بچے_کھانے_والی_ڈائن🧟‍♀️

آصف خان

یہ ایک حقیقی دل دہلا دینے والی داستان ہے جس میں ایک ڈائن گاؤں میں رہنے والی فیملی کے بچے بہت ہی چلاقی سے کھا جاتی ہے۔

horror picture,horror stories in urdu,horror novels, best novel in urdu,urdu kahani,baby eating witch, Urdu Kahaniya, Urdu Novels, Horror time, urdu novels list
Baby Eating Witch-by Asif Khan

#Dont_Copy_Paste_Without_My_Permission🚫

حیدر کی ماں نے اک عادات اٹھنا بیٹھنا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ بیٹا نا صرف فرمابردار ہے بلکہ باپ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اس نے اس گھر کی زمہ داریاں اس طرح سنبھال لی ہیں کہ باپ کی بنائی ہوئی شاپ پہ وہ صبح جا کے بیٹھتا ہے اور رات جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو دکان بند کر کے وہ سیدھا گھر آ جاتا ہے،،

اب ماں کو محسوس ہوا کہ مجھے اب اس کی شادی کر دینی چاہیے کیونکہ اب وہ نوجوان تو ہے لیکن زندگی کی ضروریات جتنی بھی ہیں وہ اس طرح فرمابرداری سے چلا رہا ہے کہ اب اس لائک بیٹا ہے کہ میں اس کی شادی کروں،

اور ماں نے یہی کیا۔

حیدر کی شادی کر دی ،،،

بہت خوش تھا وہ نوجوان شادی کے بعد بیوی بھی بہت فرمابردار ملی ساس کا بھی خیال کرتی حیدر کا بھی خیال کرتی،،

وقت تیزی سے گزرنے لگا اور حیدر اسی طریقے وہ جو باپ کی ایک چھوٹی سی دکان تھی وہ دکان کے اندر جا کے صبح صبح بیٹھتا تھا اور سارا دن وقت وہیں گزارتا ۔

دن کا کھانا گھر سے بنا کے لے جاتا تھا اور وہیں شاپ پہ ہی کھا لیتا یہاں تک کہ جب رات ہوتی تو گھر واپس آتا بیوی بچوں کے ساتھ کھانا کھاتا سو جاتا۔

کچھ عرصہ بعد اللہ تعالٰی نے بیٹا دیا

بڑا بڑا بیٹا ہوا اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوئی بیٹی کی شکل میں اور تیسرے نمبر پہ پھر ایک بیٹا ہوا،،،

وقت کے ساتھ ساتھ اولاد ہوتی رہتی ہے پہلی دفعہ ان کے ہاں بیٹا ہوا کچھ عرصہ بعد بیٹی ہوئی اور پھر کچھ عرصہ بعد بیٹا

زندگی بہت ہی خوبصورت اور اچھی گزر رہی تھی۔

ایک چھوٹا سا کچا سا گھر تھا جس کے دو کمرے تھے بڑا سا صحن تھا صحن کے ایک کونے کے اوپر چھت لگا کر کچن ٹائپ بنا دیا گیا تھا۔

اور وہ جو کچے سے کمرے تھے اندر کی طرف بھی ان کی کھڑکی تھی ایک وینٹیلیشن کے لیے اوپر کھڑکی لگائی ہوئی تھی مٹی کے وہ گھر تھے۔

گاؤں کی زندگی میں جو مٹی کے گھر پہلے بنے ہوتے تھے وہ بہت ہی خوبصورت ہوتے تھے خوشبودار ہوتے تھے مٹی کی بھینی بھینی خوشبو جن لوگوں نے سونگھ رکھی ہے ان کو پتا ہوگا کہ کتنی خوبصورت ہوتی ہے کتنی دل کو خوش کر دیتی ہے ۔

جب گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے تو انسانوں کے دل انتہائی خوبصورت تھے محبتیں بے انتہا تھیں اتنی پیار ومحبت کا سلسلہ تھا کہ کبھی لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے تھے فرق نہیں ہوتا تھا یہ چیز تمہاری ہے یا میری فرق نہیں ہوتا تھا دوست اپنی چیز دوسرے دوست کو دے کے کہتا تھا تمہاری ہے لے جاؤ، یہ تو وقت تیزی سے بدلا کہ ہر انسان کے اندر یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ میں اپنی چیز لوں گا وہ اس کی ہے یہ میری نہیں ہے تو فرق ختم ہو گیا، فرق یہ شروع ہو گیا کہ یہ آج سے میری ہے وہ تمھاری ہے۔

پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ گہما گہمی اس طرح بڑھی شور شرابہ اس طرح بڑھا کہ آج دس لوگ بھی کمانے والے ہیں تو گھر پھر بھی پورا نہیں ہوتا اور اس دور میں ایک کماتا تھا سارا گھر بیٹھ کے کھاتا تھا کیونکہ وہ محبتوں کا سلسلہ تھا حوَس نہیں تھی لالچ نہیں تھی پیار ہی پیار تھا ۔

حیدر صبح جاتا شام کو واپس آتا جب بچے ہو گئے پھر کبھی کبھی جلدی آ جاتا اور بچوں کے ساتھ ٹائم گزارتا بچے گھر کے اندر پھول ہوتے ہیں جب آپ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو وہ سامنے جیسے ہی آتے ہیں تو انکی خوشبو سے آپ مہک اٹھتے ہیں دن کی جتنی بھی تھکاوٹ ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے۔

کیونکہ وہ خود ایک اچھا انسان تھا بیوی اچھی ملی تھی تو گھر خوش ہی خوش تھا ،،،

ایک دن ماں نے کہا آج جلدی آنا بچوں کو لے کر کہیں باہر چلیں گے،،،

اُس نے کہا ٹھیک ہے ماں!

جلدی گھر پہنچا بیوی اور تینوں بچوں اور ماں کو لیا اور باہر نکل گئے،

چھوٹا سا گاؤں تھا وہاں پہ اس دور میں پارک اور اس طرح کے گھومنے کا کونسیپٹ تو نہیں تھا ان دنوں میں لیکن چلے جاتے تھے پھر بھی زرا چہل قدمی اور گھوم پھر کے درختوں میں باغوں میں دیکھ کے آ جاتے تھے،،

وہ چھوٹی سی فیملی وہیں سے گزر رہی تھی کہ وہیں ان کے گاؤں کی ہی خاتون تھی وہ ان کے سامنے آئی اور اس نے اس کی ماں کو سلام کیا اس کی بیگم کو سلام کیا حیدر کو سلام کیا،

تو وہیں کھڑے ہو کے باتیں کرنا شروع ہو گئے حال احوال پوچھا ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی کہاں پہ گھر ہے کونسا گھر ہے ، سارے گھروں کا ایک دوسرے کو عموماً پتا ہوتا تھا لیکن کہیں کہیں کبھی کوئی چہرے ایسے بھی ہوتے تھے جن کا نہیں پتا ہوتا تھا تو وہ چہرہ شائد ان کو ایسا لگا کہ شائد ہم ان کو پہلے کیوں نہیں ملے ؟ جب کے وہ خاتون ینگ سی لڑکی سی تھی ،

اس کا کہنا یہ تھا کہ میں تو آپ کو جانتی ہوں آپ لوگ مجھے نہیں جانتے !

تو ماں نے انوائیٹ کیا خوش دلی سے کہ ہمارے گھر بھی کبھی چکر لگانا؟

اس نے کہا ضرور میں ان شاءاللہ آپ کے ہاں بھی آؤں گی!!

کچھ دن گزرے تو وہی لڑکی حلوا بنا کے وہ میٹھا حلوا لے کے دروازے کو کھٹکھٹایا،،،

حیدر کی بیوی نے جب دروازہ کھولا تو وہ باہر کھڑی تھی،

اس نے خوش دلی سے ویلکم کیا اندر آجاؤ،،

اس کو یاد آگیا یہ وہی لڑکی ہے جس کو دعوت دی تھی کہ ہمارے گھر بھی آنا ،،،آج وہ کچھ برتن لیے کھڑی تھی جب اندر آئی تو ماں نے پوچھا کون ہے ؟

اس نے کہا ماں یہ آئی ہے!!

ماں نے بھی خوش دلی سے ویلکم کیا بیٹھنے کو کہا اور جس طرح گاؤں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کھائیں گی کیا پیئیں گی یہ ہے وہ ہے ،

تو اس نے کہا یہ حلوا تھا آج آپ کے لیے لے کے آئی ہوں !

تو وہ حلوا اس نے دیا اور تھوڑی دیر بیٹھی پھر چلی گئی،،،

حیدر کی بیوی کو میٹھا بہت پسند تھا اور جس دن وہ ملے تھے تو ایسے کچھ دیر کھڑے رہے تو باتوں باتوں میں اِس نے کہا کہ مجھے میٹھا بہت پسند ہے تو اُس نے وہیں پہ کہا تھا کہ چلیں میں میٹھا بہت زبردست بناتی ہوں کبھی آپ کو کھلاؤں گی،،

اس نے اس کو میٹھا کھلادیا اور وہ چلی گئی تو حیدر کی بیوی نے بہت شوق سے میٹھا کھایا ،،

ماں کا دل تو بہت چاہا کہ وہ میٹھا کھائے لیکن وہ پرہیز کرتی تھی اور تبیعت ایسی تھی کہ یہ نہ ہو کہ کہیں میں کسی بیماری کا شکار ہو جاؤں،،،،

یہاں تک کہ حیدر کے آنے سے پہلے وہ میٹھا ختم کر چکی تھی کھا چکی تھی،،،

وہ ایسا لذیز تھا کہ جیسے ہی اس نے کھانا شروع کیا اپنے ہاتھ کو روک نہ سکی اور کھاتی ہی گئی،،،

جب وہ کھا چکی تو ایک بات پہ حیران تھی اتنا زیادہ ایک تو میں کیسے کھا گئی دوسرا میں نے کسی اور کو بھی آفر نہیں کی ایسا کیسے ہوا ؟؟؟

کیونکہ اس کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ میٹھا کھا رہی ہے یا کیا کھا رہی ہے،

کچھ دنوں کے بعد وہ بیٹھی ہوئی تھی تو اس کا دل گھبرانے لگا اور اس کو ایسے لگا اس کی تبیعت خراب ہو رہی ہے اور یہ پہلا دن تھا کہ جب اس کی تبیعت ایسی خراب ہونی شروع ہوئی کہ پھر تبیعت سنبھل ہی نہ سکی مسلسل وہ بیمار سے بیمار ہوتی گئی سمجھ سے باہر تھی اس گاؤں کا چھوٹا سا حکیم بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کو کیا ہوا ہے،،،

جو بھی وہ دوائیاں جو کچھ دیتا رہا جو اس وقت کا علاج کرنے والا تھا کامیاب نہ ہو سکا

اور وہ دن آ پہنچا جب وہ اس دنیا کو چھوڑ کر رخصت ہو گئی اس کی ڈیتھ ہو گئی،

گھر والے سارے پریشان تھے حیدر بھی بہت اداس تھا فرمابردار صرف بیوی نہیں گئی بچوں کی ماں بھی چلی گئی تھی ایسی ماں جو بالکل ٹھیک تھی کوئی بیمار نہیں تھی پھر پتا نہیں رب جانے اس کو کیا ہوا کہ بس ایک دفعہ بیمار ہوئی اور ایسی ہوئی کہ دنیا ہی چھوڑ گئی ،،،

بچے بھی ماں کے بغیر اداس ہو گئے،،،

حیدر کی وہی روٹین تھی صبح اس دکان پہ جاتا تھا اور رات کو واپس آ جاتا تھا،

ماں کچھ دن تو کرتی رہی وقت اور گزر چکا تھا بوڑھی ہو گئی تھی حیدر کو رات کو کھانا کھاتے ہوئے کہنے لگی صحن میں بیٹھے ہوئے تھے،

اس نے کہا بیٹا تو تو اپنی زمہ داری پوری کر لیتا ہے کہ صبح صبح جاتا ہے پانی بھر کے لے آتا ہے گھر کے اندر پانی رکھتا ہے جو جو کچھ پکانا کرنا ہوتا ہے تو مجھے دے کے چلا جاتا ہے میں پکا بھی دیتی ہوں لیکن میں اب تھک گئی ہوں میں اب بوڑھی ہو گئی ہوں،،

لیکن ان بچوں کا خیال بھی نہیں رکھ پاتی اتنا زیادہ ، کہیں کوتاہی نہ ہو جائے مجھ سے ان کا خیال رکھتے ہوئے ،

تو میری خواہش یہ ہے کہ شادی کر لو،

چھوٹا سا دیہات تھا گھروں کے اندر کوئی پانی کا سسٹم نہیں ہوتا تھا

حیدر جاتا تھا جس جگہ پے نہر ٹائپ بنی ہوئی تھی وہاں سے وہ پانی بھر کے لاتا تھا اور گھر کے اندر مختلف جگہوں پر برتن رکھے ہوئے تھے جو پانی سے بھر دیئے جاتے تھے،،

اور سبزی شبزی جو کچھ پکانا ہوتا تھا وہ ماں کو دے کے جاتا تھا،،

اُس نے کہا ماں میں سوچتا ہوں

کچھ دن اس نے غور وفکر کیا اس کو اندازہ ہوا ،،ہاں،، ماں بوڑھی ہو گئی ہے مجھے ماں کو تکلیف نہیں دینی چاہیے

میں شادی اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ مجھے شادی کی ضرورت ہے مجھے آج بھی اپنی بیوی کی یاد آتی ہے مگر ماں سچ کہتی ہے ماں بہت بوڑھی ہو گئی ہے اب مجھے ماں کو اور نہیں تھکانا چاہتے اور اسے آرام دینا چاہیے ،،

اور پھر ماں نے کہا میں تمہارے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈتی ہوں کوئی عورت ،،

کیونکہ وہ وہ تین بچوں کا باپ بھی تھا، ماں بھی ان باتوں کو سوچ ہی رہی تھی کہ پھر وہ لڑکی ان کے گھر آگئی جو حلوا دے کے گئی تھی۔

ماں نے اس کو خوشی سے ویلکم کیا،،

اُس نے پوچھا بھابی کہاں ہے؟

تو اس بتایا بھابی اللہ کو پیاری ہوگئی

اس بات کا تو سارے گاؤں والوں کو پتا ہے تمہیں کیوں نہیں پتا ؟

تو اس لڑکی نے کہا میں گاؤں سے گئی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اس دن بتایا کہ میرے ماں باپ کوئی بھی نہیں ہیں میں اکیلی رہتی ہوں خود محنت مزدوری کرتی ہوں کچھ چیزیں اکٹھی کرتی ہوں بناتی ہوں بُنتی ہوں اس کے بعد شہر لے کے جاتی ہوں ان کو بیچ کے آتی ہوں اس سے اپنا گزر بسر کرتی ہوں لیکن آپ پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟

اس نے کہا پریشان اس لیے ہوں تین بچے ہیں ماں چلی گئی ہے اور میں اس کے لئے میں رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں !!!

وہ تھی تو نوجوان اس نے سر نیچے جھکایا ہوا تھا اس نے کہا اگر میرے ماں باپ ہوتے تو شاید وہ یہ بات کرتے، شرم کا تقاضا یہ ہے میں کوئی ایسی بات نہیں کر سکتی لیکن ان بچوں کو میرا دل کرتا ہے کہ میں ماں کا پیار دوں،،،

یہ اک ایسا جملہ تھا جو فوراً ماں سمجھ گئی کہ وہ شادی کے لیے اقرار کر رہی ہے کہ ہاں میں آپ کی بہو بننے کو تیار ہوں اگر آپ رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں،،،

تو ماں کے لیے خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ایک نوجوان لڑکی اس کے بیٹے کے لیے ہاں کر رہی تھی ،،

اس نے خوشی خوشی بیٹے کو بتایا کہ میں نے تمہارے لئے بہو ڈھونڈ لی ہے اور جب بیٹے نے سنا تو اس نے سر جھکا لیا اس نے کہا ماں جب آپ کا حکم آیا اور میں نے اس پہ سوچا تو میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا جو جو آپ کو بہتر لگے ،،

سادگی کے ساتھ اس لڑکی سے گنتی کے دو تین لوگ بلا کے کیوں کہ اک شادی شدہ جس کی بیوی کی ڈیتھ ہو چکی تھی ایسے شخص کی جب دوبارہ شادی ہوتی ہے تو خاموشی سے ہوتی ہے تو گاؤں کے چند ایک دو لوگ آئے مٹھائی وغیرہ تقسیم کی گئی اور نکاح پڑھا دیا گیا ، کسی کو زیادہ نہیں بلایا گیا،،،

حیدر کی اسی طرح روٹین تھی صبح پانی بھر کے لانا گھر کے ضروریات کی ساری چیزیں گھر فراہم کرنی جو جو چیزیں تھیں وہ لا کے دیتا اور اس کے بعد دکان پہ ایسا جاتا اپنا کھانا لے کے کہ پھر رات کو ہی واپس آتا،،،

پرچون کی اس کی دکان تھی، نمک مرچ گھی اس طرح کی جو چھوٹی چھوٹی دکانیں ہوتی ہیں دیہات کے اندر،،،،،

وہ لڑکی اس گھر میں کیا آئی جیسے اک رونق سی آگئی ہو اس نے گھر کو اس طرح سنبھالا کہ ماں کی بے انتہا خدمت کی بچوں کو اس طرح ماں کا پیار دیا کہ حیدر بھی حیران ہوا کہ وہ صرف اچھی زبردست قسم کی بیوی ثابت نہیں ہوئی بلکہ ایک بہت اعلیٰ قسم کی ماں بھی ثابت ہو رہی ہے جو بچوں کو بے انتہا پیار کرتی ہے اور اس کی ماں کا بھی بہت زیادہ خیال رکھتی ہے اپنی ساس کا،،

ساس بہت خوش تھی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کیسی رحمت کی ہے میرے اوپر کے ایسی زبردست مجھے دوبارہ سے بہو ملی ہے جو میرا بھی خیال رکھ رہی ہے بچوں کا بھی اور میرے بیٹے کا بھی،،،

اس نے کچھ دنوں میں ہی ماں اور بیٹا دونوں کے ہی دلوں میں بہت زیادہ جگہ بنا لی،،،

زرینہ جو اس لڑکی کا نام تھا،، اس نے بہت زیادہ کہا حیدر سے کہ میں پانی بھی خود لے آیا کروں گی تو حیدر نہ مانا کہ نہیں یہ کام ہمیشہ سے میں ہی کرتا ہوں میں نہیں چاہوں گا ،

اس نے کہا کہ ہیلپ کرنے کو تیار ہوں میں ساتھ چلا کروں گی پانی اکٹھے لے کے آئیں گے تو اس نے کہا ،، نہیں،، پانی میں خود لے کے آیا کروں گا،

وہ اتنی فرمابردار تھی اصل میں اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے جتنے کام ہیں وہ میں کرنا چاہوں گی آپ صرف دکان کو دیکھا کریں،،،

حیدر بہت خوش تھا زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی کہ ایک دن وہ دکان پہ بیٹھا تھا کہ اس نے دیکھا ماں تیزی سے چلتی ہوئی دکان کی طرف آ رہی ہے تو وہ ایک دم اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور ماں کو دیکھتے ہی بھاگ کے ماں کے پاس پہنچا کیا ہوا ہے ؟

ماں نے بتایا، سب سے چھوٹا بیٹا تمہارا گھر میں نہیں مل رہا کافی دیر ہوگئی ہے،

میں پریشان ہو کے باہر نکلی ہوں کہ تم آؤ اور آ کے دیکھو کہاں ہے،،،

جلدی سے وہ ماں کے ساتھ گیا اور اس نے گھر اور ارد گرد ڈھونڈنا شروع کیا یہاں تک کہ اس کو احساس ہوا کہ بچہ کہیں موجود نہیں ہے،،

ہر گھر سے پوچھتے پوچھتے یہاں تک کہ شام ہو گئی شام سے رات ہوگئی پورا وہ چھوٹا سا دیہات اس بچے کو ڈھونڈ رہا تھا، جو اس سے لگتا تھا کہ یا تو زمین کھا گئی ہے یا کوئی بلا کھا گئی ہے بچہ نا ملا ،

اس گھر کے اندر ایسی ایک قیامت سی آئی ہوئی تھی کہ ماں بھی رو رہی تھی باپ بھی رو رہا تھا اور وہ نئی دلہن نئی ماں زرینہ بھی بیٹھی سب سے زیادہ رو رہی تھی کہ یہ کیسے ہوگیا، وہ بار بار پچھتاتی تھی روتی تھی کہتی تھی کہ میں صرف لیٹی ہی تھی دن کا ٹائم تھابچے بھی میرے ساتھ لیٹے ہی تھے دوسرے کمرے میں ماں لیٹی تھی کہ میری آنکھ لگی اور میں نے اٹھ کے دیکھا کوئی میں دو اڑھائی گھنٹے کے لئے سوئی اٹھ کے دیکھا تو دو بچے تھے وہ نہیں تھا میں نے اس کو آوازیں دینا شروع ہوئی اور جب میں باہر گئی مجھے نظر نہیں آیا یہاں تک کہ اس نے ماں کو بتایا اور ماں نے بھی ڈھونڈنا شروع کیا نہیں ملا پھر وہ بیٹے کے پاس پہنچی،

اب پورا گاؤں پریشان تھا کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی ہفتہ گزر گیا مہینہ گزر گیا چھے مہینے گزر گئے بچہ نہیں ملا ، یہ گاؤں کے لیے ایک بہت خوفناک بات تھی یہ واقعہ پہلی دفعہ ہوا تھا،

حیدر کی ماں کو اب ہر وقت دل میں ایک دھڑکا سا لگا رہنے لگا یہ کیا ہوا ہے میرا بیٹا کہاں گیا میرا معصوم سا بچہ کہاں گیا،،،

اب وہ آنکھوں کے سامنے ان کو رکھتی اور بچے کہیں اگر ادھر ادھر ہو جاتے تو وہ جھانکتی بار بار جا کے دیکھتی بچے کہاں ہیں ،

ایک دن ماں اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی تو اس نے دیکھا باہر بچوں کی آواز نہیں آرہی، یہ گرمیوں کے دن تھے،

اس نے سوچا کہیں سو رہے ہوں گے، لیکن اس کے دل میں عجیب سا ایک دھڑکا سا ہوا تھا کہ آج جلدی کیسے سو گئے،

یہ تو عموماً دن کو فُل دھوپ میں سوتے ہیں آج جلدی کیسے سو گئے،

تو وہ آہستہ سے اٹھی تسبیح اس کے ہاتھ میں تھی وہ چلتی ہوئی گئی اس نے کھڑکی سے جھانک کے دیکھا تو اندر ایک ایسا منظر تھا کہ اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے،

کھڑکی جو تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی جس کے پیچھے کھڑی وہ دیکھ رہی تھی، وہ چُھپی ہوئی نہیں تھی وہ اس طرح کھڑی ہوئی تھی کہ بچے جاگ نہ جائیں یا میری آہٹ سے ان کی آنکھ نہ کھل جائے،

اس نے دیکھا بڑا بیٹا سویا ہوا ہے اور جو چھوٹی بیٹی ہے اس کا ایک پاؤں ہاتھ میں پکڑے زرینہ اپنی زبان سے اس کے پاؤں کو چاٹ رہی ہے،

ماں اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ پاؤں کو پکڑ کے چاٹ کیوں رہی ہے؟

اب اس کی آنکھیں مسلسل زرینہ کو دیکھ رہیں تھیں کہ زرینہ یہ کیا کر رہی ہے ؟

لیکن زرینہ اس وقت ایک عام سی عورت ہی تھی اس کی زبان بھی اتنی ہی زبان تھی جتنی انسان کی زبان ہوتی ہے وہ شائد سمجھی کوئی اور بلا تو نہیں کوئی اور مخلوق تو نہیں لیکن وہ اک عام سی زرینہ تھی،،

لیکن یہ حرکت عجیب و غریب تھی کہ وہ پاؤں کو چاٹ رہی تھی ،،،

ماں چپکے سے واپس اپنے بستر پہ آگئی، سو نہ سکی دن کے ٹائم میں دل کو دھڑکا لگا رہا یہاں تک کہ دو تین گھنٹوں کے بعد بچے بھاگتے ہوئے اس کے پاس آگئے اور دادی دادی کر کے اس سے لپٹ گئے جس طرح عموماً ملتے تھے تو اس کے دل کو تسلی ہوئی کہ جو میں نے منظر دیکھا ہے شاید میری آنکھوں کا دھوکا ہے یا پتا نہیں ماں کی محبت میں ممتا کی محبت میں وہ ایسا کر رہی ہے،

ہے تو وہ بہت اچھی لیکن اس نے یہ کیسے کیا؟

وہ یہ بات دل میں دبا گئی کہ میں بیٹے کو کہوں گی اس کے دل میں وہم آئے گا کہ اتنی پیار کرنے والی بیوی اتنی محبت کرنے والی ماں جس نے بچوں کو ماں بن کے دکھایا ہے یہ اس کے بارے میں میری ماں کیسی بات کر رہی ہے تو وہ چپ ہو گئی لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی بات بیٹھ گئی،،،،

اگلے دن حیدر کی چھوٹی بیٹی جس کے اس نے پاؤں کو چاٹا تھا صبح زرینہ ناشتہ بنارہی تھی اور ماں بیٹا ناشتہ کر رہے تھے بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے کہ وہی بچی چلتی ہوئی جارہی تھی کہ کچھ قدم چلی کہ ایک دم سے گر پڑی یہ ایک عام سی بات تھی حیدر کے لیے زرینہ کے لیے لیکن ماں کے لیے ایک عجیب سی بات تھی کہ بچی کبھی اس طرح گری نہیں ہے یہ آج کیسے گری ہے ؟

کیونکہ ماں کے دل میں ابھی تک وہ بات تھی جو اس نے زبان سے پاؤں چاٹتے ہوئے دیکھا تھا ،

اُس نے کوئی بات نہیں کی حیدر بھی اپنے روٹین کے کام کرتا ہوا شاپ پہ چلا گیا لیکن اس شام دوبارا سے ماں نے اس بچی کو گرتے ہوئے دیکھا تو اب اس کے دل میں ایک دھڑکا سا لگ گیا اک خوف سا بیٹھ گیا کہ بات کچھ اور ہے یہ بچی کیوں گر رہی ہے،

اگر وہ کسی سے بات کرتی تو کوئی اس کو کہتا کہ کس طرح کی بات سوچ رہی ہو ماں یہ عام سی بات ہے،

لیکن وہ ڈر رہی تھی کہ میں چاٹنے والی بات بیٹے سے کہوں پتا نہیں وہ میری بات پہ یقین کرے یا نہیں لیکن مجھے کیا کرنا چاہیے؟ ابھی اسی شش و پنج میں تھی کہ اس کو دو سے تین دن گزرے تھے،

ماں خود فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ میں کروں تو کیا کروں، لیکن اس کے دل کے اندر جو ایک وہم ایک شک ایک خوف جو بیٹھ چکا تھا، وہ اتنا خوفناک ہوتا جارہا تھا کہ اسے اب زرینہ سے ڈر لگنے لگا تھا،،،

اب وہ گاہے بگاہے اٹھتی اور کھڑکی میں سے جھانکتی جب بھی بچے اور زرینہ آنکھوں سے دور ہوتے، اس کا خوف بڑھ چکا تھا،

اور پھر ایک دن ایسا ہوا،،،،،، تھی تو وہ بہت بہادر لیکن اس کے باوجود ڈری ہوئی تھی، پھر اس طرح اس کے دل کے اندر اک خوف کا عالم پیدا ہوا وہ اٹھی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس کے دل کو لگا کہ آج پتا نہیں کیا ہونے جارہا ہے،

وہ اٹھی اور جب کھڑکی کے قریب گئی تو وہ منظر ایسا منظر تھا جو حیدر کی ماں نے دیکھ تو کیا لیکن وہیں کھڑے کھڑے اس کو لگا کہ وہ یا تو مر جائے گی یا بے ہوش ہو جائے گی یا آج اس کی زندگی کے لمحے چل رہے ہیں،

اس کی آنکھوں نے جو منظر دیکھا کمرے کے اندر وہ بہت ہی،،،بھیانک منظر تھا،،

وہ جو زرینہ جس نے اس بچی کے پاؤں کو پکڑ کے چاٹا تھا،

آج وہ اس کی پوری ایک ٹانگ کھا چکی تھی اور اس کے دونوں بازو اس کے جسم سے پہلے ہی غائب تھے،

جب ماں نے اندر جھانکا تو دونوں بازو نہیں تھے ایک ٹانگ وہ کھا چکی تھی اور ایک ٹانگ تھی جو اس کی بچی ہوئی تھی،،، جس جگہ پہ وہ بیٹھی کھا رہی تھی اس نے ایک چادر لال کلر کی بچھائی ہوئی تھی کہ خون اس طرح جمع ہو کہ اس چادر کے اوپر جمع ہو اور جو اس چادر سے نکل رہا تھا نیچے وہ برتن رکھ کے بیٹھی تھی، جس کے اندر سارا خون جارہا رہا تھا،،

بڑا بیٹا اس طرح مدہوش پڑا ہوا تھا جیسے اس کو کسی نے کوئی نشے والی چیز پلا دی ہو اس کو ہوش ہی نہ ہو،

اور زرینہ اس معصوم کو بیٹھی کھا رہی تھی،

فرق تھا تو صرف اتنا تھا کہ زرینہ جس کے آج ہاتھوں کے ناخن بڑھ چکے تھے، چہرہ وہ زرینہ کا چہرہ نہیں تھا چہرہ بدل چکا تھا، دانت آگے سے بڑے ہو چکے تھے،

اور جس طرح وہ کھا رہی تھی تو اس سے لگتا تھا جیسے کوئی درندہ بیٹھا کھا رہا ہو بے خوف ہو کے جیسے اس کو کسی چیز کا ڈر ہی نہ ہو،،،،

ماں کو لگا کہ میں بولی میں نے کوئی آواز پیدا کی یا کوئی کھٹکا ہوا تو شاید یہ مجھے بھی کھا جائے گی، الٹے قدموں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں پہنچ گئی جس کی آنکھوں کے آگے جو منظر گھوم رہا تھا تو صرف یہی تھا کہ زرینہ بیٹھی چھوٹی بچی کو کھا رہی تھی جس کی کچھ دن پہلے وہ پاؤں چاٹ رہی تھی جس کی وجہ سے بچی گرتی پھر رہی تھی، شاید اس دن بھی اس کو کھا جاتی لیکن اس نے اپنا ارادہ بدل دیا،،،،،

اب ماں کو اندازہ ہوا جو چھوٹا چھوٹا بیٹا غائب ہوا تھا وہ غائب نہیں ہوا وہ یہ کھا گئی تھی ،، آج وہ بیٹھی دوسری بچی کو کھا رہی ہے،،

جس وقت ماں پیچھے کھڑی دیکھ رہی تھی تو اس زرینہ کی پیٹھ تھی ماں کی طرف،

لیکن جب اس کے ہاتھ سائیڈوں پہ ہوتے تھے تو وہ دیکھتی تھی اس کے بڑے بڑے ناخن ہیں ،

اس نے اس کا چہرہ سامنے سے تو نہیں دیکھا لیکن سائیڈ سے جتنی اس نے جھلک دیکھی تھی تو اس کو اندازہ ہو گیا تھا کوئی ڈھانچہ ہے یہ زرینہ نہیں ہے کوئی اور ہے جو بیٹھا کھا رہا ہے،

تھا اس کے جسم پہ تو وہی لباس تھا جو زرینہ نے پہنا ہوا تھا جس سے ماں کو اندازہ ہوا کہ زرینہ ہی بیٹھی ہے لیکن چہرہ اور ہاتھ زرینہ کے نہیں تھے شاید وہ کسی اور روپ میں بیٹھی اس کو کھا رہی تھی،،،

ماں نے کانپتے ہوئے اپنے بستر پہ بیٹھ کے سوچنا شروع کیا کہ میں نے ایک دم چیخنا چلانا یا کوئی اس طرح کی حرکت کی تو اس سے نقصان یہ ہوگا کہ وہ مجھے بھی مار ڈالے گی،

ایک بات تو ماں کو سمجھ آگئی تھی پہلا بچہ اس نے کس طرح غائب کیا تھا کہ قطرہ تک خون کا نہیں ملا تھا آج بھی وہ پورا انتظام کر کے جس طرح بیٹھی ہے اس کا مطلب ہے آج بھی یہ کوئی نشان نہیں چھوڑے گی،

ماں دھڑکتے دل کے ساتھ لیٹ گئی اور کچھ گھنٹوں کے بعد زرینہ کمرے میں داخل ہوئی اور پریشانی کے عالم میں کہا ماں جی آج چھوٹی بچی نہیں مل رہی پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے،،

ماں جی ایک دم چھلانگ مار کر اٹھ کے بیٹھ گئی اور کہا کیا کہہ رہی ہو زرینہ؟

ماں کی آواز جو پہلے کانپ رہی تھی جسم کانپ رہا تھا اور زیادہ کانپنا شروع ہو گیا،،،، کیا کہہ رہی ہو؟

ماں نے اسی طرح شو کروایا کہ کسی بات کا نہیں پتا،،،،،،،

اس نے کہا ماں جی وہ غائب ہو چکی ہے،،،،

اور ماں بھاگتی ہوئی گئی اندر کمرے میں دیکھنے کے لیے تو اس نے دیکھا بیٹا پڑا اسی طرح لیٹا ہوا ہے جیسے مدہوش تھا لیکن اور کوئی کپڑا کوئی نیچے برتن کوئی نشان تک بھی نہیں تھا لیکن کچھ دیر پہلے کچھ گھنٹے پہلے یہاں پہ زرینہ نے کچھ کھایا تھا بیٹھ کے،

وہ اس طرح سارا صاف کر کے آ چکی تھی کہ اس نے نام و نشان تک نہیں چھوڑا تھا،،،،

ماں نے رونا شروع کر دیا کانپنا شروع کر دیا ڈرنا شروع کر دیا اور زرینہ یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ پھر خوفزدہ ہو گئی ہے خبر سن کے کہ دوبارہ بچی بھی غائب ہو گئی ہے،،،،

وہ بھاگی اپنے بیٹے کی دکان کی طرف اس کو بتانے کے لئے کہ بیٹی غائب ہو گئی ہے لیکن اس نے بیٹے کے پاس جا کے جب بیٹے کو دیکھا تو بیٹا سمجھ گیا ماں کی شکل دیکھ کے کہ آج پھر کوئی بڑا ہو گیا ہے،،،

اس نی کہا ماں کیا ہوا ہے ؟

اس نے کہا بیٹا،،،، چھوٹی غائب ہو گئی اور ماں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا ،،،

بیٹے کو جب ماں نے گلے لگایا حیدر کے گلے لگتے ہی ماں ایسی روئی ایسی روئی کہ وہیں پہ کھڑی کھڑی دکان کے سامنے ہی بیہوش ہو گئی،،،

سب یہی سمجھ رہے تھے کہ اس کے بچھڑنے کا ڈر غم اس ماں کے اندر ایسے بیٹھا ہے کہ اس کو اپنی پوتی بے ہوش کر گئی ہے اس خبر نے اس کو بے ہوش کر دیا ہے کہ وہ غائب ہو گئی ہے،،،

پھر اسی طرح ڈھونڈا گیا سب نے ڈھونڈا لیکن تھا کہ نام و نشان نہ ملا جیسے وہ چھوٹا بچہ غائب ہوا تھا آج اس کی بڑی بہن غائب ہو گئی تھی،

گاؤں میں بے انتہا خوف پھیل گیا تھا کیونکہ اسی گھر کے اندر آج ایک اور بچہ غائب ہو چکا تھا ،،

کافی دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد حیدر جو نڈھال ہو چکا تھا ایک طرف بچی غائب تھی اور ایک طرف ماں اس حالت میں پہنچ گئی تھی جیسے مر جائے گی ،،،

صرف اس کو سہارا اور آسرا تھا تو اک زرینہ اک بیوی کا تھا جو سب کا بہت زیادہ خیال رکھ رہی تھی،

ماں کی بھی دن رات اس نے خدمت کی ،،،

حیدر جب ماں کے پاس بیٹھتا تھا رات کو تو اس کی آنکھ لگ جاتی تھی لیکن زرینہ ایک لمحے کے لیے نہیں سوتی تھی اپنی ساس کی اتنی خدمت کر رہی تھی،،،

ماں جب کچھ دنوں کے بعد بہتر ہوئی تو حیدر نے ماں کا ہاتھ پکڑ کے کہا جو اللہ کو منظور تھا وہ ہو گیا ماں،،،

لیکن تمہاری اس بہو نے تمہاری بہت خدمت کی ہے دن رات جاگتی رہی ہے ایک لمحے کو بھی سوئی جس طرح اس نے تمہارا خیال رکھا ہے!!!

تو ماں زرینہ کی طرف دیکھتی تھی اور کانپنا شروع کر دیتی تھی ،،

حیدر بالکل بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ ماں کیا سوچ رہی ہے ماں کی کیا فیلنگ ہے،

اور جب زرینہ دوسرے کمرے گئی تو ماں کہا: حیدر تمہیں میں کچھ ایسا بتانا چاہتی ہوں جو سن کے تمہارے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے؛؛

جس طرح میں موت کے منہ سے واپس آئی ہوں شاید تمہاری باری ہے اب!!!

اب اس خبر کو سننے کے بعد تم اس طرح کے ہو جاؤ گے!!

اس نے کہا ماں کہنا کیا چاہتی ہو ؟

اس نے کہا نہیں میں نے اس گھر میں کوئی بات نہیں کرنی بیٹا مجھے باہر کے چلو اور زرینہ کو یہیں رہنے دو ٫٫

اور بیٹے کو بھی ساتھ لے لو

اس نے کہا ٹھیک ہے ماں !!

حیدر نے ایسے کیا کہ زرینہ تم گھر پہ رہو میں بیٹے کو اور ماں کو کچھ دیر کے لئے باہر لے کے جاتا ہو آج زرا یہ بہتر فیل کر رہی ہیں زرا باہر کی ہوا لیں گی ٹھیک ہو جائیں گی،،،

حیدر ماں کو لے کے جب دور پہنچا اس نے بڑے بیٹے دور کھڑا کیا اور اپنے بیٹے کو بتایا،،، بیٹا،،،،، تمہارا پہلا بیٹا بھی اور تمہاری بیٹی بھی کہیں اور نہیں گئے،،،،ان کی،،،ماں،،،، ان کو کھا گئی ہے،،، ماں بچوں کو کھا گئی ہے!!!

اور یہ ایک ایسی بات تھی جس کو سن کے حیدر کو یوں لگا کہ ماں شاید پاگل ہو گئی ہے بیماری کی وجہ سے اس کا دماغی توازن غائب ہو گیا ہے کہتا ہے ماں یہ آپ کس طرح کی بات کر رہی ہو اس عورت نے دن رات جاگ کے جس طرح آپ کی خدمت کی ہے اس کے بارے میں آپ اس طرح کی باتیں کر رہی ہو؟ وہ میرے بچوں کو کھا گئی ہے؟

ماں نے کہا،،،ہاں بیٹا !!

اور ماں نے وہ دونوں باتیں بیٹے کو بتا دیں وہ پاؤں چاٹنے والی اور اس کے بعد کھانے والی؛؛؛

یہ سن کے کافی دیر وہ گم سم سا ہو گیا کہ ماں کیا کہہ رہی ہے،،

اک ایسی بات بتانے جارہی ہے جو دل قبول نہیں کر رہا لیکن یہ بھی دل کر رہا ہے بچے آج تک کبھی غائب نہیں ہوئے وہ کہاں گئے؟ میرے گھر میں ہی کیوں دوسرا بچہ غائب ہوا ہے گاؤں میں آج تک کسی اور کا بچہ کیوں نہیں غائب ہوا؟ ،،

جب سوچتے سوچتے ان خیالوں کی دنیا سے واپس آیا

تو اس نے کہا ماں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اس نے کہا اک کام کرو ٫٫ گھر کے اندر جتنا بھی پانی ہو وہ سارا ضائع کر دینا پانی ختم کر دینا اور تم کہنا سالن میں نمک بہت زیادہ ہے کھانسنا شروع کر دینا اور اس کو کہنا پانی پانی اس طرح کی آوازیں دینا کہ جیسے تم تڑپ رہے ہو یہ تمہیں اور مجھے پتہ ہوگا گھر کے اندر پانی نہیں ہے دیکھنا وہ تمھیں پھر بھی پانی کا بندوست کر دے گی،،

بیٹے کو یہ بات لوجیکلی ٹھیک لگی کہ اگر ماں صحیح کہہ رہی ہے اور ایسی بات ہے تو بجائے میں اس سے جا کے پوچھوں کہ وہ کون ہے کون نہیں، چلو اس طرح کر لیتے ہیں،،،

ماں بیٹے نے ایسے ہی کیا پورے گھر کا پانی جو تھا وہ سارا ضائع کر دیا اور ختم کر دیا اور زرینہ کو نہیں پتا لگنے دیا کہ وہ پانی ختم کر چکے ہیں،

جتنے بھی جہاں جہاں برتن تھے وہ سارے خالی کر دئیے،،

اب اسی طرح اس نے کہا آج سالن میں نمک زیادہ ہے اور کھانسنا شروع کر دیا اور بیوی کی طرف اشارہ کیا زرینہ کی طرف پانی پانی فوراً پانی لاؤ ،،

اب وہ ایسی جگہ پے بیٹھا تھا جہاں پہ وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ باہر کی طرف گئی ہے یا اندر کی طرف گئی ہے،،

زرینہ باہر کی طرف نہیں گئی اندر کی طرف ہی بھاگی کبھی ادھر دیکھا کبھی ادھر دیکھا کبھی ادھر دیکھا پانی کہیں نہ ملا،

اب یہ منظر طریقے سے چھپ کے وہ بھی پیچھے سے دیکھ رہا تھا کہ وہ دوڑتی پھر رہی ہے پانی نہیں مل رہا تو اس نے اونچی آواز میں پھر کہا واپس جا کے اپنی پہ بیٹھ گیا زرینہ لازمی لے آؤ نہیں تو مجھے کچھ ہو جائے گا،،

یہ کہنا تھا یہ آواز دینا تھا کہ اس نے دیکھا زرینہ پھر اندر چلی گئی ہے اب حیدر نے دیکھا کہ وہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس گئی ہے اور وہیں اس نے اپنا ہاتھلمبا کیا جو اس کھڑکی سے نکلتا ہوا کہاں تک گیا یہ حیدر نہیں دیکھ سکا لیکن اتنا ضرور اندازہ ہوگیا کہ وہ ہاتھ دور کہیں گیا، جو گھر کے پاس ہی وہ جگہ تھی جہاں سے وہ پانی بھر کے لاتا تھا اس جگہ سے اس نے پانی بھرا اور جب اس کا ہاتھ واپس آیا تو ہاتھ میں جو مٹی کا برتن تھا وہ پانی سے بھرا ہوا تھا،

تیزی سے وہ اپنی جگہ پہ واپس آیا اور اس نے دیکھا زرینہ باہر آرہی ہے اور اس نے اپنے شوہر کو پانی کا برتن پیش کیا یہ لیں بڑی مشکلوں سے اکٹھا کر کے اندر سے لے کے آئی ہوں،

اس نے پانی پیا اور ماں کی بات اس کو یاد آگئی کہ ری ایکشن نہیں دینا پتا لگ جائے یہ وہی مخلوق ہے تو اس کو محسوس نہیں ہونے دینا، نہیں تو وہ ہم دونوں کو مار دے گی،،،

اب وہ رات کو سویا تو سہی لیکن رات ساری جاگتا رہا تڑپتا رہا خوف میں مبتلا رہا لیکن زرینہ اسی طرح لیٹ گئی سو گئی جس طرح عام زندگی میں سوتی تھی ،

صبح اٹھتے ہی اس نے اپنے سارے کام کیئے اور بھاگا اپنے دوستوں پاس اور ان کو جمع کر کے کہا کہ یہ صورت حال ہے اس میں سے ایک جو تھا اس نے کہا ایک بزرگ ہے ان کو بلاتے ہیں دیکھتے ہیں وہ کیا مشورہ دیتے ہیں ،

بزرگ کے سامنے یہ بات رکھی گئی تو اس نے کہا ،،،،ہاں،،،، بالکل وہ تمہارے بچوں کو کھا گئی ہے اس کو اگر مارنا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے اس کا خون زمین پہ نہیں گرنا چاہئے ورنہ وہ پھر زندہ ہو جائے گی،

اس کو اس طریقے سے مارنا ہے کہ اس کا خون زمین پہ نہ گرے اور وہ مر جائے تو پھر تمہاری جان چھوٹ جائے گی لیکن یہ کام فوراً فوراً کرنا ہے، تم ایک کام کرو،

گھر جاؤ اور بیوی سے کہو کہ میں نے اپنے دوستوں کی دعوت کی ہے ہم بکرا باہر ذبح کریں گے اور سالِم بکرا جو ہوتا ہے اس کو تیل کے اندر کڑاہے کے اندر تلیں گے دوستوں کی فرمائش ہے تم کھانا بہت اچھا بناتی ہو تو تم اس کڑاہ کے اندر اس کو تلنا،،

حیدر نے کہا ٹھیک ہے !!

وہ گھر گیا اسی رات اس نے بیٹھ کے کہا کل میرے دوستوں کی دعوت ہے فرمائش ہے کل میں کڑاہ بڑا سا لے کے آؤں گا اس میں تیل ڈالوں گا اور بکرا ہم باہر ذبح کریں گے میرے دوست ہوں گے اور باہر چارپائیوں پہ بیٹھے ہوں گے تو میری خواہش ہے کہ تم اس کے اندر بکرا ان کو تل کے دو ،،،

تو زرینہ نے کہا ٹھیک ہے میں آپ کو تل دوں گی، ہمیشہ کی طرح فرمابردار بیوی بن کے بولی کوئی مسئلہ نہیں میں آپ کو تل دوں گی,,,

کنستر پورا وہ گھی کا لے کے آیا اور بڑا سا وہ برتن کڑاہ سا اور پھر وہ پورا گھی کا کنستر اس کے اندر ڈال دیا ،،

اور باہر دوستوں کو بِٹھا آیا اور بیوی کو کہا ہم بکرا ذبح کرنے لگے ہیں تھوڑی دیر تک بکرا لے کے آتے ہیں تم ہر تھوڑی دیر کے بعد اس گھی کو دیکھتی رہنا جب فل گرم ہو جائے تم بتانا میں بکرا لے کے آؤں گا،،،

اب اس کے دوست باہر تیار بیٹھے ہوئے تھے اس بزرگ کے کہے ہوئے مشورے کے حساب سے کہ جیسے ہی وہ اس کو پکڑے گا تم بھاگ کے پہنچ جانا،،

اندر گھی گرم ہو رہا تھا اور زرینہ یہی سمجھ رہی تھی کہ باہر بکرا حلال ہو رہا ہے لیکن باہر ایسا کچھ بھی نہیں تھا صرف انتظار ہو رہا تھا گھی کے شدید گرم ہونے کا ،،،

اور آخر وہ لمحہ آ پہنچا جب گھی شدید گرم ہو گیا،

وہ زرینہ کو دوبارہ کہنے آیا کہ زرینہ اس میں جھانک کے دیکھنا جب گھی فل گرم ہو جائے گا تو تمہیں اپنا چہرہ بالکل صاف نظر آئے گا تو مجھے آواز دے دینا،،

وہ باہر دوستوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا تو اس کو زرینہ کی آواز آئی وہ سمجھ گیا کہ گھی گرم ہو چکا ہے اور دوستوں کو اشارہ کیا کہ میں جسے ہی آواز دوں بھاگتے ہوئے آنا

وہ گیا اور دروازے سے داخل ہوتے ہی اس نے زرینہ سے کہا دوبارہ دیکھو فل گرم ہے بھی یا ایسے ہی بلا لیا ہے مجھے،

اور زرینہ آگے بڑھی اور جیسے ہی دیکھنے لگی یہ وہ لمحہ تھا کہ اسی لمحے آتے ہی اس نے زرینہ کی دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑیں اور اوپر اٹھا دیں،

جیسے ہی اس نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں تو وہ سیدھی منہ کے بل اس ابلتے ہوئے گھی کے اندر جا گری اور اس کا گرنا تھا کہ اس کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں،،

اور اتنی دیر میں وہ اپنے دوستوں کو بھی آواز دے چکا تھا،

وہ بھی بھاگتے ہوئے اندر پہنچے اور انھوں نے بھی اسی طرح پاؤں پکڑے زور لگا کے جو باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ جیسے ہی وہ گری تو دوست اتنی دیر میں بھاگ کے پہنچ چکے تھے کیونکہ وہ ان کو اشارہ دے کے آگیا تھا انھوں نے بھی پکڑ کے فوری طور پہ اس کو کڑاہ کے اندر ڈالا کہ کہیں اس کے خون کا قطرہ بھی نیچے گیا جس طرح بزرگ نے کہا تھا کہ زندہ ہو جائے گی اور سب نے اس کو مظبوطی سے پکڑ کے اس کو انتہائی گرم آئل کے اندر کڑاہے کے اندر ڈال دیا،

اب وہ چیخیں مار رہی تھی اور اس کی شکل اس کا جسم بدلتا جا رہا تھا اب وہ انسانی روپ سے ایک اپنے اصلی روپ ڈھانچے کی شکل میں آرہی تھی اور اس کے ہاتھوں کے ناخن اسی طرح بڑھ رہے تھے وہ چہرہ جو ماں نے سائیڈ سے دیکھا تھا وہ آہستہ آہستہ ڈھانچہ بنتا جارہا تھا،

وہ سب ارد گرد کھڑے دوستوں نے دیکھا کہ وہ کوئی انسان نہیں اور بلا تھی جو اس وقت جل رہی تھی اور ایک بات ہی وہ اندر سے کہہ رہی تھی مجھے باہر اگر نکال دو تو جو کہو گے میں دوں گی جو کہو گے میں کروں گی تمہیں خزانے دے دوں گی تمہیں منہ مانگی چیزیں دوں گی مجھے مارو مت مجھے بچا لو مجھے چھوڑ دو جو تم مانگو گے وہ میں دوں گی لیکن وہ اسی انتظار میں رہے کہ جب تک اس کی جان نہیں نکلتی اس کو باہر نہیں نکلنے دینا وہ نکلنے کی کوشش کرتی تو جو ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے تو وہ اس کو مار کے اندر گراتے تھے وہ نکلتی تھی وہ پھر ڈنڈے مار کے اس کڑاہ کے اندر گراتے تھے یہاں تک کہ تڑپتے تڑپتے چیختے چیختے وہ خاموش ہو گئی،

ابلتے ہوئے اس آئل کے اندر وہ خاموش پڑی تھی ، اب آواز تھی تو اکھڑے ہوئے سانسوں کی آواز تھی جو ارد گرد رات کے وقت وہ لوگ اپنی اکھڑی ہوئی ڈری ہوئی سانسوں کے ساتھ اس بلا کو دیکھ رہے تھے اصلی روپ میں وہاں اب تڑپتی تڑپتی مر چکی تھی یا آگ کی چنگاریوں کی آواز تھی جو کبھی کبھی ان کے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ورنہ ایک چیخوں کی آوازیں جو بند ہو چکی تھیں اب خاموشی ہو چکی تھی،، سوائے سانسوں کی اور آگ کی چنگاری کے اب کوئی آواز نہیں تھی اس سے پہلے ایسی دلخراش چیخوں کی آواز تھی کہ وہ سب اپنی ہمت جمع کر کے موجود تھے ان سب کو لگ رہا تھا کہ ان کا دل پھٹ جائے گا ایسی بھیانک اور خوفناک چیخیں مار رہی تھی اور جب وہ مر گئی تو وہ بزرگ بھی آندر آگئے اور انھوں نے کہا اب اس کو دور ایسی جگہ پے جا کے دفن کرو کہ کسی کو اس کا ڈھانچہ بھی نہ ملے ،،

اور انھوں نے ایسے ہی کیا اور اسکو اٹھایا رات کی ہی تاریکی میں گئے اور اس کو دور کہیں ایسی جگہ پے گہرا گڑھا کھودا اور اس کو وہیں پہ ہی رات رات و رات دفن کر دیا،،

سب اپنے گھروں کو تو چلے گئے لیکن سب خوفزدہ تھے اور یہ خبر آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل چکی تھی اس رات گاؤں کا ہر شخص ڈرا رہا کیونکہ اس واقعے کو سن چکا تھا،

ان کو پتا لگ چکا تھا ان دو بچوں کو کھانے والی وہ ماں ہی تھی وہی ڈائن تھی جو ان بچوں کو کھا گئی تھی،

وہ کہیں غائب نہیں ہوئے تھے،

کئی دنوں تک اس گاؤں کے اندر اس بلا کا خوف رہا،

یہاں تک کہ اکثر کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ان کو پتھر بھی آ کے لگتے کہ کوئی رات کو اگر گزرتا تو کہیں سے پتھر آتے اور ان آکے لگتے یہ نا کسی کو پتہ لگ سکا کہ وہ پتھر کہاں سے آتے ہیں،

کئی سالوں تک اس گاؤں کے اندر بے انتہا خوف کی سی فضا رہی، اور جب ایک نسل مرتی ہے اور دوسری نسل پیدا ہوتی ہے تو صرف اس کے پاس کہانی سننے کو رہہ جاتی ہے وہ خوف وہ واقعہ انھوں نے دیکھا نہیں ہوتا اس لیے ان کو اتنا خوف نہیں رہتا ،

بچے جوان ہوئے انھوں نے کہانیاں سنی اور اپنی نسلوں کو ٹرانسفر کرتے گئے اور خوف بھی آہستہ آہستہ اس گاؤں کے اندر ختم ہوتا گیا کئی سال لگ گئے خوف ختم ہونے میں،،

ختم شد

کیسی لگی کہانی؟