کیا کافی دیر تک عمل کرتا رہا اور شاگرد کی نظریں عامل پر تھی کہ عامل جب اشارہ کریں تو میں چڑیل کے ہاتھوں کو کھول دونگا اتنے میں درخت کے نیچھے سے کافی بڑی چیونٹی عامل کے قریب آئی اور عامل کے کپڑوں پر اور ایک چیونٹی عامل کے بازوں پر سے سیدھا انگلی تک آیا اور عامل کو زور سے کاٹا عامل نے درد سے اپنا ہاتھ اٹھا اور اپنی انگلی کو مل نے لگا شاگرد نے سوچا عامل نے اشارہ دیا شاگرد نے جلدی ہی چڑیل کو کھولا جیسے ہی چڑیل کو کھولا چڑیل کو ایک اور موقع ملا ابھی عمل پورا نہیں ہوا تھا عامل نے اپنی انکھیں بند کی ہوئی ہے اور عمل میں مگن ہے اسے پتہ نہیں کہ چڑیل کے ہاتھ کھل گئے ہے اور گاؤں  والے ایک طرف پر بیٹھے تھے عامل سے کچھ فاصلے پر اتنے میں چڑیل نے عامل کے شاگرد پر حملہ کیا اور اس کی گردن پر منہ رکھا اس بیچارے کی آواز تک نہیں نکلی اور سارا خون نچوڑ دی اور جیسے ہی عامل کی طرف دیکھا تو اسے اپنا گڑگڑانا یاد آیا غصہ سے اگ بگولہ ہوگئی چڑیل نے شاگرد کو تو مارہی دیا لیکن غصہ سے پاگل تھی اس نے شاگر کا سر تن سے الگ کردیا اور عامل کے سامنے رکھ دی اور وہاں سے 9 دو گیارہ ہوگئی چڑیل کو وہاں سے جاتے ہوئے گاؤں  والوں نے دیکھا تو جلدی سے عامل کیطرف دوڑ کے آگئے اور جیسے ہی دیکھا عامل کچھ پڑھ رہا تھا لیکن اس کے سامنے اس کے شاگرد کا سر پڑھا ہوا تھا گاؤں  والوں نے عامل کو اواز دی کہ سرکار چڑیل بھاگ گئی عامل نے مجبوراً اپنی انکھیں کھولی اور جیسے ہی دیکھا اس کے سامنے اس کی شاگرد کا کٹا ہوا سر پڑھا تھا عامل کے آنکھوں میں آنسوں آئے اور تھوڑی دیر بعد بولا تجھے میں عبرتناک سزا دونگا اور گاؤں والوں کو بھی غصہ ہوگئے کہ چڑیل کو کس نے کھولا میں نے منع کیا تھا نہ گاؤں  والے بولے سرکار ہم تو وہاں بیٹھے تھے کہ اپ کی عمل میں کوئی مداخلت نہ ہو اتنے میں عامل کی نظر اپنی انگلی پر پڑی اسے یاد آیا کہ مجھے کسی چیز نے کاٹا تو انگلی اٹھائی شاید میرے شاگرد کو غلط فہمی ہوئی اس نے چڑیل کو کھولا خیر اس نے گاؤں  والوں کو کہا کہ قبر کا انتظام کریں گاؤں  والوں نے قبر کھودا دوسرے گاؤں  والے بھی جنازے میں شریک ہوئے شاگرد کو دفنایا اب ہر طرف یہی چرچے ہے کہ چڑیل نے عامل کے شاگرد کو بھی مارڈالا کہی عامل کو نہ ماردیں اتنے میں ایک گاؤں  والا بولا کہ عامل صاحب نے کل سے کچھ نہیں کھایا دوسرے گاؤں  سے کھانے کا سامان آیا سب کے لیے لیکن عامل صاحب نے کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ میرے سر میں درد ہے ایک کپ چائے اگر مل جائے تو بہتر ہوگا گاؤں  والوں نے چائے لادی اب عامل یہی سوچ رہا ہے کہ چڑیل کے ساتھ کیا کرونگا الگ الگ سزائیں دماغ میں ارہا ہےلیکن عامل کو چڑیل پر شدید غصہ ہے اور وہ چڑیل کو ایک درد ناک موت دینا چاہتا ہے خیر رات ہوئی سب ایک گھر میں سونے لگے اور کمرے کا دروزہ بند کیا دو تین گھنٹے بعد سب سوگئے اتنے میں عجیب سے ڈراونی آوازیں شروع ہوگئی اور کمرے کی چھت پر کوئی دوڑ رہا ہے سب کی آنکھ کھل گئی سوا عامل کی سب لوگ ڈر گئے کچھ دیر خاموشی ہوگئی لیکن گاؤں  والوں کو ڈر سے نیند نہیں ارہی تھی کچھ دیر بعد کمرے کے دروازے کو کوئی کٹکٹا رہا تھا اتنے میں عامل کی آنکھ کھل گئی عامل نے دروازہ کھولا تو باہر کوئی نہیں اور گھر سے جیسے ہی اس کی نظر درخت پر پڑی درخت کی جانب صرف آنکھیں نظر ارہی تھی جو عامل کو دیکھ رہے تھے عامل کو معلوم ہوا کہ چڑیل ہے ڈرانے کے لیے آئی ہے تاکہ میں یہاں سے چلا جاوں جیسے ہی عامل اندر کمرے میں گیا اور کچھ سامان لایا اور درخت کی جانب دیکھا تو چڑیل وہاں نہیں تھی پھر اندر کمرے میں گیا اور کہا صبح تیرا حل نکالتا ہوں اور کمرے کی دروازہ بند کیا صبح ہوگئی عامل نماز کے لیے اٹھ گئے اور جیسے ہی دروازہ کھولا باہر سحن میں کئی چھوٹے چھوٹے جانور مرے ہوئے پڑے ہیں خیر عامل نے نماز پڑھا اتنے میں اجالا ہوگیا ہر طرف سے پرندوں کی آوازیں شروع ہوئی اور باقی لوگ بھی اٹھے چائے بنائی سب نے چائے پی لی اور عامل کیطرف دیکھ رہے ہیں کہ عامل صاحب کیا کرنے والے ہے کیا کہینگے عامل نے کہا چلو جنگل چلتے ہیں چڑیل کی موت بے صبری سے انتظار کررہا ہے سب روانہ ہوگئے جیسے ہی جھیل کی قریب پہنچ گئے تو عامل نے کہا تم سب بھی ساتھ او اپ سب کو یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا چڑیل کہی سے بھی حملہ کرسکتی ہے سب نے عامل صاحب کی بات اتفاق کردی اور ساتھ روانہ ہوئے جیسے ہی جنگل میں پاوں رکھا اتنے میں ایک خوفناک آواز آئی اور کہا رکو چلے جاو یہاں سے ورنہ سب مارے جاوگے عامل نے کہا کہ تم سب نہ ڈرو یہ بس تم سب کو ڈرانے کی کوشش کررہی ہے عدنان نے کچھ لکڑیاں اٹھائی اور سب کو ایک ایک دی اور کہا کہ اگر چڑیل کسی پر حملہ اور ہو تو اس پر ماردینا ہم پہلے ہی مارچکے ہے سب جنگل میں گھس گئے جیسے ہی تھوڑا فاصلہ طے کیا درختوں سے پرندے اڑ گئے کتوں کی بھونکنے کی آوازیں شروع ہوگئےجیسے ہی سب جنگل میں داخل ہوئے اندر سے خوفناک آوازیں آنا شروع ہوئی اور جنگل میں ہر طرف پرندوں کی شور کہی جانوروں کی آوازیں عامل اوازوں کے جانب چلنے لگا کافی دور تک گئے لیکن چڑیل کا کہی پتہ نہیں ایک اواز سب کی کانوں میں گونج رہا تھا چلے جاو یہاں سے ورنہ سب مارے جاوگے عامل آواز کے پیچھے کافی تیزی سے گئے اور ایک جگہ رک گئے ارد گرد دیکھنے لگے اور سب کو نظر رکھنے کا بولے عامل کو ایک درخت پر شک ہوا کہ چڑیل اسی درخت کے آس پاس ہوگی لیکن جیسے ہی درخت کے قریب گئے کچھ نہیں ملا اتنے میں اچانک سے کچھ چمگاڈر عامل کی طرف کافی تیزی سے اڑتے ہوئے آرہے تھے جیسے ہی قریب آتے گئے عامل نے سب کو آواز دی کہ سب جھک جاو اور اپنی آنکھوں کو بچاو چمگاڈر بڑھتے گئے عامل حیران ہوا کہ چمگاڈر تو دن کو نہیں نکلتے اور نہ کچھ نظر آتا ہے سب گاؤں  والے اپنے بچاو میں لگے تھے اور ڈر سے پیچھے جارہے تھے اور عامل آگے رہ گیا اتنے میں پیچھے سے ایک زور کی چیخ عامل کے کانوں تک آپہنچی جیسے ہی عامل دوڑ کے گیا تو ایک گاؤں  والے کے آنکھ سے خون بہہ رہا تھا اور وہ زور زور سے چلا رہا تھا کہ میری آنکھ میری آنکھ عامل نے اپنی لاٹھی پر کچھ دم کیا اور لاٹھی کو اوپر پھینک دیا چمگاڈر سے لاٹھی پر حملہ کیا جیسے ہی ایک چمگاڈر لاٹھی کے ساتھ ٹچ ہوا تو ایک پٹنے کی آواز آئی اور چمگاڈر ریزہ ریزہ ہوکے دھواں میں تبدیل ہوا اور ساتھ میں سارے چمگاڈر ایسے ہی ریزہ ریزہ ہوگئے اگے سے کچھ درختوں کے شاخ ہلنے لگے عامل دوڑ کے درخت کے قریب پہنچے تو سامنے جنگل کی بیچ میں ایک چھوٹا سا کھلا میدان تھا اور وہاں سے ایک ہی اواز ارہی ہے چلے جاو یہاں سے عامل اواز کے پیچھے دوڑ کے گیا تو سامنے کوئی کھڑی تھی کالے لباس میں اور کافی لمبے بال تھے عامل قریب گئے تو کچھ پڑھنے لگے اور لاٹھی پر دم کیا اور لاٹھی اس کی گردن پر رکھی لیکن کوئی اواز نہیں آئی عامل نے کچھ پاوڈر نکالا اور اس پر پھینک دی پھر بھی کوئی اثر نہیں پڑا اتنے میں پیچھے سے چیخنے کی اوازیں عامل کے کانوں تک آپہنچی عامل حیران ہوا کہ یہاں تو ایک چڑیل تھی تو باقی اوازیں کیسی جیسے ہی عامل نے لاٹھی ہٹایا اور سامنے کی طرف آگئے وہ ایک لڑکی کی لاش تھی جیسے لکڑی کی بدولت کھڑا کیا تھا عامل فوراً گاؤں  والوں کی طرف دوڑنے لگا جیسے ہی قریب پہنچا تو گاؤں  والوں کی بچاو بچاو کی آوازیں عامل کی کانوں میں گونج رہی تھی عامل گاؤں  والوں کے قریب پہنچ گئے تو چڑیل نے دو جانیں لی تھی اور عامل کو دیکھ وہاں سے رفو چکر ہوگئی عامل کو قریب دیکھ کے گاؤں  والے سب عامل کے پاس آگئے اور رونے لگے کہ سرکار اور کتنی جانیں اس نے لینی ہے اگر آپ قابو نہیں کرسکتے تو آپ اپنی جان حطرے میں نہ ڈالو ہم یہ گاؤں  چھوڑ کر کہی اور چلے جائیں گے عامل نے سب کو دلاسہ دلایا کہ آپ لوگ پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہوگا بس وہ مجھ سے بھاگتی پرتی ہے اواز کہی اور تو وہ کہی اور ہوتی ہے یا میری لاٹھی اس کے بدن کے کسی بھی حصے سے لگے یا میں اس کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر منتر پڑھو تب وہ میری مٹھی میں ہوگی خیر اپ لوگ پرسکون ہوجاو سب کچھ ٹھیک ہوجائے سب اسی باتوں میں لگے تھے کہ جنگل کی باہر سے کچھ آوازیں گاؤں  والوں اور عامل کے کانوں تک پڑی سب لوگ جنگل سے نکل گئے جیسے ہی باہر اکے دیکھا تو جھیل کے کنارے کافی مچھلی مری ہوئی پڑی تھی اور ہر طرف خاموشی چا گئی تھی عامل سوچ میں پڑگئے کہ کہی چڑیل گاؤں  کی طرف تو نہیں گئی نہ جنگل سے اوازیں نہ کچھ اور ایسی حرکت جس سے چڑیل کی موجودگی ظاہر ہو خیر عامل نے کہا کہ جو لوگ مرگئے ہے انہیں گاؤں  لے چلتے ہے اور دفناتے ہیں اور گاؤں  کا جائزہ بھی لیتے ہے کہی چڑیل وہاں نہ چلی گئی ہو ایسا نہ ہو کہ ہم یہاں اسے ڈھونڈ رہے ہے اور وہ وہاں مزید جانی نقصان نہ کریں عامل کی یہ بات سب کو اچھی لگی اور سب گاؤں  کیطرف روانہ ہوئے ایک لاش کو عدنان نے اپنے کندھے پر رکھا دوسرے کو دوسرے گاؤں  والے نے جیسے ہی سب گاؤں  پہنچ گئے اتنے میں ایک عورت روتی ہوئی دوڑ کے لاشوں کے قریب آئی اور روتی ہوئی کہہ رہی تھی ھائے میرا بچہ ھائے میرا بچہ عامل کو اس کی حالت پر بہت دکھ ہوا لیکن عامل تھوڑے فاصلے پر تھے اور عدنان اس عورت کو دلاسہ دے رہے تھے کہ بس کرو انٹی یہ سب اللہ کی مرضی تھی لیکن وہ روتی ہی جارہی تھی عامل جیسے ہی 20 پچییس قدم گئے اس کی ذہن میں ایک بات آئی کہ گاؤں  میں تو کوئی نہیں ہے سب دوسرے گاؤں  میں ہے اور نہ ان دونوں کا کسی کو پتہ تھا کہ وہ مرگئے اسے اس عورت پر شک ہوا جیسے ہی مڑکے دیکھا وہ عورت نے عامل کی طرف دیکھ کے مسکرایا لیکن اس کی مسکان پر عدنان کی نظر پڑی اور عامل دوڑ کے واپس ارہا تھا جیسے ہی وہ عورت اپنی روپ میں آئی تو عدنان پر حملہ کردیا لیکن عدنان کو اس کی مسکراہٹ پر شک ہوا تو اس نے خود کو حملے سے بچایا لیکن چڑیل کی ناخن نے عدنان کے چہرے پر ایک گہری نشان چھوڑدی جس کی وجہ سے عدنان کی چہرے پر ایک پنجہ کا نشان بن گیا اور کافی خون بہہ گیا اور چڑیل بھاگنے لگی عامل عدنان کے قریب آپہنچا اور عدنان کو کہا بیٹا آپ ٹھیک ہو عدنان نے کہا جی ہاں میں ٹھیک ہو بس چھوٹی سی خروش آئی ہے ایک دو دن میں بلکل ٹھیک ہوجائے گا عامل نے کہا چلو شکر ہے کہ آپ ٹھیک ہو یہ سب دیکھ کے گاؤں  والے اور بھی خوفزدہ ہوگئے اور عامل سے کہا کہ اگر یہ ایسی روپ بدلتی رہی تو ہم میں سے کوئی نہیں بچے گا عامل نے کہا ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہوں اتنے میں گاؤں  والوں نے کہا اب کیا کرینگے سرکار عامل نے کہا اب بس بہت ہوگیا برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اب ہمیں جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں وہ خود یہاں آئے گی میں تو سوچا کہ چلو اسے پکڑلینگے تو اگر وہ یہ سب چھوڑنے کو تیار ہے تو میں کچھ نہیں کہونگا اسے اس لیے میں نے کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا لیکن اس کی ظلم دن بدن بڑھتا جارہا ہے اب اسے عبرتناک سزا دونگا بس اب وہ یہاں خود آئے گی گاؤں  والوں نے پوچھا جب تک آپ یہاں ہے وہ نہیں آئے گی عامل نے کہا وہ اپنی مرضی سے کبھی بھی نہیں آئے گی لیکن اسے میں لاونگا اب بس آپ لوگ تیاری مکمل کرلو مجھے کچھ خاص چیزیں چاہیے گاؤں  والوں نے کہا کہ جی کیا چاہیے آپ بولیے عامل نے کہا کہ مجھے تین کوے چاہیے ایک چاقو تھوڑا سا آٹا چاہیے اور بیس پچیس سوئی اور ایک مینڈک چاہیے ایک پلیٹ اور تھوڑا کالا کپڑا گاؤں  والوں نے سب سامان لایا اور عدنان نے تین کوے پکڑ لیے اور ایک مینڈک اور عامل کے سامنے پیش کیے عامل نے سب کو کہا کہ جب تک چڑیل یہاں نہ آیا کوئی عمل کے دوران بات نہیں کرینگے اور چڑیل کے پاس ایک لاکٹ ہے جسے چڑیل نے کالے علم سے حاصل کیا ہے اسے چڑیل سے لینا ہوگا لیکن اسے کوئی ہاتھ نہیں لگائے سب نے کہا ٹھیک ہے سب سے پہلے عامل نے مینڈک پر کچھ منتر پڑھے اور نیچھے زمین پر چھوڑ دیا مینڈک جہاں جہاں جاتا عامل وہاں کوے کا خون گراتا تینوں کووں کا خون زمین پر گرایا جہاں جہاں پر مینڈک اشارہ کرتا ایک بڑا سا گول دائرہ بن گیا پھر کوے کے پر نکالے اور اور آٹا سے ایک عجیب قسم کا جانور بنایا اور تینوں کووں کا پر اسے لگایا اور منہ اور پاوں میں ساری سوئی لگایا اور اپنے سامنے رکھ دیا اور آنکھیں بند کرکے منتر پڑھنا شروع کیا کافی دیر تک منتر پڑھ رہا تھا اور آخر میں ہاتھ زمین پر رکھ پر وہ مینڈک عامل کے ہاتھ پر بیٹھ گیا عامل نے مینڈک کو چاقو سے مارا اور سارا خون اس آٹے سے بنے جانور کے اوپر ڈال دیا اور پھر منتر پڑھنا شروع کیا کچھ دیر بعد کافی تیز طوفان اور اسمان پر کالے بادل چاگئے خیر عمل مکمل ہوگیا اور عامل نے وہ آٹے کا جانور اٹھایا اور اس پر کچھ دم کرکے اوپر کیطرف زور سے پھینک دیا اور جیسے ہی وہ اوپر کی جانب جارہا تھا ایک پرندے کی شکل میں تبدیل ہوا اور اڑنے لگا اور جتنا ہی اوپر کی جانب جاتا ہے اس کی وزن میں اضافہ ہوتا ہے اور کافی بڑا سا جانور بن گیا دیکھنے میں جانور لیکن جب اڑنے لگتا ہے تو ایک خونخوار پرندہ جس کے بڑے بڑے پنجے پرندہ سیدھا جنگل کی طرف گیا جیسے ہی جنگل کے اوپر اپنے پر کھول دیے تو جنگل میں جتنے بھی پرندے تھے سب جنگل سے بھاگنے کے فراغ میں تھے اور جیسے ہی چڑیل کی نظر اور اس خونخوار پرندے پر پڑی تو کافی دیر تک دیکھتی ہی رہ گئی کہ یہ کیا بلا ہے اور پرندے نے اپنے پر بند کرکے کافی تیزی سے چڑیل کی جانب نیچھے آرہا تھا چڑیل جنگل میں میں کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف آور آخر کار جنگل سے نکل گئی اور جھیل کی طرف بھاگنے لگی لیکن پرندہ بھی چڑیل کے پیچھے ہی چڑیل نے سوچا کہ جھیل میں کچھ دیر چھپ جاونگی جیسے ہی یہ پرندہ یہاں سے چلا جائے تو میں باہر نکلوگی چڑیل جیسے ہی جھیل میں چھلانگ مار رہی تھی کہ پرندے نے چڑیل کو اپنی پنجو میں جکڑلی اور اوپر کی جانب پرواز کرنے لگا کافی اونچائی پر چڑیل کو لے گئی چڑیل نے خود کو چڑانے کی کافی کوشش کی لیکن چڑیل کی بڑے بڑے دانت اور نوکدار ناخن چڑیل کے کسی کام نہیں آئے پرندے کی ناخن سے چڑیل کافی زخمی ہوگئی تھی اور چڑیل کافی اونچائی سے عامل کے بنائے دائرے میں آ گری اور لاکٹ چڑیل کے گلے سے گرگیا عامل نے چڑیل کی گردن پر لاٹھی رکھی اور کچھ دیر تک منتر پڑھتے رہے اور چڑیل پر پوک دیے جیسے ہی منتر پوک دیے چڑیل سے پتھر بن گیا گاؤں  والوں نے یہ سب دیکھا تو حیران ہوگئے اور چڑیل کا خوف بلکل دل سے نکل گیا اور عامل سے پوچھا سرکار اب اس پتھر کا کیا کرنا ہے چڑیل تو اب واپس نہیں اسکتی عامل نے وہ پتھر اٹھایا اور پرندے پر کچھ منتر پڑھا اور پتھر نیچھے رکھا پرندے نے پتھر اپنے پنجو میں اٹھالیا اور اڑنے لگا اور اوپر کی جانب اتنی دور تک کہ نظر سے غائب ہوگئی عامل نے تمام گاؤں  والوں کو کہا کہ اپنے سب لوگوں کو بلاوں اور خوشی خوشی رہا کرو اج کے بعد چڑیل یہاں کبھی بھی نہیں آئے گی گاؤں  والوں نے عامل سے پوچھا کہ وہ پتھر کہاں لے گیا عامل نے کہا کہ سمندر کے بیچ میں گرانے کو بولا جہاں کوئی انسان نہیں جاسکتا اور اگر بدقسمتی سے پتھر کسی مچھلی کے پیٹ سے بھی نکلا تو لوگ اسے بس ایک پتھر سمجھ کے گرادینگے اور نہ چڑیل بغیر منتروں کے اس پتھر سے واپس اسکتی ہے یہ سب سن کے گاؤں  والے بے حد خوش ہوگیا اور عامل کا بہت شکریہ ادا کیا اور کچھ دن گاؤں  میں مہمان رکھا اور خوب مہمان نوازی کی سالوں گزرگئے لیکن جوان بچوں بوڑھوں کی زبان پر اج بھی اسی چڑیل کی کہانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔